Kashf-ur-Rahman - Al-Insaan : 8
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا
وَيُطْعِمُوْنَ : اور وہ کھلاتے ہیں الطَّعَامَ : کھانا عَلٰي : پر حُبِّهٖ : اس کی محبت مِسْكِيْنًا : محتاج، مسکین وَّيَتِيْمًا : اور یتیم وَّاَسِيْرًا : اور قیدی
اور وہ لوگ باوجود کھانے کی رغبت اور احتیاج کے مسکین کر اور یتیم کو اور قیدی کو کھانا کھلا دیتے ہیں۔
(8) اور وہ لوگ باوجود کھانے کی رغبت و احتیاج کے مسکین کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھانا کھلا دیتے ہیں۔ علی حبہ کھانے کی محبت اور رغبت کے باوجود مسکین یتیم اور قیدی کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں ، قیدی خواہ مسلمان ہو یا مشرک سب کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم ہے اور سب کو کھانا کھلانا مستحسن ہے۔ جیسا کہ بدر کے قیدیوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم نبی کریم ﷺ نے دیا تھا اور مسلمان ان کو جب تک وہ قید میں رہے ہر طرح کا آرام پہنچاتے رہے جو کافر جس مسلمان کے گھر میں قید تھا وہ اس کے کھانے کا خیال رکھتا تھا۔ علی حبہ کے معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خوشنودی کے لئے یہ لوگ مسکین ویتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اس امر کی گنجائش ہے کہ اسیر میں مکاتب اور مقروض وغیرہ بھی داخل ہوں کہ وہ بھی ایک قسم کے قیدی ہیں۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ آیت ابوالد خدا ح انصاری کے حق میں نازل ہوتی ہے اور بعض نے فرمایا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں نازل ہوئی ہے وہ تین دن تک اپنے گھر کا کھانا مسکین یتیم اور قیدی کو کھلاتے رہے اور تمام گھر بھوکا رہا۔ اسیر میں بعض حضرات نے مملوک مقروض اور گھر کی عورت کو بھی داخل کیا بہرحال باوجود اس ایثار کے کہ اپنی حاجت روک کر اپنا کھانا مسکین یتیم اور قیدی کو کھلا دیں پھر کھلاتے وقت زبان حال یا زیان قال سے یوں کہیں۔
Top