Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 31
وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى١ؕ بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا١ؕ اَفَلَمْ یَایْئَسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِهِمْ حَتّٰى یَاْتِیَ وَعْدُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ کہ (ہوتا) قُرْاٰنًا : ایسا قرآن سُيِّرَتْ : چلائے جاتے بِهِ : اس سے الْجِبَالُ : پہاڑ اَوْ : یا قُطِّعَتْ : پھٹ جاتی بِهِ : اس سے الْاَرْضُ : زمین اَوْ : یا كُلِّمَ : بات کرنے لگتے بِهِ : اس سے الْمَوْتٰى : مردے بَلْ : بلکہ لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے الْاَمْرُ : کام جَمِيْعًا : تمام اَفَلَمْ يَايْئَسِ : تو کیا اطمینان نہیں ہوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ لوگ جو ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ : اگر اللہ چاہتا لَهَدَى : تو ہدایت دیدیتا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : سب وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے (کافر) تُصِيْبُهُمْ : انہیں پہنچے گی بِمَا صَنَعُوْا : اس کے بدلے جو انہوں نے کیا (اعمال) قَارِعَةٌ : سخت مصیبت اَوْ تَحُلُّ : یا اترے گی قَرِيْبًا : قریب مِّنْ : سے (کے) دَارِهِمْ : ان کے گھر حَتّٰى : یہانتک يَاْتِيَ : آجائے وَعْدُ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُخْلِفُ : خلاف نہیں کرتا الْمِيْعَادَ : وعدہ
اور اگر کوئی قرآن ہوا ہوتا کہ چلیں اس سے پہاڑ یا ٹکڑے ہو وے اس سے زمین، یا بولیں اس سے مردے تو کیا ہوتا، بلکہ سب کام تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، سو کیا خاطر جمع نہیں ایمان والوں کو اس پر کہ اگر چاہے اللہ تو راہ پر لائے سب لوگوں کو اور برابر پہنچتا رہے گا منکروں کو ان کے کرتوت پر صدمہ یا اترے گا ان کے گھر سے نزدیک جب تک کہ پہنچے وعدہ اللہ کا، بیشک اللہ خلاف نہیں کرتا اپنا وعدہ
خلاصہ تفسیر
اور (اے پیغمبر اور مسلمانو ! ان کافروں کی عناد کی یہ کیفیت ہے کہ قرآن کی جو موجودہ حالت ہے کہ اس کا معجزہ ہونا غور وفکر پر موقوف ہے بجائے اس کے) اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا جس کے ذریعہ سے پہاڑ (اپنی جگہ سے) ہٹا دیئے جاتے یا اس کے ذریعے سے زمین جلدی جلدی طے ہوجاتی یا اس کے ذریعہ سے مردوں کے ساتھ کسی کو باتیں کرا دی جائیں (یعنی مردہ زندہ ہوجاتا اور کوئی اس سے باتیں کرلیتا اور یہ وہ معجزے ہیں جن کی فرمائش اکثر کفار کیا کرتے تھے بعضے مطلقا بعضے اس طرح سے کہ قرآن کو بحالت موجودہ تو ہم معجزہ مانتے نہیں البتہ اگر قرآن سے ان خوارق کا ظہور ہو تو ہم اس کو معجزہ مان لیں مطلب یہ کہ قرآن سے ایسے ایسے معجزات کا بھی ظہور ہوتا جس سے دونوں طرح کے لوگوں کی فرمائش پوری ہوجاتی یعنی جو نفس خوارق مذکورہ کے مسدعی تھے اور جو ان کا ظہور قرآن سے چاہتے تھے) تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے (کیونکہ یہ اسباب مؤ ثر حقیقی نہیں) بلکہ سارا اختیار اللہ ہی کو ہے (وہ جس کو توفیق عطا فرماتے ہیں وہی ایمان لاتا ہے اور انکی عادت ہے کہ طالب کو توفیق دیتے ہیں اور معاند کو محروم رکھتے ہیں اور چونکہ بعضے مسلمانوں کا جی چاہتا تھا کہ ان معجزات کا ظہور ہوجاوے تو شاید ایمان لے آویں اس لئے آگے ان کا جواب ہے کہ) کیا (یہ سن کر کہ یہ معاند ہیں ایمان نہ لاویں گے اور یہ کہ سب اختیار خدا ہی کو ہے اور یہ کہ اسباب مؤ ثر حقیقی نہیں ہیں کیا یہ سن کر) پھر بھی ایمان والوں کو اس بات میں دل جمعی نہیں ہوئی کہ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو تمام (دنیا بھر کے) آدمیوں کو ہدایت کردیتا (مگر بعض حکمتوں سے مشیت نہیں ہوئی تو سب ایمان نہ لاویں گے جس کی بڑی وجہ عناد ہے پھر ان معاندین کے ایمان لانے کی فکر میں کیوں لگے ہیں) اور (جب محقق ہوگیا کہ یہ لوگ ایمان نہ لاویں گے تو اس امر کا خیال آسکتا ہے کہ پھر ان کو سزا کیوں نہیں دی جاتی اس کے متعلق ارشاد ہے کہ) یہ (مکہ کے) کافر تو ہمیشہ (آئے دن) اس حالت میں رہتے ہیں کہ ان کے (بد) کرداروں کے سبب ان پر کوئی نہ کوئی حادثہ پڑتا رہتا ہے (کہیں قتل کہیں قید کہیں ہزیمت و شکست) یا (بعض حادثہ اگر ان پر نہیں بھی پڑتا مگر) ان کی بستی کے قریب نازل ہوتا رہتا ہے (مثلا کسی قوم پر آفت آئی اور ان کو خوف پیدا ہوگیا کہ کہیں ہم پر بھی بلا نہ آوے) یہاں تک کہ (اسی حالت میں) اللہ تعالیٰ کا وعدہ آ جاوے گا (یعنی آخرت کے عذاب کا سامنا ہوجاوے گا جو کہ مرنے کے بعد شروع ہوجاوے گا اور) یقینا اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتے (پس عذاب کا وقوع ان پر یقینی ہے گو بعض اوقات کچھ دیر سے سہی) اور (ان لوگوں کا یہ معاملہ تکذیب و استہزاء کچھ آپ کے ساتھ خاص نہیں اور اسی طرح ان کے عذاب میں توفیق ہونا کچھ ان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پہلے رسل اور ان کی امتوں کے ساتھ بھی ایسا ہوچکا ہے چنانچہ) بہت سے پیغمبروں کے ساتھ جو کہ آپ سے قبل ہوچکے ہیں (کفار کی طرف سے) استہزاء ہوچکا ہے پھر میں ان کافروں کو مہلت دیتا رہا پھر میں نے ان پر داروگیر کی سو (سمجھنے کی بات ہے کہ) میری سزا کس طرح کی تھی (یعنی نہایت سخت تھی جب اللہ تعالیٰ کی شان معلوم ہوگئی وہی مختار کل ہیں تو اس سے معلوم اور ثابت ہونے کے بعد) پھر (بھی) کیا جو (خدا) ہر شخص کے اعمال پر مطلع ہوا اور ان لوگوں کے شرکاء برابر ہو سکتے ہیں اور (باوجود اس کے) ان لوگوں نے خدا کے لئے شرکاء تجویز کئے ہیں آپ ﷺ کہئے کہ (ذرا) ان (شرکاء) کے نام تو لو (میں بھی سنو کون ہیں اور کیسے ہیں) کیا (تم حقیقتا ان کو شرکاء سمجھ کر دعوی کرتے ہو تو تم پر یہ لازم آتا ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو کہ دنیا (بھر) میں اس (کے وجود) کی خبر اللہ تعالیٰ کو نہ ہو (کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی کو موجود جانتے ہیں جو واقع میں موجود ہو اور معدوم کو موجود نہیں جانتے کیونکہ اس سے علم کا غلط لازم آتا ہے گو انکشاف میں دونوں یکساں ہیں غرض ان کو حقیقی شریک کہنے سے یہ محال لازم آتا ہے پس ان کا شریک ہونا بھی محال ہے) یا (یہ کہ ان کو حقیقۃ شریک نہیں بلکہ) محض ظاہری لفظ کے اعتبار ان کو شریک کہتے ہو (اور مصداق واقعی اس کا کہیں نہیں ہے اگر یہ شق ثانی ہے تو ان کے شریک نہ ہونے کو از خود تسلیم کرتے ہو پس مطلوب کہ بطلان اشراک ہے دونوں شقوں پر ثابت ہوگیا اول شق میں دلیل سے دوسری شق میں تمہاری تسلیم سے اور یہ تقریر باوجودیکہ اعلیٰ درجہ میں کافی ہے مگر یہ لوگ نہ مانیں گے) بلکہ ان کافروں کو اپنے مغالطہ کی باتیں (جس سے تمسک کر کے مبتلائے شرک ہیں) مرغوب معلوم ہوتی ہیں اور (اسی وجہ سے) یہ لوگ راہ (حق) سے محروم رہ گئے ہیں اور (اصل وہی بات ہے جو اوپر (بل للہ الامر) سے مفہوم ہوچکی ہے یعنی) جس کو خدا تعالیٰ گمراہی میں رکھے اس کو کوئی راہ پر لانے والا نہیں (البتہ وہ اسی کو گمراہ رکھتا ہے جو باوجود وضوح حق کے عناد کرتا ہے)

معارف و مسائل
مشرکین مکہ کے سامنے اسلام کی حقانیت کے واضح دلائل اور رسول کریم ﷺ کے سچے رسول ہونے کی کھلی ہوئی نشانیاں آپ کی زندگی کے ہر شعبہ سے پھر حیرت انگیز معجزات سے پوری طرح روشن ہوچکی تھیں اور ان کا سردار ابوجہل یہ کہہ چکا تھا کہ بنو ہاشم سے ہمارا خاندانی مقابلہ ہے ہم ان کی اس برتری کو کیسے قبول کرلیں کہ خدا کا رسول کریم ﷺ ان میں سے آیا اس لئے وہ کچھ بھی کہیں اور کیسی ہی نشانیاں دکھلائیں ہم ان پر کسی حال ایمان نہیں لائیں گے اسی لئے وہ ہر موقع پر اس ضد کا مظاہرہ لغو قسم کے سوالات اور فرمائشوں کے ذریعہ کیا کرتے تھے آیات مذکورہ بھی ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کے ایک سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہیں تفسیر بغوی میں ہے کہ مشرکین مکہ جن میں ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ ابن امیہ کو رسول کریم ﷺ کے پاس بھیجا اس نے کہا کہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی قوم اور ہم سب آپ کو رسول تسلیم کرلیں اور آپ کی پیروی کریں تو ہمارے چند مطالبات ہیں اپنے قرآن کے ذریعہ ان کو پورا کر دیجئے تو ہم سب اسلام قبول کرلیں گے،
مطالبات میں ایک تو یہ تھا کہ شہر مکہ کی زمین بڑی تنگ ہے سب طرف پہاڑوں سے گھری ایک طولانی زمین ہے جس میں نہ کاشت اور زراعت کی گنجائش ہے نہ باغات اور دوسری ضروریات کی آپ معجزہ کے ذریعہ ان پہاڑوں کو دور ہٹا دیجئے تاکہ مکہ کی زمین فراخ ہوجائے آخر آپ ہی کے کہنے کے مطابق داؤد ؑ کے لئے پہاڑ مسخر کردیئے گئے تھے جب وہ تسبیح پڑھتے تو پہاڑ بھی ساتھ ساتھ تسبیح کرتے تھے آپ اپنے قول کے مطابق اللہ کے نزدیک داؤد ؑ سے کمتر تو نہیں ہیں
دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ جس طرح سیلمان ؑ کے لئے آپ کے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہوا کو مسخر کر کے زمین کے بڑے بڑے فاصلوں کو مختصر کردیا تھا آپ بھی ہمارے لئے ایسا ہی کردیں کہ ہمیں شام و یمن وغیرہ کے سفر آسان ہوجائیں
تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ جس طرح عیسیٰ ؑ مردوں کو زندہ کردیتے تھے آپ ان سے کچھ کم تو نہیں آپ بھی ہمارے لئے ہمارے دادا قصی کو زندہ کر دیجئے تاکہ ہم ان سے یہ دریافت کرسکیں کہ آپ کا دین سچا ہے یا نہیں (مظہری بحوالہ بغوی وابن ابی حاتم وابن مردویہ)
مذکور الصدر آیات میں ان معاندانہ مطالبوں کا یہ جواب دیا گیا
(آیت) وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى ۭ بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا
اس میں تسییر جبال سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹانا اور قطعت بہ الارض سے مراد مختصر وقت میں بڑی مسافت قطع کرنا اور کلم بہ الموتیٰ سے مردوں کو زندہ کر کے کلام کرنا مراد ہے اور لوحرف شرط کا جواب بقرینہ مقام محذوف ہے یعنی لما آمنوا جیسا کہ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ایسا ہی مضمون اور اس کا یہی جواب مذکور ہے (آیت) وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤ ْمِنُوْٓا۔ اور معنی یہ ہیں کہ اگر قرآن کے ذریعہ بطور معجزہ کے ان کے یہ مطالبات پورے کردیئے جائیں تب بھی وہ ایمان لانے والے نہیں کیونکہ وہ ان مطالبات سے پہلے ایسے معجزات کا مشاہدہ کرچکے ہیں جو ان کے مطلوبہ معجزات سے بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں رسول کریم ﷺ کے اشارہ سے چاند کے دو ٹکڑے ہوجانا پہاڑوں کے اپنی جگہ سے ہٹ جانے سے اور تسخیر ہو اسے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہے اسی طرح بےجان کنکریوں کا آپ کے دست مبارک میں بولنا اور تسبیح کرنا کسی مردہ انسان کے دوبارہ زندہ ہو کر بولنے سے کہیں زیادہ عظیم معجزہ ہے لیلۃ المعراج میں مسجد اقصٰی اور پھر وہاں سے آسمانوں کا سفر اور بہت مختصر وقت میں واپسی تسخیر ہوا اور تخت سلیمانی کے اعجاز سے کتنا زیادہ عظیم ہے مگر یہ ظالم یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی جب ایمان نہ لائے تو اب ان مطالبات سے بھی ان کی نیت معلوم ہے کہ محض دفع الوقتی ہے کچھ ماننا اور کرنا نہیں ہے مشرکین کے ان مطالبات کا مقصد چونکہ یہی تھا کہ ہمارے مطالبات پورے نہ کئے جائیں گے تو ہم کہیں گے کہ معاذ اللہ اللہ تعالیٰ کو ان کاموں پر قدرت نہیں یا پھر رسول کریم ﷺ کی بات اللہ تعالیٰ کے یہاں مسموع اور مقبول نہیں جس سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں اس لئے اس کے بعد ارشاد فرمایا بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا یعنی اللہ ہی کے لئے اختیار سب کا سب مطلب یہ ہے کہ مذکورہ مطالبات کا پورا نہ کرنا اس وجہ سے نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مصالح عالم کو وہی جاننے والے ہیں انہوں نے اپنی حکمت سے ان مطالبات کو پورا کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ مطالبہ کرنے والوں کی ہٹ دھرمی اور بدنیتی ان کو معلوم ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ سب مطالبے پورے کردیئے جائیں گے جب بھی یہ ایمان نہ لائیں گے۔
اَفَلَمْ يَايْــــــَٔـسِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ لَّوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيْعًا امام بغوی نے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین نے جب مشرکین مکہ کے یہ مطالبات سنے تو یہ تمنا کرنے لگے کہ بطور معجزہ کے یہ مطالبات پورے کردیئے جائیں تو بہتر ہے سارے مکہ والے مسلمان ہوجائیں گے اور اسلام کو بڑی قوت حاصل ہوجائے گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس کے معنی یہ ہیں کہ کیا اہل ایمان ان مشرکین کی حیلہ جوئی اور معاندانہ بحثوں کو دیکھنے اور جاننے کے باوجود اب تک ان کے ایمان لانے سے مایوس نہیں ہوئے کہ ایسی تمنائیں کرنے لگے جب کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا جو سب ہی انسانوں کو ایسی ہدایت دیدیتا کہ وہ مسلمان بنے بغیر نہ رہ سکتے مگر حکمت کا تقاضا یہ نہ تھا کہ سب کو اسلام و ایمان پر مجبور کردیا جائے بلکہ حکمت یہی تھی کہ ہر شخص کا اپنا اختیار باقی رہے اپنے اختیار سے اسلام کو قبول کرے یا کفر کو۔
(آیت) وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تُصِيْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِهِم حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ قارعہ کے معنی مصیبت اور آفت کے ہیں معنی آیت کے یہ ہیں کہ ان مشرکین کے مطالبات تو اس لئے منظور نہیں کئے گئے کہ ان کی بدنیتی اور ہٹ دھرمی معلوم تھی کہ پورے کرنے پر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں یہ تو اللہ کے نزدیک اسی کے مستحق ہیں کہ ان پر دنیا میں بھی آفتیں اور مصیبتیں آئیں جیسا کہ اہل مکہ پر کبھی قحط کی مصیبت آئی کبھی اسلامی غزوات بدر واحد وغیرہ میں ان پر قتل اور قید ہونے کی آفت نازل ہوئی کسی پر بجلی گر گئی کوئی اور کسی بلاء میں مبتلا ہوا اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِهِمْ یعنی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ مصیبت براہ راست ان پر نہیں آئے گی بلکہ ان کے قریب والی بستیوں پر آئے گی جس سے ان کو عبرت حاصل ہو اور ان کو اپنا انجام بد بھی نظر آنے لگے۔
(آیت) حَتّٰى يَاْتِيَ وَعْدُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَاد یعنی ان مصائب وآفات کا یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا نہ ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کبھی ٹل نہیں سکتا مراد اس وعدہ سے فتح مکہ کا وعدہ ہے مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں پر مختلف قسم کی آفتیں آتی رہیں گی یہاں تک کہ آخر میں مکہ مکرمہ فتح ہوگا اور یہ سب لوگ مغلوب و مقہور ہوجائیں گے
آیت مذکورہ میں اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِهِمْ سے معلوم ہوا کہ جس قوم اور بستی کے قرب و جوار پر کوئی عذاب یا آفت و مصیبت آتی ہے تو اس میں حق تعالیٰ شانہ کی یہ حکمت بھی مستور ہوتی ہے کہ آس پاس کی بستیوں کو بھی تنبیہ ہوجائے اور وہ دوسروں سے عبرت حاصل کر کے اپنے اعمال درست کرلیں تو یہ دوسروں کا عذاب ان کے لئے رحمت بن جائے ورنہ پھر ایک دن ان کا بھی وہی انجام ہونا ہے جو دوسروں کا مشاہدہ میں آیا ہے۔
آج ہمارے ملک میں قرب و جوار میں روز روز کسی جماعت کسی بستی پر مختلف قسم کی آفتیں آتی رہتی ہیں کہیں سیلاب کی تباہ کاری کہیں ہوا کے طوفان کہیں زلزلہ کا عذاب کہیں کوئی اور آفت قرآن کریم کے اس ارشاد کے مطابق یہ صرف ان بستیوں اور قوموں ہی کی سزا نہیں ہوتی بلکہ قرب و جوار کے لوگوں کو بھی تنبیہ ہوتی ہے پچھلے زمانہ میں اگرچہ علم وفن کی اتنی ٹیپ ٹاپ نہ تھی مگر لوگوں کے دلوں میں خدا کا خوف تھا کسی جگہ اس طرح کا کوئی حادثہ پیش آجاتا تو خود وہ لوگ بھی اور اس کے قرب و جوار والے بھی سہم جاتے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے اپنے گناہوں سے تائب ہوتے اور استغفار، صدقہ و خیرات کو ذریعہ نجات سمجھتے تھے اور آنکھوں سے مشاہدہ ہوتا تھا کہ ان کی مصیبتیں بڑی آسانی سے ٹل جاتی تھیں آج ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ مصیبت کے وقت بھی خدا ہی یاد نہیں آتا اور سب کچھ یاد آتا ہے دنیا کے عام غیر مسلموں کی طرح ہماری نظریں بھی صرف مادی اسباب پر جم کر رہ جاتی ہیں مسبب الاسباب کی طرف توجہ کی اس وقت بھی توفیق کم لوگوں کو ہوتی ہے اسی کا نتیجہ اس طرح کے مسلسل حوادث ہیں جن سے دنیا ہمیشہ دو چار رہتی ہے۔
حَتّٰى يَاْتِيَ وَعْدُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَاد یعنی ان کفار و مشرکین پر دنیا میں بھی مختلف عذابوں اور آفتوں کا یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آ پہنچنے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے کبھی خلاف نہیں کرتے۔
وعدہ سے مراد اس جگہ فتح مکہ ہے جس کا وعدہ حق تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے کیا ہوا تھا اور مطلب آیت کا یہ ہوا کہ آخر میں تو مکہ فتح ہو کر ان سب مشرکین کو زیر و زبر اور مغلوب و مقہور ہونا ہی ہے اس سے پہلے بھی ان کے ان کے جرائم کی کچھ کچھ سزا ان کو ملتی رہے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وَعْدُ اللّٰهِ سے مراد اس جگہ روز قیامت ہو جس کا وعدہ سب پیغمبروں سے کیا ہوا ہے اور ہمیشہ سے کیا ہوا ہے اس روز تو ہر کافر مجرم اپنے کئے کی پوری پوری سزا بھگتے گا مذکور الصدر واقعہ میں مشرکین کے معاندانہ سوالات اور ان کی ہٹ دھرمی سے رسول کریم ﷺ کو رنج و تکلیف پہنچنے کا اندیشہ تھا اس لئے اگلی آیت میں آپ کی تسلی کے لئے فرمایا گیا۔
Top