Kashf-ur-Rahman - Al-Haaqqa : 37
لَّا یَاْكُلُهٗۤ اِلَّا الْخَاطِئُوْنَ۠   ۧ
لَّا يَاْكُلُهٗٓ : نہیں خھائیں گے اس کو اِلَّا : مگر الْخَاطِئُوْنَ : خطا کار
جس کھانے کو سوائے گنہگاروں کے اور کوئی نہیں کھائے گا۔
(37) کہ اس کھانے کو سوائے گناہ گاروں کے اور کوئی نہیں کھائے گا۔ ان آیتوں میں دین حق کے منکروں کا انجام بیان فرمایا، قیامت میں جب نامہ اعمال اڑائے اور بکھیرے جائیں گے اس وقت منکروں کے بائیں ہاتھوں میں نامہ اعمال دیا جائے گا اور چونکہ نامہ عمل کا بائیں ہاتھ میں آنا علامت ہے تباہی اور بربادی کی اس لئے یہ شخص چیخنا اور پیٹنا شروع کرے گا ہائے میری کتاب اور میرا لکھا میرے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور میرے حساب کی مجھ کو خبر نہ ہوتی اور دنیا میں جو موت آئی تھی بس وہی موت فیصلہ کن ہوتی اور اس کے بعد کوئی قصہ نہ رہتا یا یہ مطلب کہ یہ موجودحالت ہی موجب موت ہوتی یعنی قیامت ہی میری موت کا سبب ہوجاتی اور آگے کوئی قصہ باقی نہ رہتا۔ اسی طرح دنیوی مال اور دنیوی وجاہت و سلطنت پر افسوس کرے گا کہ اس دن کوئی چیز کام نہ آئے گی، کم از کم ایک انسان کو اپنے اعضا اور اپنے جوارح پر وجاہت اور قابو حاصل ہوتا ہے لیکن قیامت کے دن ہاتھ پائوں بھی کہنے میں نہ ہوں گے۔ ارشاد ہوگا ملائکہ کو جو محافظ جہنم ہیں اور جن کا نام زبانیہ ہے کہ اس کو پکڑلو اور طوق اس کے زیب گلو کرو یعنی دونوں ہاتھوں کو گلے کے ساتھ ملا کر جکڑ دو اور اس کو دوزخ میں داخل کرو پھر ایک ایسی زنجیر میں جس کی مساحت اور پیمائش شتر گز ہو اس زنجیر میں اس کو داخل کرو یعنی جکڑ دو ۔ آگے عذاب کی وجہ بیان کی کہ یہ اللہ تعالیٰ جو بزرگ و برتر ہے اس پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور باوجود منکر ہونے کے بخیل اس قدر تھا کہ کسی مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب وتحریص نہ کرتا تھا یعنی اپنے گھر والوں اور اپنے متعلقین کو بھی ترغیب و تاکید نہ کرتا تھا کہ فقیروں اور محتاجوں کو کھانا کھلایا کرو اس کا نہ تو آج کے دن یہاں کوئی ہمدردی کرنے والا دوست اور قرابت دار ہے اور نہ سوائے کچلہو یعنی خون آلود پیپ کے جو زخموں کا غسالہ ہوتا ہے کوئی اور چیز اس کے کھانے کو و ہے یہ اہل جہنم کے زخموں کا غسالہ نہیں کھاتے مگر اسی قسم کے گناہ گار کھاتے ہیں۔ اب آگے نبی کریم ﷺ کی صداقت اور منکرین دین حق کے اعتراضات کا جواب ہے۔
Top