Maarif-ul-Quran - Hud : 117
وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے رَبُّكَ : تیرا رب لِيُهْلِكَ : کہ ہلاک کردے الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے وَّاَهْلُهَا : جبکہ وہاں کے لوگ مُصْلِحُوْنَ : نیکو کار
اور تیرا رب ہرگز ایسا نہیں کہ ہلاک کرے بستیوں کو زبردستی سے اور لوگ وہاں کے نیک ہوں،
چوتھی آیت میں فرمایا کہ آپ کا رب شہروں اور بستیوں کو ظلم سے ہلاک نہیں کرتا جبکہ ان کے بسنے والے نیکوکار یعنی مسلمان ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے یہاں ظلم و جور کا کوئی امکان نہیں، جن کو ہلاک کیا جاتا ہے وہ اسی کے مستحق ہوتے ہیں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے اور مصلحون سے مراد وہ لوگ ہیں جو باوجود مشرک کافر ہونے کے معاملات اور اخلاق اچھے رکھتے ہیں، کسی کو نقصان و ایذاء نہیں پہنچاتے، جھوٹ نہیں بولتے، دھوکہ نہیں دیتے، اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ دنیا کا عذاب کسی قوم پر محض ان کے مشرک کافر ہونے کی وجہ سے نہیں آتا جب تک کہ وہ اعمال و اخلاق میں بھی ایسے کام نہ کرنے لگیں جن سے زمین میں فساد پھیلتا ہے، پچھلی جتنی قوموں پر عذاب آئے ان کے خاص خاص اعمال بد اس کا سبب بنے، نوح ؑ کی قوم نے حضرت نوح ؑ کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائیں، قوم شعیب ؑ نے ناپ تول میں کمی کرکے فساد پھیلایا، قوم لوط ؑ نے بد ترین قسم کی بدکاری کو شیوہ بنایا، قوم موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) نے اپنے پیغمبروں پر ظلم ڈھائے، قرآن کریم نے دنیا میں ان پر عذاب آنے کا سبب انہی اعمال و افعال کو بتلایا ہے، نرے کفر و شرک کی وجہ سے دنیا میں عذاب نہیں آتا اس کی سزا تو جہنم کی دائمی آگ ہے، اسی لئے بعض علماء نے فرمایا کہ ملک و سلطنت کفر و شرک کے ساتھ چل سکتے ہیں مگر ظلم و جور کے ساتھ نہیں چل سکتے۔
Top