Kashf-ur-Rahman - Al-Anfaal : 33
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُعَذِّبَهُمْ : کہ انہیں عذاب دے وَاَنْتَ : جبکہ آپ فِيْهِمْ : ان میں وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے اللّٰهُ : اللہ مُعَذِّبَهُمْ : انہیں عذاب دینے والا وَهُمْ : جبکہ وہ يَسْتَغْفِرُوْنَ : بخشش مانگتے ہوں
اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان میں آپ کے موجود ہوتے ہوئے پھر ان کو ایسا عذاب کرے اور اللہ کی یہ شان بھی نہیں ہے کہ وہ استغفار کرنے والے ہوں
33 اور اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں اور حضرت حق تعالیٰ کو یہ مناسب نہیں کہ اے محمد ﷺ ! آپ ان میں موجود ہوں اور پھر وہ ان کو ایسا عذاب کے اور کوئی خارق عادت عذاب بھیج کر ان کا استیصال کردے اور اللہ تعالیٰ کی یہ شان بھی نہیں کہ وہ ان کو عذاب کرے درآنحالیکہ وہ بخشش مانگنے والے ہوں۔ یعنی سنت اللہ یہ ہے کہ جب تک کسی قوم میں پیغمبر موجود رہتا ہے اور وہ قوم بخشش طلب کرتی رہتی ہے تو اس قوم پر عذاب استیصال نہیں آتا اور وہ قوم بالکلیہ فنا نہیں کی جاتی۔ یہ مطلب نہیں کہ کفر وعناد کے باوجود کسی قسم کا عذاب ہی نہیں آتا، ادھر تو نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے۔ دوسری طرف یہ کافر طواف کے موقعہ پر غفرانک غفرانک کہتے تھے۔ شاید یہ لفظی استغفار ان کے لئے عذاب کا مانع ہوا ہو اگرچہ قیامت کے روز مفید نہ ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مکہ میں حضرت کے قدم سے عذاب اٹک رہا تھا اب ان پر عذاب آیا اسی طرح جب تک گناہ گار نادم رہے اور توبہ کرتا رہے تو پکڑا نہیں جاتا اگرچہ بڑے سے بڑا گناہ ہو۔ حضرت نے فرمایا گناہ گار کو دو چیزیں پناہ ہیں ایک میرا وجود دوسرا استغار۔ 12
Top