Maarif-ul-Quran - Yunus : 9
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَهْدِیْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِیْمَانِهِمْ١ۚ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک يَهْدِيْهِمْ : انہیں راہ دکھائے گا رَبُّھُمْ : ان کا رب بِاِيْمَانِهِمْ : ان کے ایمان کی بدولت تَجْرِيْ : بہتی ہوں گی مِنْ : سے تَحْتِهِمُ : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں فِيْ : میں جَنّٰتِ : باغات النَّعِيْمِ : نعمت
البتہ جو لوگ ایمان لائے اور کام کئے اچھے ہدایت کرے گا ان کو رب ان کا ان کے ایمان سے، بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں باغوں میں آرام کے،
تیسری آیت میں ان خوش نصیب انسانوں کا ذکر ہے جنہوں نے اللہ جل شانہ کی آیات قدرت میں غور کیا اور اس کو پہچانا، اس پر ایمان لائے اور ایمان کے مقتضی پر عمل کرکے اعمال صالحہ کے پابند ہوگئے۔
قرآن کریم نے ان حضرات کے لئے دنیا و آخرت میں جو اچھا صلہ اور جزاء مقرر فرمائی ہے اس کا ذکر اس طرح فرمایا ہے(آیت) اُولٰۗىِٕكَ يَهْدِيْهِمْ رَبُّھُمْ بِاِيْمَانِهِمْ ، یعنی ان کا رب ان کو ایمان کی وجہ سے منزل مقصود یعنی جنت دکھلائے گا، جس میں چین و آرام کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔
اس میں لفظ ہدایت آیا ہے جس کے مشہور معنٰی راستہ بتلانے اور دکھلانے کے ہیں، اور کبھی منزل مقصود تک پہنچا دینے کے معنٰی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس مقام پر یہی معنٰی مراد ہیں اور منزل مقصود سے مراد جنت ہے جس کی وضاحت بعد کے الفاظ میں ہوگئی ہے، جس طرح پہلے طبقہ کی سزا ان کے اپنے کرتوت کا نتیجہ تھی اسی طرح اس دوسرے مومن طبقہ کی جزاء کے بارے میں فرمایا کہ یہ بہترین جزاء ان کو ان کے ایمان کی وجہ سے ملی ہے اور چونکہ اوپر ایمان کے ساتھ عمل صالحہ بھی ہوں، ایمان اور عمل صالح کا بدلہ بےنظیر راحتوں اور نعمتوں کا مقام جنت ہے۔
Top