Maarif-ul-Quran - Hud : 113
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ١ۙ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
وَ : اور لَا تَرْكَنُوْٓا : نہ جھکو اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا انہوں نے فَتَمَسَّكُمُ : پس تمہیں چھوئے گی النَّارُ : آگ وَمَا : اور نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : مددگا۔ حمایتی ثُمَّ : پھر لَا تُنْصَرُوْنَ : نہ مدد دئیے جاؤگے
اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں پھر تم کو لگے گی آگ اور کوئی نہیں تمہارا اللہ کے سوا مددگار پھر کہیں مدد نہ پاؤ گے۔
دوسری آیت میں انسان کو خرابی اور بربادی سے بچانے کے لئے ایک اور اہم ہدایت نامہ دیا گیا ہے (آیت) وَلَا تَرْكَنُوْٓا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ ، یعنی ظالموں کی طرف ادنیٰ میلان بھی نہ رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے ساتھ تمہیں بھی جہنم کی آگ لگ جائے۔ لَا تَرْكَنُوْٓا مصدر کون سے بنا ہے جس کے معنی کسی طرف خفیف سے میلان اور جھکاؤ اور اس پر اعتماد و رضا کے ہیں، اس لئے آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ ظلم و جور میں خود مبتلا ہونے کو تو دین و دنیا کی تباہی سبھی جانتے ہیں مگر ظالموں کی طرف ادنیٰ سا جھکاؤ اور میلان، ان سے راضی ہونا، ان پر اعتماد کرنا بھی انسان کو اسی بربادی کے کنارے لگا دیتا ہے۔
اس جھکاؤ اور میلان سے کیا مراد ہے ؟ اس کے متعلق صحابہ وتابعین کے چند اقوال منقول ہیں جن میں کوئی تعارض و اختلاف نہیں، سب اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں
حضرت قتادہ نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ ظالموں سے دوستی نہ کرو اور ان کا کہنا نہ مانو، ابن جریج نے فرمایا کہ ظالموں کی طرف کسی طرح کا بھی میلان نہ رکھو، ابو العالیہ نے فرمایا کہ ان کے اعمال و افعال کو پسند نہ کرو (قرطبی) سدی نے فرمایا کہ ظالموں سے مداہنت نہ کرو یعنی ان کے برے اعمال پر سکوت یا رضا کا اظہار نہ کرو، عکرمہ نے فرمایا کہ ظالموں کی صحبت میں نہ بیٹھو، قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ شکل و صورت اور فیشن اور رہن سہن کے طریقوں میں ان کا اتباع کرنا یہ سب اسی ممانعت میں داخل ہے۔
قاضی بیضاوی نے فرمایا کہ ظلم و جور کی ممانعت اور حرمت کے لئے اس آیت میں وہ انتہائی شدت ہے جو زیادہ تصور میں لائی جاسکتی ہے کیونکہ ظالموں کے ساتھ دوستی اور گہرے تعلق ہی کو نہیں بلکہ ان کی طرف ادنی درجہ کے میلان اور جھکاؤ اور ان کے پاس بیٹھنے کو بھی اس میں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
امام اوزاعی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی شخص اس عالم سے زیادہ مبغوض نہیں جو اپنی دنیوی مفاد کی خاطر کسی ظالم سے ملنے کے لئے جائے (مظہری)۔
تفسیر قرطبی میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہل کفر اور اہل معصیت اور اہل بدعت کی صحبت سے اجتناب اور پرہیز واجب ہے، بجز اس کے کہ کسی مجبوری سے ان سے ملنا پڑے، اور حقیقت یہی ہے کہ انسان کی صلاح و فساد میں سب سے بڑا دخل صحبت اور ماحول کا ہوتا ہے، اسی لئے حضرت حسن بصری نے ان دونوں آیتوں کے دو لفظوں کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پورے دین کو دو حرف لاَ کے اندر جمع کردیا ہے، ایک پہلی آیت میں لَا تَطْغَوْا اور دوسرا دوسری آیت میں لَا تَرْكَنُوْٓا، پہلے لفظ میں حدود شرعیہ سے نکلنے کی اور دوسرے لفظ میں برے لوگوں کی صحبت کی ممانعت ہے اور یہی سارے دین کا خلاصہ ہے۔
Top