Kashf-ur-Rahman - Al-Ghaashiya : 20
وَ اِلَى الْاَرْضِ كَیْفَ سُطِحَتْٙ
وَاِلَى الْاَرْضِ : اور زمین کی طرف كَيْفَ : کیسے سُطِحَتْ : بچھائی گئی
اور زمین کی طرف کہ وہ کیسی بچھائی گئی ہے۔
(20) اور زمین کی طرف کہ وہ کیسی صاف بچھائی گئی - مطلب یہ ہے کہ کیا اونٹ کی ساخت آسمان کی بلندی اور بغیر کسی سہارے کے اس کا قیام اور پہاڑوں کا زمین میں قائم کرنا اور اسی طرح زمین کو فرش کی طرح بچھانا کہ لوگ اس پر بودوباش اور رہنا سہنا اختیار کرسکیں حالانکہ وہ گول ہے لیکن اس کی پہنائی کو اس طرح قائم کیا کہ کروڑوں بلکہ اربوں مخلوق اس پر رہتی ہے ریلیں چلتی ہیں یہ تمام قدرت کی نیرنگیاں اس پر دال نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کردے اور ایک اور عالم جس کو عالم آخرت کہتے ہیں قائم کردے۔ اونٹ کا ذکر شاید اس لئے فرمایا کہ اس کا کھانا پینا گرم ریت میں چلنا اور لوئوں میں پھرنا یہ سب امور دوزخیوں سے ملتے جلتے ہیں اور اس کے منافع اور فائدے اہل جنت سے مناسبت رکھتے ہیں سواری کے بیٹھتے وقت اور سامان لادنے کے وقت اس کا بیٹھ جانا اور پھر کھڑے ہوجانا ان تختوں کی مانند ہے جو اہل جنت کے بیٹھتے وقت جھک جائیں گے اور بیٹھنے کے بعد اونچے ہوجائیں گے اس کے چار تھن دودھ سے بھرے ہوئے آب خورے ہیں گردن کے بال جلا کر بہتے ہوئے خون پر رکھنے سے خون بند ہوجاتا ہے۔ غرض اس کے بیشمار منافع اور فوائد ہیں اس کی اون اور ریشم سے جو چیزیں بنائی جاتی ہیں وہ بھی ظاہر ہے جس اس پر سوار ہو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک کشتی پر بیٹھے ہوئے جارہے ہیں اس لئے شاید اس کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ جنت کی بلندی اور اس کے عالیشان ہونے کی مناسبت سے آسمان کی رفعت کا ذکر فرمایا آسمان کے تاروں کو آب خوروں سے بہت زیادہ مناسبت ہے اسی طرح پہاڑ اور زمین کو چشموں کے جاری ہونے سے بڑی مناسبت ہے بہرحال علاوہ قدرت کی زبردست نشانیوں کے اہل جنت کے ساتھ ان چیزوں کو ایک خاص مناسبت ہے شاید اس لئے ان کا ذکر فرمایا تاکہ منکرین بعث اور دارآخرت کے منکر ان چیزوں پر غور کریں اس سلسلے میں مزید تفصیل دیکھنی ہو تو تفسیر عزیزی ملاحظہ کریں۔
Top