Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Hud : 6
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا١ؕ كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
وَمَا
: اور نہیں
مِنْ
: سے (کوئی)
دَآبَّةٍ
: چلنے والا
فِي
: میں (پر)
الْاَرْضِ
: زمین
اِلَّا
: مگر
عَلَي
: پر
اللّٰهِ
: اللہ
رِزْقُهَا
: اس کا رزق
وَيَعْلَمُ
: اور وہ جانتا ہے
مُسْتَقَرَّهَا
: اس کا ٹھکانا
وَمُسْتَوْدَعَهَا
: اور اس کے سونپے جانے کی جگہ
كُلٌّ
: سب کچھ
فِيْ
: میں
كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ
: روشن کتاب
اور کوئی نہیں چلنے والا زمین پر مگر اللہ پر ہے اس کی روزی اور جانتا ہے جہاں وہ ٹھہرتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے، سب کچھ موجود ہے کھلی کتاب میں
خلاصہ تفسیر
اور کوئی (رزق کھانے والا) جاندار روئے زمین پر چلنے والا ایسا نہیں کہ اس کی روزی اللہ کے ذمہ نہ ہو (اور رزق رسانی کے لئے علم کی ضرورت ہوتی ہے سو) وہ ہر ایک کی زیادہ رہنے کی جگہ کو اور چند روز رہنے کی جگہ کو جانتا ہے (اور ہر ایک کو وہاں ہی رزق پہنچاتا ہے، اور گو سب چیزیں علم الہٰی میں تو ہیں ہی مگر اس کے ساتھ ہی) سب چیزیں کتاب مبین (یعنی لوح محفوظ) میں (بھی منضبط و مندرج) میں (عرض واقعات ہر طرح محفوظ ہیں، آگے تخلیق کا مع اس کی بعض حکمتوں کے بیان ہے جس سے قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے کی بھی تائید ہوتی ہے، کیونکہ ابتدائی تخلیق دلیل ہے اس پر کہ وہ دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے) اور وہ (اللہ) ایسا ہے کہ سب آسمان اور زمین کو چھ دن (کی مقدار) میں پیدا کیا اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا (کہ یہ دونوں چیزیں پہلے سے پیدا ہوچکی تھیں اور یہ پیدا کرنا اس لئے ہے) تاکہ تم کو آزماوے کہ (دیکھیں) تم میں اچھا عمل کرنے والا کون ہے (مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان کو پیدا کیا، تمہارے حوائج و منافع اس میں پیدا کئے تاکہ تم ان کو دیکھ کر توحید پر استدلال کرو اور ان سے منتفع ہو کر منعم کا شکر اور خدمت کہ عبادت ہے عمل صالح سے، بجا لاؤ سو بعض نے ایسا کیا، بعض نے نہ کیا) اور اگر آپ (لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یقینا تم لوگ مرنے کے بعد (قیامت کے روز دوبارہ) زندہ کئے جاؤ گے تو (ان میں) جو لوگ کافر ہیں وہ (قرآن کی نسبت) کہتے ہیں کہ یہ تو نرا صاف جادو ہے (جادو اس لئے کہتے ہیں کہ وہ باطل ہوتا ہے مگر مؤ ثر، اسی طرح قرآن کو نعوذ باللہ باطل سمجھتے تھے لیکن اس کے مضامین کا مؤ ثر ہونا بھی مشاہدہ کرتے تھے، اس مجموعہ پر یہ حکم کیا، نعوذ باللہ منہ۔ مقصود اس سے آخرت کا انکار تھا، آگے ان کے منشاء انکار کا جواب ارشاد ہے) اور اگر تھوڑے دنوں تک (مراد دنیوی زندگی ہے) ہم ان سے عذاب (موعود) کو ملتوی رکھتے ہیں (کہ اس میں حکمتیں ہیں) تو (بطور انکار و استہزاء کے) کہنے لگتے ہیں کہ (جب ہم تمہارے نزدیک مستحق عذاب ہیں تو) اس عذاب کو کون چیز روک رہی ہے (یعنی اگر عذاب کوئی چیز ہوتی تو اب تک ہوچکتا جب نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ کچھ بھی نہیں، حق تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ) یاد رکھو جس دن (وقت موعود پر) وہ (عذاب) ان پر آپڑے گا تو پھر کسی کے ٹالے نہ ٹلے گا اور جس (عذاب) کے ساتھ یہ استہزاء کر رہے تھے وہ ان کو آگھیرے گا (مطلب یہ کہ باوجود استحقاق کے یہ تاخیر اس لئے ہے کہ بعض حکمتوں سے اس کا وقت معین ہے پھر اس وقت ساری کسر نکل جاوے گی)۔
معارف و مسائل
پچھلی آیت میں حق تعالیٰ کے علم محیط کا ذکر تھا جس سے کائنات کا کوئی ذرہ اور دلوں کے چھپے ہوئے راز بھی مخفی نہیں، آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں اس مناسبت سے انسان پر ایک عظیم الشان احسان کا ذکر کیا گیا ہے، وہ یہ کہ اس کے رزق کی کفالت حق تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لے لی اور نہ صرف انسان کی بلکہ زمین پر چلنے والے ہر جاندار کی، وہ جہاں کہیں رہتا ہے یا چلا جاتا ہے اس کی روزی اس کے پاس پہنچتی ہے، تو کفار کے یہ ارادے کہ اپنے کسی کام کو اللہ تعالیٰ سے چھپا لیں جہالت اور بےوقوفی کے سوا کچھ نہیں، پھر اس کے عموم میں جنگل کے تمام درندے، پرندے اور حشرات الارض، دریا اور خشکی کے تمام جانور داخل ہیں اس عموم کی تاکید کے لئے لفظ من کا اضافہ کرکے وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فرمایا ہے دابہ ہر اس جانور کو کہتے ہیں جو زمین پر چلے، پرندے جانور بھی اس میں داخل ہیں کیونکہ ان کا آشیانہ بھی کہیں زمین ہی پر ہوتا ہے، دریائی جانوروں کا بھی تعلق زمین سے ہونا کچھ مخفی نہیں، ان سب جانداروں کے رزق کی ذمہ داری حق تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے کر ایسے الفاظ سے اس کو بیان کیا ہے جیسے کوئی فریضہ کسی کے ذمہ ہو، ارشاد فرمایا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا یعنی اللہ کے ذمہ ہے اس کا رزق، یہ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری حق تعالیٰ پر ڈالنے والی کوئی اور طاقت نہیں بجز اس کے کہ اسی نے اپنے فضل سے یہ وعدہ فرما لیا، مگر وعدہ ایک صادق کریم کا ہے جس میں خلاف ورزی کا کوئی امکان نہیں، اسی یقین کو ظاہر کرنے کے لئے اس جگہ لفظ علی لایا گیا ہے جو فرائض کے بیان کے لئے استعمال ہوتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نہ کسی حکم کا پا بند ہے نہ اس کے ذمہ کوئی چیز فرض یا واجب ہے، رزق لغت میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے جاندار اپنی غذا حاصل کرے اور جس کے ذریعہ اس کی روح کی بقاء اور جسم میں نما یعنی فربہی اور بڑھوتری ہوتی ہے۔
رزق کے لئے یہ ضروری نہیں کہ جس کا رزق ہے وہ اس کا مالک بھی ہو، کیونکہ تمام جانوروں کو رزق دیا جاتا ہے مگر وہ اس کے مالک نہیں ہوتے ان میں مالکیت کی صلاحیت ہی نہیں، اسی طرح چھوٹے بچے اپنے رزق کے مالک نہیں ہوتے مگر رزق ان کو ملتا ہے۔
رزق کے اس عام معنی کے اعتبار سے علماء نے فرمایا کہ رزق حلال بھی ہوسکتا ہے حرام بھی کیونکہ جو شخص کسی دوسرے کا مال ناجائز طور پر لے کر کھالے تو یہ مال غذا تو اس شخص کی بن گیا مگر حرام طور پر بنا، اگر یہ اپنی حرص میں اندھا ہو کر ناجائز طریقے استعمال نہ کرتا تو جو رزق اس کے لئے مقرر تھا وہ جائز طور پر اس کو ملتا۔
رزق کی خدائی ذمہ داری پر ایک سوال اور جواب
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر جاندار کا رزق اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے تو پھر ایسے واقعات کیوں پیش آتے ہیں کہ بہت سے جانور اور انسان غذا نہ ملنے کے سبب بھوکے پیاسے مرجاتے ہیں، اس کے جواب علماء نے متعدد لکھے ہیں۔
ایک جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رزق کی ذمہ داری اسی وقت تک ہے جب تک اس کی اجل مقدر یعنی عمر پوری نہیں ہوجاتی، جب یہ عمر پوری ہوگئی تو اس کو بہرحال مرنا ہے اور اس جہان سے گزرنا ہے جس کا عام سبب امراض ہوتے ہیں کبھی جلنا یا غرق ہونا یا چوٹ اور زخم بھی سبب ہوتا ہے، اسی طرح ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا رزق بند کردیا گیا، اس سے موت واقع ہوئی۔
امام قرطبی نے اس آیت کے تحت ابو موسیٰ اور ابو مالک وغیرہ قبیلہ اشعریین کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچے تو جو کچھ توشہ اور کھانے پینے کا سامان ان کے پاس تھا وہ ختم ہوگیا، انہوں نے اپنا ایک آدمی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس غرض کے لئے بھیجا کہ ان کے کھانے وغیرہ کا کچھ انتظام فرما دیں، یہ شخص جب رسول کریم ﷺ کے دروازہ پر پہنچا تو اندر سے آواز آئی کہ رسول کریم ﷺ یہ آیت پڑھ رہے ہیں وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا اس شخص کو یہ آیت سن کر خیال آیا کہ جب اللہ نے سب جانداروں کا رزق اپنے ذمہ لے لیا ہے تو پھر ہم اشعری بھی اللہ کے نزدیک دوسرے جانوروں سے گئے گزرے نہیں وہ ضرور ہمیں بھی رزق دیں گے، یہ خیال کرکے وہیں سے واپس ہوگیا، آنحضرت ﷺ کو اپنا کچھ حال نہیں بتلایا، واپس جاکر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ خوش ہوجاؤ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد آرہی ہے، اس کے اشعری ساتھیوں نے اس کا یہ مطلب سمجھا کہ ان کے قاصد نے حسب قرارداد رسول کریم ﷺ سے اپنی حاجت کا ذکر کیا ہے اور آپ نے انتظام کرنے کا وعدہ فرما لیا ہے وہ یہ سمجھ کر مطمئن بیٹھ گئے، اور ابھی بیٹھے ہی تھے کہ دیکھا کہ دو آدمی ایک (قصعہ) گوشت اور روٹیوں سے بھرا ہوا اٹھائے لا رہے ہیں، قصعہ ایک بڑا برتن ہوتا ہے جیسے تشلہ یا سینی، لانے والوں نے یہ کھانا اشعریین کو دے دیا، انہوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا پھر بھی بچ رہا تو ان لوگوں نے یہ مناسب سمجھا کہ باقی کھانا آنحضرت ﷺ کے پاس بھیج دیں تاکہ اس کو آپ اپنی ضرورت میں صرف فرمادیں، اپنے دو آدمیوں کو یہ کھانا دے کر آنحضرت ﷺ کے پاس بھیج دیا۔
اس کے بعد یہ سب حضرات آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ میں نے تو کوئی کھانا نہیں بھیجا۔
تب انہوں نے پورا واقعہ عرض کیا کہ ہم نے اپنے فلاں آدمی کو آپ کے پاس بھیجا تھا، اس نے یہ جواب دیا، جس سے ہم نے سمجھا کہ آپ نے کھانا بھیجا ہے، یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ میں نے نہیں بلکہ اس ذات قدوس نے بھیجا ہے جس نے ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لیا ہے۔
بعض روایات میں ہے کہ جس وقت حضرت موسیٰ ؑ آگ کی تلاش میں کوہ طور پر پہنچے اور وہاں آگ کے بجائے تجلیات الہٰی سامنے آئیں اور ان کو نبوت و رسالت عطا ہو کر فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کے لئے مصر جانے کا حکم ملا تو خیال آیا کہ میں اپنی زوجہ کو جنگل میں تنہا چھوڑ کر آیا ہوں اس کا کون متکفل ہوگا، اس خیال کی اصلاح کے لئے حق تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ سامنے پڑی ہوئی پتھر کی چٹان پر لکڑی ماریں، انہوں نے تعمیل حکم کی تو یہ چٹان پھٹ کر اس کے اندر سے ایک دوسرا پتھر برآمد ہوا، حکم ہوا اس پر بھی لکڑی ماریں، ایسا کیا تو وہ پتھر پھٹا اور اندر سے تیسرا پتھر برآمد ہوا، اس پر بھی لکڑی مارنے کا حکم ہوا تو یہ شق ہوا اور اندر سے ایک جانور برآمد ہوا جس کے منہ میں ہرا پتہ تھا۔
حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا یقین تو موسیٰ ؑ کو پہلے بھی تھا مگر مشاہدہ کا اثر کچھ اور ہی ہوتا ہے، یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ ؑ وہیں سے سیدھے مصر کو روانہ ہوگئے، زوجہ محترمہ کو یہ بتلانے بھی نہ گئے کہ مجھے مصر جانے کا حکم ہوا ہے، وہاں جارہا ہوں۔
ساری مخلوق کو رزق رسانی کا عجیب و غریب نظام قدرت
اس آیت میں حق تعالیٰ نے صرف اس پر اکتفا نہیں فرمایا کہ ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لے لیا بلکہ انسان کے مزید اطمینان کے لئے فرمایا (آیت) وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا، اس آیت میں مُسْتَــقَرَّ اور مُسْـتَوْدَعَ کی مختلف تفسیریں منقول ہیں مگر لغت کے اعتبار سے وہ اقرب ہے جس کو کشاف نے اختیار کیا ہے کہ مستقر اس جگہ کو کہا جاتا ہے جہاں کوئی شخص مستقل طور پر جائے قیام یا وطن بنالے اور مستودع اس جگہ کو جہاں عارضی طور پر کسی ضرورت کے لئے ٹھہرے۔
مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری کو دنیا کے لوگوں اور حکومتوں کی ذمہ داری پر قیاس نہ کرو، دنیا میں اگر کوئی شخص یا کوئی ادارہ آپ کے رزق کی ذمہ داری لے لے تو اتنا کام بہرحال آپ کو کرنا پڑے گا کہ اگر اپنی مقررہ جگہ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانا ہو تو اس فرد یا ادارہ کو اطلاع دیں کہ میں فلاں تاریخ سے فلاں تک فلاں شہر یا گاؤں میں رہوں گا، رزق کے وہاں پہنچنے پہنچانے کا انتظام کیا جائے، مگر حق تعالیٰ کی ذمہ داری میں آپ پر اس کا بھی کوئی بار نہیں کیونکہ وہ آپ کی ہر نقل و حرکت سے باخبر ہے، آپ کے مستقل جائے قیام کو بھی جانتا ہے اور عارضی اقامت کی جگہ سے بھی واقف، بغیر کسی درخواست اور نشان دہی کے آپ کا راشن وہاں منتقل کردیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے علم محیط اور قدرت مطلقہ کے پیش نظر صرف اس کا ارادہ فرما لینا تمام کاموں کے سرانجام ہونے کے لئے کافی تھا کسی کتاب یا رجسٹر میں لکھنے لکھانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، مگر مسکین انسان جس نظام کا خوگر ہوتا ہے اس کو اس نظام پر قیاس کرکے بھول چوک کا کھٹکا ہوسکتا ہے اس لئے اس کے مزید اطمینان کے لئے فرمایا (آیت) كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ ، یعنی یہ سب کچھ ایک واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے، اس واضح کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے جس میں تمام کائنات کی روزی، عمر، عمل وغیرہ کی پوری تفصیلات لکھی ہوئی ہیں جو حسب موقع و ضرورت متعلقہ فرشتوں کے سپرد کردی جاتی ہیں۔
صحیح مسلم میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمر نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیریں آسمان اور زمین کی پیدائش سے بھی پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی تھیں۔
اور بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک طویل حدیث میں فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے انسان اپنی پیدائش سے پہلے مختلف دور سے گزرتا ہے، جب اس کے اعضاء کی تکمیل ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو حکم کرتے ہیں جو اس کے متعلق چار چیزیں لکھ لیتا ہے اول اس کا عمل جو کچھ وہ کرے گا، دوسرے اس کی عمر کے سال، مہینہ، دن اور منٹ اور سانس تک لکھ لئے جاتے ہیں، تیسرے اس کو کہاں مرنا اور کہاں دفن ہونا ہے، چوتھے اس کا رزق کتنا اور کس کس طریقے سے پہنچنا ہے، (اور لوح محفوظ میں آسمان زمین کی پیدائش سے بھی پہلے لکھا ہونا اس کے منافی نہیں)۔
Top