Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 24
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا كَيْفَ : کیسی ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : مثال كَلِمَةً طَيِّبَةً : کلمہ طیبہ (پاک بات) كَشَجَرَةٍ : جیسے درخت طَيِّبَةٍ : پاکیزہ اَصْلُهَا : اس کی جڑ ثَابِتٌ : مضبوط وَّفَرْعُهَا : اور اس کی شاخ فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان
تو نے نہ دیکھا کیسی بیان کی اللہ نے ایک مثال بات ستھری جیسے ایک درخت ستھرا اس کی جڑ مضبوط ہے اور ٹہنی ہے آسمان میں
خلاصہ تفسیر
کیا آپ کو معلوم نہیں (اب معلوم ہوگیا) کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی (اچھی اور موقع کی) مثال بیان فرمائی ہے کلمہ طیبہ کی کی (یعنی کلمہ توحید و ایمان کی) کہ وہ مشابہ ہے ایک پاکیزہ دوخت کے (مراد کھجور کا درخت ہے) جس کی جڑ (زمین کے اندر) خوب گڑی ہوئی ہو اور اس کی شاخیں اونچائی میں جارہی ہوں (اور) وہ (یعنی خوب پھلتا ہو کوئی فصل ماری نہ جاتی ہو اسی طرح کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ کی ایک جڑ ہے یعنی اعتقاد جو مومن کے قلب میں استحکام کے ساتھ جائگیر ہے اور اس کی کچھ شاخیں ہیں یعنی اعمال صالحہ جو ایمان پر مرتب ہوتے ہیں جو بارگاہ قبولیت میں آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں پھر ان پر رضائے دائمی کا ثمرہ مرتب ہوتا ہے) اور اللہ تعالیٰ (اس قسم کی) مثالیں لوگوں (کے بتلانے) کے واسطے اس لئے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ (لوگ معانی مقصود کو) خوب سمجھ لیں (کیونکہ مثال سے مقصود کی خوب توضیح ہوجاتی ہے)
Top