Kashf-ur-Rahman - Al-Haaqqa : 41
وَّ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَۙ
وَّمَا هُوَ : اور نہیں وہ بِقَوْلِ شَاعِرٍ : کسی شاعر کا قول قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ : کتنا کم تم ایمان لاتے ہو
اور یہ قرآن کسی شاعر کا کلام نہیں ہے۔ ہے مگر تم بہت ہی کم یقین کرتے ہو۔
(41) اور یہ قرآن کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تم بہت ہی کم یقین کرتے ہو۔ یعنی ایک بزرگ فرشتہ اس قرآن کی قراءت کرتا ہے وہ فرشتہ بھی بزرگ ہے اور جن کے پاس یہ کلام لے کر آتا ہے وہ بھی کریم اور بزرگ ۔ خلاصہ، یہ کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو جبرئیل امین (علیہ السلام) کی معرفت رسول کریم ﷺ کے پاس بھیجاجاتا ہے یہ کلام کسی شاعر کا نہیں ہے۔ ہم سورة یٰسین میں عرض کرچکے ہیں کہ شعر اور زان اور سجور وغیرہ کی قیود کا پابند ہوتا ہے اور شاعر اس کی رعایت رکھتا ہے اور وہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں یہ بلند خیالات اور اونچے مضامین اس کلام کو شاعری سے کیا نسبت یہ ابوجہل جو اس کلام کو شاعر کا کلام بتاتا ہے اور پیغمبر (علیہ السلام) کے کلام کو شاعری سے منسوب کرتا ہے اس کی بات بالکل غلط اور واقعہ کے بالکل خلاف ہے تم بہت کم یقین کرتے ہو یعنی بالکل یقین نہیں کرتے اور جو کچھ یقین کرتے ہو وہ بھی نہ کرنے کے برابر ہے۔
Top