Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 30
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا لِّیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِهٖ١ؕ قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَكُمْ اِلَى النَّارِ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرائے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے اَنْدَادًا : شریک لِّيُضِلُّوْا : تاکہ وہ گمراہ کریں عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ قُلْ : کہ دیں تَمَتَّعُوْا : فائدہ اٹھا لو فَاِنَّ : پھر بیشک مَصِيْرَكُمْ : تمہارا لوٹنا اِلَى : طرف النَّارِ : جہنم
اور ٹھہرائے اللہ کے لئے مقابل کہ بہکائیں لوگوں کو اس کی راہ سے تو کہہ مزا اڑا لو پھر تم کو لوٹنا ہے طرف آگ کی
خلاصہ تفسیر
اور (اوپر جو کہا گیا ہے کہ ان لوگوں نے شکر نعمت کی جگہ کفر کیا اور اپنی قوم کو جہنم میں پہنچایا اس کفر اور پہنچانے کا بیان یہ ہے کہ) ان لوگوں نے اللہ کے ساجھی قرار دیئے تاکہ (دوسروں کو بھی) اس کے دین سے گمراہ کریں (پس ساجھی قرار دینا کفر ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنا جہنم میں پہچانا ہے) آپ (ان سب سے) کہہ دیجئے کہ چندے عیش کرلو کیونکہ آخر انجام تمہارا دوزخ میں جانا ہے (عیش سے مراد حالت کفر میں رہنا ہے کیونکہ ہر شخص کو اپنے مذہب میں لذت ہوتی ہے یعنی اور چندے کفر کرلو یہ تہدید ہے اور مطلب کیونکہ کا یہ ہے کہ چونکہ جہنم میں جانا تو تمہارا ضروری ہے اس واسطے کفر سے باز آنا تمہارا مشکل ہے خیر اور چندے گذار لو پھر تو اس مصیبت کا سامنا ہوگا ہی اور) جو میرے خاص ایمان والے بندے ہیں (ان کو اس کفر نعمت کے وبال پر متنبہ کر کے اس سے محفوظ رکھنے کے لئے) ان سے کہہ دیجئے کہ وہ (نعمت الہی کے اس طرح شکر گذار رہیں کہ) نماز کی پابندی رکھیں اور ہم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس میں سے (حسب قواعد شرعیہ) پوشیدہ اور آشکارا (جیسا موقع ہو) خرچ کیا کریں ایسے دن کے آنے سے پہلے پہلے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی اور نہ دوستی ہوگی (مطلب یہ کہ عبادات بدنیہ ومالیہ کو ادا کرتے رہیں کہ یہی شکر ہے نعمت کا) اللہ ایسا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس پانی سے پھلوں کی قسم سے تمہارے لئے رزق پیدا کیا اور تمہارے نفع کے واسطے کشتی (اور جہاز) کو (اپنی قدرت کا) مسخر بنایا تاکہ وہ خدا کے حکم (وقدرت) سے دریا میں چلے (اور تمہاری تجارت اور سفر کی غرض حاصل ہو) اور تمہارے نفع کے واسطے نہروں کو (اپنی قدرت کا) مسخر بنایا (تاکہ اسی سے پانی پیو اور آب پاشی کرو اور اس میں کشتی چلاؤ) اور تمہارے نفع کے واسطے سورج اور چاند کو (اپنی قدرت کا) مسخر بنایا جو ہمیشہ چلنے ہی میں رہتے ہیں (تاکہ تم کو روشنی اور گرمی وغیرہ کا فائدہ ہو) اور تمہارے نفع کے واسطے رات اور دن کو (اپنی قدرت کا) مسخر بنایا (تاکہ تم کو معیشت اور آسائش کا نفع حاصل ہو) اور جو جو چیز تم نے مانگی (اور وہ تمہارے مناسب حال ہوئی) تم کو ہر چیز دی اور (اشیائے مذکورہ ہی پر کیا منحصر ہے) اللہ تعالیٰ کی نعمتیں (تو اس قدر بیشمار ہیں کہ) اگر (ان کو) شمار کرنے لگو تو شمار میں نہیں لا سکتے (مگر) سچ یہ ہے کہ آدمی بہت ہی بےانصاف بڑا ہی ناشکرا ہے (اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر اور شکر نہیں کرتا بلکہ اور بالعکس کفر و معصیت کرنے لگتا ہے جیسا اوپر آیا ہے (آیت) اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا

معارف و مسائل
سورة ابراہیم کے شروع میں رسالت ونبوت اور میعاد وآخرت کے متعلق مضامین تھے اس کے بعد توحید کی فضیلت اور کلمہ کفرو شرک کی مذمت کا بیان مثالوں کے ذریعہ کیا گیا پھر مشرکین کی مذمت اس بات پر کی گئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے ناشکری اور کفر کا راستہ اختیار کیا۔
مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں کفار و مشرکین کی مذمت اور ان کے انجام بد کا ذکر ہے دوسری آیت میں مؤمنین کی فضیلت اور ان کو ادائے شکر کے لئے کچھ احکام الہیہ کی تاکید کی گئی ہے تیسری چوتھی اور پانچویں آیات میں اللہ جل شانہ کی عظیم نعمتوں کا ذکر فرما کر اس پر آمادہ کیا گیا کہ وہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں صرف نہ کریں۔
تفسیر و تشریح
انداد، ند کی جمع ہے جس کے معنی مثل اور برابر کے ہیں بتوں کو انداد اس لئے کہا جاتا ہے کہ مشرکین نے ان کو اپنے عمل میں خدا کی مثل یا برابر قرار دے رکھا تھا تمتع کے معنی کس چیز سے چند روزہ عارضی فائدہ حاصل کرنے کے ہیں اس آیت میں مشرکین کے اس غلط نظریہ پر نکیر ہے کہ انہوں نے بتوں کو خدا کے مثل اور اس کا شریک ٹھہرا دیا رسول کریم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ ان لوگوں کو جتلا دیں کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے فرمایا کہ چند روزہ دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا لو مگر تمہارا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے۔
دوسری آیت میں رسول کریم ﷺ کو ارشاد ہے کہ (کفار مکہ نے تو اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل ڈالا اب) آپ میرے مومن بندوں سے فرما دیں کہ نماز کی پابندی رکھیں اور ہم نے جو رزق ان کو دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا کریں پوشیدہ اور علانیہ طور پر اس آیت میں مومن بندوں کے لئے بڑی بشارت اور اعزاز ہے اول تو اللہ تعالیٰ نے اپنا بندہ کہہ کر پکارا پھر صفت ایمان کے ساتھ موصوف کیا پھر ان کو دائمی راحت اور اعزاز دینے کی ترکیب بتلائی کہ نماز کی پابندی کریں نہ ان کے اوقات میں سستی کریں نہ آداب میں کوتاہی اور اللہ تعالیٰ ہی کے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ اس کی راہ میں بھی کرچ کیا کریں خرچ کرنے کی دونوں صورتوں کو جائز قرار دیا کہ پوشیدہ طور پر صدقہ خیرات کریں یا اعلان و اظہار کے ساتھ کریں بعض علماء نے فرمایا کہ زکوٰۃ فرض صدقہ الفطر وغیرہ علانیہ ہونے چاہیں تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو اور نفلی صدقہ خیرات کو پوشیدہ دنیا بہتر ہے کہ نام ونمود کا خطرہ نہ رہے اور اصل مدار نیت اور حالات پر ہے اگر اعلان و اظہار میں نام و نمود کا شائبہ آجائے تو صدقہ کی فضیلت ختم ہوجاتی ہے خواہ فرض ہو یا نفل اور اگر نیت یہ ہو کہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو تو فرض اور نفل دونوں میں اعلان و اظہار جائز ہے۔
Top