Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 2
اللّٰهِ الَّذِیْ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ وَیْلٌ لِّلْكٰفِرِیْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِیْدِۙ
اللّٰهِ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو کہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو کچھ فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور وَيْلٌ : خرابی لِّلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے مِنْ : سے عَذَابٍ : عذاب شَدِيْدِ : شخت
اللہ کے جس کا ہے جو کچھ کہ موجود ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں اور مصیبت ہے کافروں کو ایک سخت عذاب سے
اللہ تعالیٰ کی یہ دو صفتیں پہلے بیان کرنے کے بعد فرمایا اللّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَافِي السَّمٰوٰتِ وَمَافِي الْاَرْضِ یعنی یہ وہ ذات ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اس کا پیدا کیا ہوا اور اسی کی ملک خاص ہے جس میں کوئی شریک نہیں۔
وَوَيْلٌ لِّلْكٰفِرِيْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيْدِ لفظ ویل عذاب شدید اور ہلاکت کے معنی میں آتا ہے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ اس نعمت قرآن سے منکر ہیں اور کفر و شرک کے اندھیرے ہی میں رہنے کو پسند کرتے ہیں ان کے لئے بڑی بربادی اور ہلاکت ہے اس عذاب شدید سے جو ان پر آنے والا ہے۔
خلاصہ مفہوم
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم اس لئے نازل کیا گیا ہے کہ سب انسانوں کو اندھیرے سے نکال کر اللہ کے راستہ کی روشنی میں لے آئے مگر جو بدنصیب قرآن ہی کے منکر ہوجائیں تو وہ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو عذاب میں ڈال رہے ہیں جو لوگ قرآن کے کلام الہی ہونے ہی کے منکر ہیں وہ تو اس وعید کی مراد ہیں ہی مگر جو اعتقادا منکر نہیں مگر عملا قرآن کو چھوڑے ہوئے ہیں نہ تلاوت سے کوئی واسطہ ہے نہ اس کے سمجھنے اور عمل کرنے کی طرف کوئی التفات ہے وہ بدنصیب بھی مسلمان ہونے کے باوجود اس وعید سے بالکل بری نہیں۔
Top