Maarif-ul-Quran - Yunus : 25
وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ١ؕ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ يَدْعُوْٓا : بلاتا ہے اِلٰى : طرف دَارِ السَّلٰمِ : سلامتی کا گھر وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور اللہ بلاتا ہے سلامتی کے گھر کی طرف، اور دکھاتا ہے جس کو چاہے راستہ سیدھا،
خلاصہ تفسیر
اور اللہ تعالیٰ دارالبقاء کی طرف تم کو بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہ راست پر چلنے کی توفیق دے دیتا ہے (جس سے دارالبقاء تک رسائی ہو سکتی ہے، آگے جزا و سزا کا بیان ہے کہ) جن لوگوں نے نیکی کی ہے (یعنی ایمان لائے ہیں) ان کے واسطے خوبی (یعنی جنت) ہے اور مزید براں (خدا کا دیدار) بھی اور ان کے چہروں پر نہ کدورت (غم کی) چھاوے گی اور نہ ذلت، یہ لوگ جنت میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اور جن لوگوں نے بد کام کئے (یعنی کفر و شرک کیا) ان کی بدی کی سزا اس کے برابر ملے گی (بدی سے زیادہ نہ ہوگی) اور ان کو ذلت چھا لے گی، ان کو اللہ (کے عذاب) سے کوئی نہ بچا سکے گا (ان کی کدورت چہرہ کی ایسی حالت ہوگی کہ) گویا ان کے چہروں پر اندھیری رات کے پرت کے پرت (یعنی ٹکڑے) لپیٹ دیئے گئے ہیں، یہ لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، اور وہ دن بھی قابل ذکر ہے جس روز ہم ان سب (خلائق) کو (میدان قیامت میں) جمع کریں گے پھر (منجملہ ان تمام خلائق کے) مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے (تجویز کئے ہوئے) شریک (جن کو تم عبادت میں خدا کا شریک ٹھہراتے تھے ذرا) اپنی جگہ ٹھہرو (تاکہ تم کو حقیقت تمہارے عقیدہ کی معلوم کرائی جاوے) پھر ہم ان (عابدین و معبودین) کے آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے اور ان کے وہ شرکاء (ان سے خطاب کرکے) کہیں گے کہ تم ہماری عبادت نہیں کرتے تھے (کیونکہ عبادت سے مقصود ہوتا ہے معبود کا راضی کرنا) سو ہمارے تمہارے درمیان خدا کافی گواہ ہے کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی (اور راضی ہونا تو درکنار البتہ شیاطین کی تعلیم تھی اور وہی راضی تھے، پس اس اعتبار سے ان کی پرستش کرتے تھے) اس مقام پر ہر شخص اپنے کئے ہوئے کا امتحان کرلے گا (کہ آیا واقع میں یہ اعمال نافع تھے یا غیر نافع، چناچہ ان مشرکین کو بھی حقیقت کھل جاوے گی کہ جن کی شفاعت کے بھروسے ہم ان کو پوجتے تھے انہوں نے اور ہمارے خلاف شہادت دی، نفع کی تو کیا امید کی جاوے) اور یہ لوگ اللہ (کے عذاب) کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جاویں گے، اور جو کچھ معبود تراش رکھے تھے سب ان سے غائب (اور گم) ہوجاویں گے (کوئی بھی تو کام نہ آوے گا) آپ (ان مشرکین سے) کہئے کہ (بتلاؤ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے (یعنی آسمان سے بارش کرتا ہے اور زمین سے نباتات پیدا کرتا ہے جس سے تمہارا رزق تیار ہوتا ہے) یا (یہ بتلاؤ کہ) وہ کون ہے جو (تمہارے) کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے (کہ پیدا بھی اسی نے کیا، حفاظت بھی وہی کرتا ہے اور اگر چاہتا ہے تو ان کو معاف کردیتا ہے) اور وہ کون ہے جو جاندار (چیز) کو بےجان (چیز) سے نکالتا ہے اور بےجان (چیز) کو جاندار (چیز) سے نکالتا ہے (جیسے نطفہ اور بیضہ کہ وہ جاندار سے نکلتا ہے اور اس سے جاندار پیدا ہوتا ہے) اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے (ان سے سوالات کیجئے) سو ضرور وہ (جواب میں) یہی کہیں گے کہ (ان سب افعال کا فاعل) اللہ (ہے) تو ان سے کہئے کہ پھر (شرک سے) کیوں نہیں پرہیز کرتے سو (جس کے یہ افعال و اوصاف مذکور ہوئے) یہ ہے اللہ جو تمہارا رب حقیقی ہے (اور جب امر حق ثابت ہوگیا) پھر (امر) حق کے بعد اور کیا رہ گیا بجز گمراہی کے (یعنی جو امر حق کی ضد ہوگی وہ گمراہی ہے اور توحید کا حق ہونا ثابت ہوگیا، پس شرک یقینا گمراہی ہے) پھر (حق کو چھوڑ کر) کہاں (باطل کی طرف) پھرے جاتے ہو۔

معارف و مسائل
پچھلی آیت میں دنیاوی زندگی اور اس کی ناپائیداری کی مثال اس کھیتی سے دی گئی تھی جو آسمانی پانی سے سیراب ہو کر لہلہانے لگی اور ہر طرح کے پھل پھول نکل آئے اور کھیتی والے خوش ہونے لگے کہ اب ہماری ساری ضرورتیں اس سے پوری ہوں گی، مگر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے رات یا دن میں ہمارے عذاب کا کوئی حادثہ آپڑا جس نے اس کو ایسا صاف کردیا کہ گویا یہاں کوئی چیز موجود ہی نہ تھی، یہ تو دنیا کی زندگی کا حال تھا، اس کے بعد آیت مذکورہ میں اس کے بالمقابل دار آخرت کا حال بیان کیا گیا ہے۔
ارشاد فرمایا(آیت) وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلٰى دَار السَّلٰمِ ، یعنی اللہ تعالیٰ انسان کو دارالسلام کی طرف دعوت دیتا ہے یعنی ایسے گھر کی طرف جس میں ہر طرح کی سلامتی ہی سلامتی ہے نہ اس میں کسی طرح کی کوئی تکلیف ہے نہ رنج و غم، نہ بیماری کا خطرہ، نہ فنا ہونے یا حالت بدل جانے کی فکر۔
دارالسلام سے مراد جنت ہے، اس کو دارالسلام کہنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس میں ہر طرح کی سلامتی اور امن و سکون ہر شخص کو حاصل ہوگا، دوسری وجہ بعض روایات میں ہے کہ جنت کا نام دارالسلام اس لئے بھی رکھا گیا ہے کہ اس میں بسنے والوں کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیز فرشتوں کی طرف سے سلام پہنچتا رہے گا، بلکہ لفظ سلام ہی اہل جنت کی اصطلاح ہوگی، جس کے ذریعہ وہ اپنی خواہشات کا اظہار کریں گے اور فرشتے ان کو مہیا کریں گے، جیسا کہ اس سے پہلی آیات میں گزر چکا ہے۔
حضرت یحییٰ بن معاذ نے اس آیت کی تفسیر میں بطور نصیحت عوام کو خطاب کرکے فرمایا کہ اے آدم کے بیٹے ! تجھ کو اللہ تعالیٰ نے دارالسلام کی طرف بلایا، تو اس دعوت الہٰیہ کی طرف کب اور کہاں سے قدم اٹھائے گا، خوب سمجھ لے کہ اس دعوت کو قبول کرنے کے لئے اگر تو نے دنیا ہی سے کوشش شروع کردی تو وہ کامیاب ہوگی اور تو دارالسلام میں پہنچ جائے گا اور اگر تو نے اس دنیا کی عمر کو ضائع کرنے کے بعد یہ چاہا کہ قبر میں پہنچ کر اس دعوت کی طرف چلوں گا تو تیرا راستہ روک دیا جائے گا، تو وہاں ایک قدم آگے نہ بڑھ سکے گا، کیونکہ وہ دارالعمل نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ دارالسلام جنت کے سات ناموں میں سے ایک نام ہے۔ (تفسیر قرطبی)۔
اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کسی گھر کا نام دارالسلام رکھنا مناسب نہیں، جیسے جنت یا فردوس وغیرہ نام رکھنا بھی درست نہیں۔
اس کے بعد آیت مذکورہ میں ارشاد فرمایا (آیت) وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ ، یعنی پہنچا دیتا ہے اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سیدھے راستہ پر۔
Top