Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 5
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ
وَ : اور لَقَدْاَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اَنْ : کہ اَخْرِجْ : تو نکال قَوْمَكَ : اپنی قوم مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف وَذَكِّرْهُمْ : اور یاد دلا انہیں بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ : اللہ کے دن اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّكُلِّ صَبَّارٍ : ہر صبر کرنیوالے کے لیے شَكُوْرٍ : شکر کرنے والے
اور بھیجا تھا ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دیکر کہ نکال اپنی قوم کو اندھیروں سے اجالے کی طرف اور یاد دلا ان کو دن اللہ کے، البتہ اس میں نشانیاں ہیں اس کو جو صبر کرنے والا ہے شکر گزار
خلاصہ تفسیر
اور ہم نے موسیٰ ؑ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو (کفر و معاصی کی) تاریکیوں سے (نکال کر ایمان و اطاعت کی) روشنی کی طرف لاؤ اور ان کو اللہ تعالیٰ کے معاملات (نعمت اور عذاب کے) یاد دلاؤ بلاشبہ ان معاملات میں عبرتیں ہیں ہر صابر شاکر کے لئے (کیونکہ نعمت کو یاد کر کے شکر کرے گا اور نقمت یعنی عتاب کو پھر اس کے زوال کو یاد کرکے آئندہ حوادث میں صبر کرے گا) اور اس وقت کو یاد کیجئے کہ جب (ہمارے اس ارشاد بالا کے موافق) موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کا انعام اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم کو فرعون والوں سے نجات دی جو تم کو سخت تکلیفیں پہنچاتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو (یعنی لڑکیوں کو جو کہ بڑی کر عورتیں ہوجاتی تھیں) زندہ چھوڑ دیتے تھے (تاکہ ان سے کار و خدمت لیں سو یہ بھی مثل ذبح ہی کے ایک عقوبت تھی) اور اس (مصیبت اور نجات دونوں) میں تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑا امتحان ہے (یعنی مصیبت میں بلاء تھی اور نجات میں نعمت تھی اور بلاء اور نعمت دونوں بندے کے لئے امتحان ہیں پس اس میں موسیٰ ؑ نے ایام اللہ یعنی نعمت ونقمت دونوں کی تذکیر فرما دی) اور موسیٰ (علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ اے میری قوم) وہ وقت یاد کرو جب کہ تمہارے رب نے (میرے ذریعہ سے) تم کو اطلاع فرما دی کہ اگر (میری نعمتوں کو سن کر) تم شکر کرو گے تو تم کو (خواہ دنیا میں بھی یا آخرت میں تو ضرور) زیادہ نعمت دوں گا اور اگر تم (ان نعمتوں کو سن کر) ناشکری کرو گے تو (یہ سمجھ رکھو کہ) میرا عذاب بڑا سخت ہے (ناشکری میں اس کا احتمال ہے) اور موسیٰ ؑ نے (یہ بھی) فرمایا کہ اگر تم اور تمام دنیا بھر کے آدمی سب کے سب مل کر بھی ناشکری کرنے لگو تو اللہ تعالیٰ (کا کوئی ضرر نہیں کیونکہ وہ) بالکل بےاحتیاج (اور اپنی ذات میں) ستودہ صفات ہیں (استکمال بالغیر کا وہاں احتمال نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کا ضرر محتمل ہی نہیں اور تم اپنا ضرر سن چکے ہو اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ اس لئے شکر کرنا ناشکری مت کرنا)

معارف و مسائل
پہلی آیت میں مذکور ہے کہ ہم نے موسیٰ ؑ کو اپنی آیات دے کر بھیجا کہ وہ اپنی قوم کو کفر و معصیت کی تاریکیوں سے ایمان وطاعت کی روشنی میں لے آئیں
لفظ آیات سے آیات تورات بھی مراد ہو سکتی ہیں کہ ان کے نازل کرنے کا مقصد ہی حق کی روشنی پھیلانا تھا اور آیات کے دوسرے معنی معجزات خاص طور سے عطا فرمائے تھے جن میں عصا کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا روشن ہوجانا کئی جگہ قرآن میں مذکور ہے آیات کو معجزات کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حضرت موسیٰ ؑ کو ایسے کھلے ہوئے معجزات دے کر بھیجا گیا جن کو دیکھنے کے بعد کوئی شریف سمجھدار انسان اپنے انکار اور نافرمانی پر قائم نہیں رہ سکتا
ایک نکتہ
اس آیت میں لفظ قوم آیا ہے کہ اپنی قوم کو اندہیری سے روشنی میں لائیں لیکن یہی مضمون اسی سورة کی پہلی آیت میں جب رسول کریم ﷺ کو خطاب کرکے بیان کیا گیا گو وہاں قوم کے بجائے لفظ ناس استعمال کیا گیا (آیت) لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ اس میں اشارہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت و بعثت صرف اپنی قوم بنی اسرائیل اور مصری اقوام کی طرف تھی اور رسول کریم ﷺ کی بعثت تمام عالم کے انسانوں کے لئے ہے۔
پھر ارشاد فرمایا وَذَكِّرْهُمْ ، بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ یعنی حق تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو ایام اللہ یاد دلاؤ۔
ایام اللہایام یوم کی جمع ہے جس کی معنی دن کے مشہور ہیں لفظ ایام اللہ دو معنی کے لئے بولا جاتا ہے اور وہ دونوں یہاں مراد ہو سکتے ہیں اول وہ خاص ایام جن میں کوئی جنگ یا انقلاب آیا ہے جیسے غزوہ بدر و احد اور احزاب و حنین وغیرہ کے واقعات یا پچھلی امتوں پر عذاب نازل ہونے کے واقعات ہیں جن میں بڑی بڑی قومیں زیر وزبر یا نیست و نابود ہوگئیں اس صورت میں ایام اللہ یاد دلانے سے ان قوموں کو کفر کے انجام بد سے ڈرانا اور متنبہ کرنا مقصود ہوگا۔
دوسرے معنی ایام اللہ کے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات کے بھی آتے ہیں تو ان کو یاد دلانے کا مقصد یہ ہوگا کہ شریف انسان کو جب کسی محسن کا احسان یاد دلایا جائے تو وہ اس کی مخالفت اور نافرمانی سے شرما جاتا ہے
قرآن مجید کا اسلوب اور طریق اصلاح عموما یہ کہ جب کوئی حکم دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی اس حکم پر عمل آسان کرنے کی تدبیریں بھی بتلائی جاتی ہیں یہاں پہلے جملہ میں موسیٰ ؑ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی آیات سنا کر یا معجزات دکھا کر اپنی قوم کو کفر کی اندہیری سے نکالو اور ایمان کی روشنی میں لاؤ اس کی تدبیر اس جملہ میں یہ ارشاد فرمائی کہ نافرمانوں کو راہ راست پر لانے کی دو تدبیریں ہیں ایک سزا سے ڈرانا دوسرے نعمتوں اور احسانات کو یاد دلا کر اطاعت کی طرف بلانا جملہ من وسلوی میں یہ دونوں چیزیں مراد ہو سکتی ہیں کہ پچھلی امتوں کے نافرمانوں کا انجام بد ان پر آنے والے عذاب اور جہاد میں ان کا مقتول یا ذلیل و خوار ہونا ان کو یاد دلائیں تاکہ وہ عبرت حاصل کرکے اس سے بچ جائیں اسی طرح اس قوم پر جو اللہ تعالیٰ کی عام نعمتیں دن رات برستی ہیں اور جو مخصوص نعمتیں ہر موقع پر ان کے لئے مبذول ہوئی ہیں مثلا وادی تیہ میں ان کے سروں پر ابر کا سایہ، خوراک کے لئے من وسلوی کا نزول پانی کی ضرورت ہوئی تو پتھر سے چشموں کا بہہ نکلنا وغیرہ ان کو یاد دلا کر خدا تعالیٰ کی اطاعت اور توحید کی طرف بلایا جائے۔
(آیت) اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ اس میں آیات سے مراد نشانیاں اور دلائل ہیں اور صبار صبر سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت صبر کرنے والا اور شکور شکر سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت شکر گذار، جملہ کے معنی یہ ہیں کہ ایام اللہ یعنی پچھلے واقعات خواہ وہ جو منکروں کی سزا اور عذاب سے متعلق ہوں یا اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات سے متعلق بہرحال ماضی کے واقعات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی بڑی نشانیاں اور دلائل موجود ہیں اس شخص کے لئے جو بہت صبر کرنے والا اور بہت شکر کرنے والا ہو۔
مطلب یہ ہے کہ یہ کھلی ہوئی نشانیاں اور دلائل اگرچہ ہر غور کرنے والے کی ہدایت کے لئے ہیں مگر بدنصیب کفار ان میں غور وفکر ہی نہیں کرتے ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے فائدہ صرف وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو صبر و شکر کے جامع ہیں مراد اس سے مومن ہیں کیونکہ بیہقی نے بروایت انس نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایمان کے دو حصے آدھا صبر اور آدھا شکر (مظہری)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ صبر نصف ایمان ہے اور صحیح مسلم اور مسند احمد میں بروایت حضرت صہیب مذکور ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ مومن کا ہر حال خیر ہی خیر اور بھلا ہی بھلا ہے اور یہ بات سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں کیونکہ مومن کو اگر کوئی راحت نعمت یا عزت ملتی ہے تو یہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہوتا ہے جو اس کے لئے دین و دنیا میں خیر اور بھلائی کا سامان ہوجاتا ہے (دنیا میں تو حسب وعدہ الہی نعمت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے اور قائم رہتی ہے اور آخرت میں اس کے شکر کا اجر عظیم اس کو ملتا ہے) اور اگر مومن کو کوئی تکلیف یا مصیبت پیش آجائے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اس کے صبر کی وجہ سے وہ مصیبت بھی اس کے لئے نعمت و راحت کا سامان ہوجاتی ہے (دنیا میں اس طرح کہ صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت و راحت کا سامان ہوجاتی ہے (دنیا میں اس طرح کہ صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے قرآن کا ارشاد ہے ۭاِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ اور اللہ جس کے ساتھ ہو انجام کار اس کی مصیبت راحت سے تبدیل ہوجاتی ہے اور آخرت میں اس طرح کہ صبر کا اجر عظیم اللہ تعالیٰ کے نزدیک بےحساب ہے جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَاب خلاصہ یہ ہے کہ مومن کا کوئی حال برا نہیں ہوتا اچھا ہی اچھا ہے وہ گرنے میں بھی ابھرتا ہے اور بگڑنے میں بھی بنتا ہے۔
نہ شوخی چل سکی باد صبا کی
بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی
ایمان وہ دولت ہے جو مصیبت و تکلیف کو بھی راحت ونعمت میں تبدیل کردیتی ہے حضرت ابو الدردا ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ سے فرمایا کہ میں آپ کے بعد ایک ایسی امت پیدا کرنے والا ہوں کہ اگر ان کی دلی مراد پوری ہو اور کام حسب منشاء ہوجائے تو وہ شکر ادا کریں گے اور اگر ان کی خواہش اور مرضی کے خلاف ناگوار اور ناپسندیدہ صورت حال پیش آئے تو وہ اس کو ذریعہ، ثواب سمجھ کر صبر کریں گے اور یہ دانشمندی اور بردباری ان کی اپنی ذاتی عقل وحلم کا نتیجہ نہیں بلکہ ہم ان کو اپنے علم و حلم کا ایک حصہ عطا فرما دیں گے (مظہری)
شکر کی حقیقت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی نافرمانی اور حرام و ناجائز کاموں میں خرچ نہ کرے اور زبان سے بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اپنے افعال و اعمال کو بھی اس کی مرضی کے مطابق بنائے۔
اور صبر کا خلاصہ یہ ہے کہ خلاف طبع امور پر پریشان نہ ہو اپنے قول و عمل میں ناشکری سے بچے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دنیا میں بھی امیدوار رہے اور آخرت میں صبر کے اجر عظیم کا یقین رکھے۔
دوسری آیت میں مضمون سابق کی مزید تفصیل ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی یہ خاص نعمت یاد دلائیں کہ موسیٰ ؑ سے پہلے فرعون نے ان کو ناجائز طور پر غلام بنایا ہوا تھا اور پھر ان غلاموں کے ساتھ بھی انسانیت کا سلوک نہ تھا ان کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جاتا تھا اور صرف لڑکیوں کو اپنی خدمت کے لئے پالا جاتا تھا حضرت موسیٰ ؑ کی بعثت کے بعد ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس فرعونی عذاب سے نجات دیدی۔
Top