Maarif-ul-Quran - Yunus : 98
فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ١ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ
فَلَوْلَا : پس کیوں نہ كَانَتْ : ہوتی قَرْيَةٌ : کوئی بستی اٰمَنَتْ : کہ وہ ایمان لاتی فَنَفَعَهَآ : تو نفع دیتا اس کو اِيْمَانُهَآ : اس کا ایمان اِلَّا : مگر قَوْمَ يُوْنُسَ : قوم یونس لَمَّآ : جب اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے كَشَفْنَا : ہم نے اٹھا لیا عَنْھُمْ : ان سے عَذَابَ : عذاب الْخِزْيِ : رسوائی فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَمَتَّعْنٰھُمْ : اور نفع پہنچایا انہیں اِلٰى حِيْنٍ : ایک مدت تک
سو کیوں نہ ہوئی کوئی بستی کہ ایمان لاتی پھر کام آتا ان کو ایمان لانا مگر یونس کی قوم جب وہ ایمان لائی اٹھا لیا ہم نے ان پر سے ذلت کا عذاب دنیا کی زندگانی میں اور فائدہ پہنچایا ہم نے ان کو ایک وقت تک۔
ساتویں آیت میں غفلت شعار منکرین کو اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ زندگی کی فرصت کو غنیمت جانو، انکار و سرکشی سے اب بھی باز آجاؤ ورنہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب توبہ کرو گے تو توبہ قبول نہ ہوگی، ایمان لاؤ گے تو ایمان مقبول نہ ہوگا اور وہ وقت وہ ہوگا جبکہ موت کے وقت آخرت کا عذاب سامنے آجائے، اسی سلسلہ میں حضرت یونس ؑ اور ان کی قوم کا ایک واقعہ ذکر فرمایا گیا جس میں بڑی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں۔
اس آیت میں ارشاد ہے کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ منکر قومیں ایسے وقت ایمان لے آئیں کہ ان کا ایمان ان کو نفع دیتا یعنی موت کے وقت یا وقوع عذاب اور مبتلاء عذاب ہوچکنے کے بعد یا قیامت کے وقت جب کہ توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا کسی کی توبہ اور ایمان مقبول نہ ہوگا، اس سے پہلے پہلے اپنی سرکشی سے باز آجاتیں اور ایمان لے آتیں، بجز قوم یونس ؑ کے کہ انہوں نے ایسا وقت آنے سے پہلے ہی جب خدا تعالیٰ کا عذاب آتا دیکھا تو فوراً توبہ کرلی اور ایمان لے آئے، جس کی وجہ سے ہم نے ان سے رسوا کرنے والا عذاب ہٹا لیا۔
اس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کا عذاب سامنے آجانے پر بھی توبہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا اور عذاب آخرت کا سامنے آنا یا قیامت کے دن ہوگا یا موت کے وقت، خواہ وہ طبعی موت ہو یا کسی دنیوی عذاب میں مبتلا ہو کر ہو جیسے فرعون کو پیش آیا۔
اس لئے قوم یونس ؑ کی توبہ قبول ہوجانا عام ضابطہ الہٰیہ کے خلاف نہیں بلکہ اس کے ماتحت ہے کیونکہ انہوں نے اگرچہ عذاب آتا ہوا دیکھ کر توبہ کی مگر عذاب میں مبتلا ہونے اور موت سے پہلے کرلی، بخلاف فرعون اور دو سرے لوگوں کے جنہوں نے عذاب میں مبتلا ہونے کے بعد اور غرغرہ موت کے وقت توبہ کی اور ایمان کا اقرار کیا اس لئے ان کا ایمان معتبر نہ ہوا اور توبہ قبول نہ ہوئی۔
قوم یونس ؑ کے واقعہ کی ایک نظیر خود قرآن کریم میں بنی اسرائیل کا وہ واقعہ ہے جس میں کوہ طور کو ان کے سروں پر معلق کرکے ان کو ڈرایا گیا اور توبہ کرنے کا حکم دیا گیا انہوں نے توبہ کرلی تو وہ توبہ قبول ہوئی، جس کا ذکر سورة بقرہ میں آیا ہے۔
(آیت) رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ ۭ خُذُوْا مَآ اٰتَيْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ ، ہم نے ان کے سروں پر کوہ طور کو معلق کرکے حکم دیا کہ جو احکام تمہیں دیئے گئے ہیں ان کو مضبوطی سے پکڑو۔
وجہ یہ تھی کو انہوں نے عذاب کے واقع ہونے اور موت میں مبتلا ہونے سے پہلے محض عذاب کا اندیشہ دیکھ کر توبہ کرلی تھی، اسی طرح قوم یونس ؑ نے عذاب کو آتا ہوا دیکھ کر اخلاص اور الحاح وزاری کے ساتھ توبہ کرلی جس کی تفصیل آگے آتی ہے تو اس توبہ کا قبول ہوجانا ضابطہ مذکورہ کے خلاف نہیں (قرطبی) اس جگہ بعض معاصرین سے ایک سخت غلطی ہوئی ہے کہ حضرت یونس ؑ کی طرف فریضہ رسالت ادا کرنے میں کوتاہیوں کی نسبت کردی اور قوم سے عذاب ہٹ جانے کا سبب پیغمبر کی کوتاہی کو قرار دیا اور اسی کوتاہی کو سبب عتاب بنایا جس کا ذکر سورة انبیاء اور سورة صٰفٰت میں آیا ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں
" قرآن کے اشارات اور صحیفہ یونس کی تفصیلات پر غور کرنے سے اتنی بات صاف معلوم ہوجاتی ہے کہ حضرت یونس ؑ سے فریضہ رسالت ادا کرنے میں کچھ کو تاہیاں ہوگئی تھیں اور غالباً انہوں نے بےصبر ہو کر قبل از وقت اپنا مستقر چھوڑ دیا تھا اس لئے جب آثار عذاب دیکھ کر آشوریوں نے توبہ و استغفار کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا، قرآن میں خدائی دستور کے جو اصول و کلیات بیان کئے گئے ہیں ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اپنی حجت پوری نہیں کردیتا پس جب نبی جگہ سے ہٹ گیا تو اللہ تعالیٰ کے انصاف نے اس قوم کو عذاب دینا گوارا نہ کیا۔ " اھ (تفہیم القرآن مولانا مودودی 312۔ ج 2 طبع 1964 ء)
یہاں سب سے پہلے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کا گناہوں سے معصوم ہونا تو ایک مسلمہ عقیدہ ہے جس پر تمام امت کا اجماع ہے، اس کی تفصیلات میں کچھ جزوی اختلاف بھی ہیں کہ یہ عصمت ہر قسم کے صغیرہ گناہوں سے ہے یا صرف کبیرہ سے اور یہ کہ یہ عصمت قبل از نبوت کے زمانے کو بھی شامل ہے یا نہیں، لیکن اس میں کسی فرقہ کسی شخص کا اختلاف نہیں ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) سب کے سب ادائے رسالت کے فریضہ میں کبھی کوتاہی نہیں کرسکتے، کیونکہ انبیاء کے لئے اس سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہوسکتا کہ جس منصب کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا انتخاب فرمایا ہے خود اسی میں کوتاہی کر بیٹھیں، یہ تو فرض منصبی میں کھلی ہوئی خیانت ہے جو عام شریف انسانوں سے بھی بعید ہے، اس کوتاہی سے بھی اگر پیغمبر معصوم نہ ہوا تو پھر دوسرے گناہوں سے عصمت بےفائدہ ہے۔
قرآن و سنت کے مسلمہ اصول اور اجماعی عقیدہ عصمت انبیاء کے بظاہر خلاف اگر کسی جگہ قرآن و حدیث میں بھی کوئی بات نظر آتی تو اصول مسلمہ کی رو سے ضروری تھا کہ اس کی تفسیر و معنی کی ایسی توجیہ تلاش کی جاتی جس سے وہ قرآن و حدیث کے قطعی الثبوت اصول سے متصادم و مختلف نہ رہے۔
مگر یہاں تو عجیب بات یہ ہے کہ مصنف موصوف نے جس بات کو قرآنی اشارات اور صحیفہ یونس کی تفصیلات کے حوالہ سے پیش کیا ہے وہ صحیفہ یونس میں ہو تو ہو جس کا اہل اسلام میں کوئی اعتبار نہیں، قرآنی اشارہ تو ایک بھی نہیں، بلکہ ہوا یہ کہ کئی مقدمے جوڑ کر یہ نتیجہ زبردستی نکالا گیا ہے، پہلے تو یہ فرض کرلیا گیا کہ قوم یونس ؑ سے عذاب کا ٹل جانا خدائی دستور کے خلاف واقع ہوا جو خود اسی آیت کے سیاق وسباق کے بھی بالکل خلاف ہے اور اہل تحقیق ائمہ تفسیر کی تصریحات کے بھی خلاف ہے، اس کے ساتھ یہ فرض کرلیا گیا کہ خدائی قانون کو اس موقعہ پر اس لئے توڑا گیا تھا کہ خود پیغمبر سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کو تاہیاں ہوگئی تھیں، اس کے ساتھ یہ بھی فرض کرلیا کہ پیغمبر کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص وقت نکلنے کا مقرر کردیا گیا تھا، وہ اس وقت مقرر سے پہلے فریضہ دعوت کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے، اگر ذرا بھی غور و انصاف سے کام لیا جائے تو ثابت ہوجاے گا کہ قرآن و حدیث کا کوئی اشارہ ان فرضی مقدمات کی طرف نہیں پایا جاتا۔
خود آیت قرآن کے سیاق پر غور کیجئے تو الفاظ آیت کے یہ ہیں
(آیت) فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِيْمَانُهَآ اِلَّا قَوْمَ يُوْنُسَ۔
جس کا مفہوم صاف یہ ہے کہ دنیا کے عام بستی والوں کے متعلق بطور اظہار افسوس یہ ارشاد ہے کہ وہ ایسے کیوں نہ ہوگئے کہ ایمان اس وقت لے آتے جس وقت تک ایمان مقبول اور نافع ہوتا ہے یعنی عذاب میں یا موت میں مبتلا ہونے سے پہلے پہلے ایمان لے آتے تو ان کا ایمان قبول ہوجاتا، مگر قوم یونس اس سے مستثنی ہے کہ وہ آثار عذاب دیکھ کر عذاب میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی ایمان لے آئی تو ان کا ایمان اور توبہ قبول ہوگئی۔
آیت کا یہ واضح مفہوم خود بتلا رہا ہے کہ یہاں کوئی خدائی قانون نہیں توڑا گیا بلکہ عین خدائی دستور کے مطابق ان کا ایمان اور توبہ قبول کرلی گئی ہے۔
اکثر مفسرین بحر محیط، قرطبی، زمخشری، مظہری، روح المعانی وغیرہ نے آیت کا یہی مفہوم لکھا ہے جس میں قوم یونس کی توبہ قبول ہونا عام قانون الہٰی کے تحت ہے، قرطبی کے الفاظ یہ ہیں
وقال ابن جبیر غشیھم العذاب کما یغشی الثوب القبر فلما صحت توبتھم رفع اللہ عنھم العذاب وقال الطبری خص قوم یونس من بین سائرالامم بان تیب علیھم بعد معاینۃ العذاب وذکر ذلک عن جماعۃ من المفسرین وقال الزجاج انھم لم یقع بھم العذاب وانما راوا العلامۃ التی تدل علی العذاب ولو راو عین العذاب لما نفعھم ایمانھم۔ قلت قول الزجاج حسن فان المعاینۃ التی لا تنفع التوبۃ معھا ھی التلبس بالعذاب کقصۃ فرعون ولھذا جاء بقصۃ قوم یونس علی اثر قصۃ فرعون و یعضد ھذا قولہ ؑ ان اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر والغرغرۃ الحشرجۃ وذلک ھو حال التلبس بالموت و قد روی معنی ما قلناہ عن ابن مسعود (الی) وھذا یدل علی ان توبتھم قبل رویۃ العذاب (الی) وعلی ھذا فلا اشکال ولا تعارض ولا خصوص۔
(ترجمہ) ابن جبیر کہتے ہیں کہ عذاب نے ان کو اس طرح ڈھانپ لیا تھا جیسے قبر پر چادر پھر چونکہ ان کی توبہ صحیح ہوگئی (کہ وقوع عذاب سے پہلے تھی) تو ان کا عذاب اٹھا دیا گیا، طبری فرماتے ہیں کہ قوم یونس کو تمام اقوام عالم سے یہ خصوصیت دی گئی ہے کہ معاینہ عذاب کے بعد ان کی توبہ قبول کرلی گئی، زجاج نے فرمایا کہ ان لوگوں پر ابھی عذاب پڑا نہیں تھا بلکہ علامات عذاب دیکھی تھیں اور اگر عذاب پڑجاتا تو ان کی توبہ بھی قبول نہ ہوتی، قرطبی فرماتے ہیں کہ زجاج کا قول اچھا اور بہتر ہے کیونکہ جس معاینہ عذاب کے بعد توبہ قبول نہیں ہوتی وہ وہ کہ عذاب میں مبتلا ہوجائے جیسا واقعہ فرعون میں پیش آیا، اور اسی لئے اس سورة میں قوم یونس کا واقعہ فرعون کے واقعہ کے بعد متصلا ذکر فرمایا ہے تاکہ فرق واضح ہوجائے کہ فرعون کا ایمان ابتلاء عذاب کے بعد تھا بخلاف قوم یونس کے کہ وہ وقوع عذاب سے پہلے ہی ایمان لے آئی، اس بات کی تائید آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک وہ غرغرہ کی حالت میں نہ پہنچ جائے، اور غرغرہ موت کے وقت طاری ہونے والے سکرات کو کہتے ہیں، اور یہی بات حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت سے معلوم ہوتی ہے جس میں بتلایا ہے کہ قوم یونس نے وقوع عذاب سے پہلے توبہ کرلی تھی، قرطبی فرماتے ہیں کہ اس تقریر و تفسیر پر نہ کوئی اشکال ہے نہ تعارض نہ قوم یونس کی تخصیص "۔
اور طبری وغیرہ مفسرین نے بھی جو اس واقعہ کو قوم یونس کی خصوصیت بتلایا ہے ان میں سے بھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس خصوصیت کا سبب یونس ؑ کی کو تاہیاں تھیں بلکہ اس قوم کا سچے دل سے توبہ کرنا اور علم الہٰی میں مخلص ہونا وغیرہ وجوہات لکھی ہیں۔
اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ قوم یونس ؑ کا عذاب ٹل جانا عام قانون قدرت کے خلاف ہی نہیں تھا بلکہ عین مطابق تھا تو اس کلام کی بنیاد ہی ختم ہوگئی۔
اسی طرح کسی قرآنی اشارے سے یہ ثابت نہیں کہ عذاب کی وعید سنانے کے بعد یونس ؑ بغیر اذن خداوندی اپنی قوم سے الگ ہوگئے بلکہ سیاق آیات اور تفسیری روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسا تمام سابق امتوں کے ساتھ معاملہ ہوتا آیا تھا کہ جب ان کی امت پر عذاب آنے کا فیصلہ کرلیا جاتا تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو یہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیتے تھے جیسا لوط ؑ کا واقعہ بتصریح قرآن میں مذکور ہے، اسی طرح یہاں بھی جب اللہ کا یہ حکم یونس ؑ کے ذریعہ ان لوگوں کو پہنچا دیا گیا کہ تین دن کے بعد عذاب آئے گا تو یونس ؑ کا اس جگہ سے نکل جانا ظاہر یہی ہے کہ بامر خداوندی ہوا ہے۔
البتہ یونس ؑ سے جو پیغمبرانہ شان کے اعتبار سے ایک لغزش ہوئی اور اس پر سورة انبیاء اور سورة صٰفٰت کی آیتوں میں عتاب کے الفاظ آئے اور اسی کے نتیجہ میں مچھلی کے پیٹ میں رہنے کا واقعہ پیش آیا، وہ یہ نہیں کہ انہوں نے فریضہ رسالت میں کوتاہی کردی تھی بلکہ واقعہ وہ ہے جو اوپر مستند تفسیروں کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ جب یونس ؑ نے اپنی قوم کو اللہ کے حکم کے مطابق تین دن کے بعد عذاب کے آنے کی وعید سنا دی اور پھر باذن الہٰی اپنی جگہ کو چھوڑ کر باہر چلے گئے اور بعد میں یہ ثابت ہوا کہ عذاب نہیں آیا تو اب یونس ؑ کو اس کی فکر لاحق ہوئی کہ میں اپنی قوم میں واپس جاؤں گا تو جھوٹا قرار دیا جاؤں گا اور اس قوم کا یہ دستور تھا کہ جس کا جھوٹ ثابت ہوجائے اس کو قتل کردیں تو اب اپنی قوم کی طرف لوٹ کر جانے میں جان کا بھی اندیشہ ہوا، ایسے وقت بجز اس کے کوئی راستہ نہ تھا کہ اب اس وطن ہی سے ہجرت کرجائیں لیکن سنت انبیاء (علیہم السلام) کی یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت نہ آجائے محض اپنی رائے سے ہجرت نہیں کرتے تو یونس ؑ کی لغزش یہ تھی کہ اللہ کی اجازت آنے سے پہلے ہجرت کا قصد کرکے کشتی پر سوار ہوگئے جو اگرچہ اپنی ذات میں کوئی گناہ نہیں تھا مگر سنت انبیاء سے مختلف تھا، اگر آیات قرآن کے الفاظ میں غور کریں تو یونس ؑ کی لغزش فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں بلکہ قوم کے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے ہجرت قبل الاذن کے سوا اور کچھ نہیں ثابت ہوگی، سورة صٰفٰت کی آیت اس مضمون کے لئے تقریباً صریح ہے، جس میں فرمایا ہے (آیت) اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ ، اس میں بقصد ہجرت کشتی پر سوار ہونے کو اَبَقَ کے لفظ سے بطور عتاب کے تعبیر کیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں کسی غلام کا اپنے آقا کی اجازت کے بغیر بھاگ جانا اور سورة انبیاء کی آیت میں ہے(آیت) وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْهِ ، جس میں طبعی خوف کی بناء پر قوم سے جان بچا کر ہجرت کرنے کو بطور عتاب کے اس شدید عنوان سے بیان فرمایا ہے، اور یہ سب فرائض رسالت کی مکمل ادائیگی کے بعد اس وقت پیش آیا جب کہ اپنی قوم میں واپس جانے سے جان کا خطرہ لاحق ہوگیا، تفسیر روح المعانی میں یہی مضمون بالفاظ ذیل لکھا ہے
ای غضبان علے قومہ لشدۃ شکیمتھم و تمادی اصرارھم مع طول دعوتہ ایاھم و کان ذھابہ ھذا سھم ھجرۃ عنھم لکنہ لم یؤ مر بہ۔ " یعنی یونس ؑ اپنی قوم سے ناراض ہو کر اس لئے چل دیئے کہ قوم کی شدید مخالفت اور اپنے کفر پر اصرار کے باوجود زمانہ دراز تک دعوت رسالت پہنچاتے رہنے کا مشاہدہ کرچکے تھے اور ان کا یہ سفرہ جرت کے طور پر تھا مگر ابھی تک ان کو ہجرت کی اجازت نہیں ملی تھی "۔
اس میں واضح کردیا ہے کہ دعوت و رسالت میں کوئی کوتاہی سبب عتاب نہیں تھی بلکہ قبل از اجازت ہجرت کرنا سبب عتاب بنا ہے جو فی نفسہ کوئی گناہ نہ تھا مگر سنت انبیاء کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس پر عتاب آیا ہے، معاصر موصوف کو بعض علماء نے اس غلطی پر متنبہ فرمایا تو سورة صٰفٰت کی تفسیر میں انہوں نے اپنے موقف کی حمایت و تائید میں بہت سے مفسرین کے اقوال بھی نقل فرمائے ہیں جن میں وہب بن منبہ وغیرہ کی بعض اسرائیلی روایتوں کے سوا کسی سے ان کا یہ موقف صحیح ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت یونس ؑ سے معاذ اللہ فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کو تاہیاں ہوگئی تھیں۔
اور یہ بات اہل علم سے مخفی نہیں کہ عام طور پر حضرات مفسرین اپنی تفسیروں میں اسرائیلی روایات بھی نقل کردیتے ہیں جن کے بارے میں ان سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایات مستند و معتبر نہیں، کسی حکم شرعی کا ان پر مدار نہیں رکھا جاسکتا، اسرائیلی روایات خواہ مفسرین اسلام کی کتابوں میں ہوں یا صحیفہ یونس میں صرف انہیں کے سہارے حضرت یونس ؑ پر یہ بہتان عظیم لگایا جاسکتا ہے کہ ان سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کو تاہیاں ہوگئی تھیں اور کسی مفسر اسلام نے اس کو قبول نہیں کیا واللہ سبحانہ وتعالی اعلم وبہ استغیث ان یعصمنا من الخطایا و الزلات۔
حضرت یونس ؑ کا مفصل واقعہ
حضرت یونس ؑ کا واقعہ جس کا کچھ حصہ تو خود قرآن میں مذکور ہے اور کچھ روایات حدیث و تاریخ سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت یونس ؑ کی قوم عراق میں موصل کے مشہور مقام نینوٰی میں بستی تھی، ان کی تعداد قرآن کریم میں ایک لاکھ سے زیادہ بتلائی ہے ان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یونس ؑ کو بھیجا، انہوں نے ایمان لانے سے انکار کیا، حق تعالیٰ نے یونس ؑ کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو آگاہ کردو کہ تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آنے والا ہے، حضرت یونس نے قوم میں اس کا اعلان کردیا، قوم یونس نے آپس میں مشورہ کیا تو اس پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہم نے کبھی یونس ؑ کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اس لئے ان کی بات نظر انداز کرنے کے قابل نہیں، مشورہ میں یہ طے ہوا کہ یہ دیکھا جائے کہ یونس ؑ رات کو ہمارے اندر اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ یہاں سے کہیں چلے گئے تو یقین کرلو کہ صبح کو ہم پر عذاب آئے گا، حضرت یونس بارشاد خداوندی رات کو اس بستی سے نکل گئے، صبح ہوئی تو عذاب الہٰی ایک سیاہ دھوئیں اور بادل کی شکل میں ان کے سروں پر منڈلانے لگا اور فضاء آسمانی سے نیچے ان کے قریب ہونے لگا تو ان کو یقین ہوگیا کہ اب ہم سب ہلاک ہونے والے ہیں، یہ دیکھ کر حضرت یونس کو تلاش کیا کہ ان کے ہاتھ پر مشرف بایمان ہوجائیں اور پچھلے انکار سے توبہ کرلیں مگر یونس ؑ کو نہ پایا تو خود ہی اخلاص نیت کے ساتھ توبہ و استغفار میں لگ گئے، بستی سے ایک میدان میں نکل آئے، عورتیں بچے اور جانور سب اس میدان میں جمع کردیئے گئے ٹاٹ کے کپڑے پہن کر عجز وزاری کے ساتھ اس میدان میں توبہ کرنے اور عذاب سے پناہ مانگنے میں اس طرح مشغول ہوئے کہ پورا میدان آہ و بکا سے گونجنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور عذاب ان سے ہٹا دیا جیسا کہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے، روایات میں ہے کہ یہ عاشوراء یعنی دسویں محرم کا دن تھا۔
ادھر حضرت یونس ؑ بستی سے باہر اس انتظار میں تھے کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہوگا، اس کے توبہ و استغفار کا حال ان کو معلوم نہ تھا، جب عذاب ٹل گیا تو ان کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دیا جائے گا کیونکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ تین دن کے اندر عذاب آجائے گا، اس قوم میں قانون یہ تھا کہ جس شخص کا جھوٹ معلوم ہو اور وہ اپنے کلام پر کوئی شہادت نہ پیش کرے تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا، یونس ؑ کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دے کر قتل کردیا جائے گا۔
انبیاء (علیہم السلام) ہر گناہ و معصیت سے معصوم ہوتے ہیں مگر انسانی فطرت و طبعیت سے جدا نہیں ہوتے، اس وقت یونس ؑ کو طبعی طور پر یہ ملال ہوا کہ میں نے بحکم الہٰی اعلان کیا تھا اور اب میں اعلان کی وجہ سے جھوٹا قرار دیا جاؤں گا، اپنی جگہ واپس جاؤں تو کس منہ سے جاؤں اور قوم کے قانون کے مطابق گردن زدنی بنوں، اس رنج و غم اور پریشانی کے عالم میں اس شہر سے نکل جانے کا ارادہ کرکے چل دیئے یہاں تک کہ بحر روم کے کنارہ پر پہنچ گئے وہاں ایک کشتی دیکھی جس میں لوگ سوار ہو رہے تھے، یونس ؑ کو ان لوگوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کرلیا، کشتی روانہ ہو کر جب وسط دریا میں پہنچ گئی تو دفعۃً ٹھہر گئی، نہ آگے بڑھتی ہے نہ پیچھے چلتی ہے، کشتی والوں نے منادی کی کہ ہماری اس کشتی کی من جانب اللہ یہی شان ہے کہ جب اس میں کوئی ظالم گناہگار یا بھاگا ہوا غلام سوار ہوجاتا ہے تو یہ کشتی خود بخود رک جاتی ہے، اس آدمی کو ظاہر کردینا چاہئے تاکہ ایک آدمی کی وجہ سے سب پر مصیبت نہ آئے۔
حضرت یونس ؑ بول اٹھے کہ وہ بھاگا ہوا غلام گناہگار میں ہوں، کیونکہ اپنے شہر سے غائب ہو کر کشتی میں سوار ہونا ایک طبعی خوف کی وجہ سے تھا باذن الہٰی نہ تھا، اس بغیر اذن کے اس طرف آنے کو حضرت یونس ؑ کی پیغمبرانہ شان نے ایک گناہ قرار دیا کہ پیغمبر کی کوئی نقل و حرکت بلا اذن کے نہ ہونی چاہئے تھی اس لئے فرمایا کہ مجھے دریا میں ڈال دو تو تم سب اس عذاب سے بچ جاؤ گے کشتی والے اس پر تیار نہ ہوئے بلکہ انہوں نے قرعہ اندازی کی تاکہ قرعہ میں جس کا نام نکل آئے اس کو دریا میں ڈالا جائے، اتفاقاً قرعہ میں حضرت یونس ؑ کا نام نکل آیا، ان لوگوں کو اس پر تعجب ہوا تو کئی مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر مرتبہ بحکم قضاء و قدر حضرت یونس ؑ کا ہی نام آتا رہا، قرآن کریم میں اس قرعہ اندازی اور اس میں یونس ؑ کا نام نکلنے کا ذکر موجود ہے (آیت) فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ۔
یونس ؑ کے ساتھ حق تعالیٰ کا یہ معاملہ ان کے مخصوص پیغمبرانہ مقام کی وجہ سے تھا کہ اگرچہ انہوں نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جس کو گناہ اور معصیت کہا جاتا ہے اور کسی پیغمبر سے اس کا امکان نہیں، کیونکہ وہ معصوم ہوتے ہیں لیکن پیغمبر کے مقام بلند کے مناسب نہ تھا کہ محض خوف طبعی سے کسی جگہ بغیر اذن خداوندی منتقل ہوجاویں، اس خلاف شان عمل پر بطور عتاب یہ معاملہ کیا گیا۔
اس طرف قرعہ میں نام نکل کر دریا میں ڈالے جانے کا سامان ہو رہا تھا دوسری طرف ایک بہت بڑی مچھلی بحکم خداوندی کشتی کے قریب منہ بھیلائے ہوئے لگی ہوئی تھی کہ یہ دریا میں آئیں تو ان کو اپنے پیٹ میں جگہ دے، جس کو حق تعالیٰ نے پہلے سے حکم دے رکھا کہ یونس ؑ کا جسم جو تیرے پیٹ کے اندر رکھا جائے گا یہ تیری غذا نہیں بلکہ ہم نے تیرے پیٹ کو ان کا مسکن بنایا ہے، یونس ؑ دریا میں گئے تو فوراً اس مچھلی نے منہ میں لے لیا، حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ یونس ؑ اس مچھلی کے پیٹ میں چالیس روز رہے یہ ان کو زمین کی تہ تک لے جاتی اور دور دراز کی مسافتوں میں پھراتی رہی، بعض حضرات نے سات، بعض نے پانچ دن اور بعض نے ایک دن کے چند گھنٹے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدت بتلائی ہے (مظہری) حقیقت حال حق تعالیٰ کو معلوم ہے، اس حالت میں حضرت یونس ؑ نے یہ دعا کی لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا اور بالکل صحیح وسالم حضرت یونس ؑ کو دریا کے کنارے پر ڈال دیا۔
مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے ان کے بدن پر کوئی بال نہ رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے قریب ایک کدو (لوکی) کا درخت اگا دیا، جس کے پتوں کا سایہ بھی حضرت یونس ؑ کیلئے ایک راحت بن گئی، اور ایک جنگلی بکری کو اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرما دیا کہ وہ صبح و شام ان کے پاس آ کھڑی ہوتی اور وہ اس کا دودھ پی لیتے تھے۔
اس قصہ میں جتنے اجزاء قرآن میں مذکور یا مستند روایات حدیث سے ثابت ہیں وہ تو یقینی ہیں باقی اجزاء تاریخی روایات کے ہیں جن پر کسی شرعی مسئلہ کا مدار نہیں رکھا جاسکتا۔
Top