Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 101
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ١ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب بَدَّلْنَآ : ہم بدلتے ہیں اٰيَةً : کوئی حکم مَّكَانَ : جگہ اٰيَةٍ : دوسرا حکم وَّاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : اس کو جو يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مُفْتَرٍ : تم گھڑ لیتے ہو بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت اور اللہ خوب جانتا ہے جو اتارتا ہے تو کہتے ہیں تو تو بنا لاتا ہے یہ بات نہیں، پر اکثروں کو ان میں خبر نہیں
خلاصہ تفسیر
ربط آیات اس سے پہلی آیت میں تلاوت قرآن کے وقت اعوذ باللہ پڑھنے کی ہدایت تھی جس میں اشارہ ہے کہ شیطان تلاوت کے وقت انسان کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے مذکورہ آیات میں اسی طرح کے وساوس شیطانی کا جواب ہے ،
نبوت پر کفار کے شبہات کا جواب مع تہدید
اور جب ہم کسی آیت کو بجائے دوسری آیت کے بدلتے ہیں (یعنی ایک آیت کو لفظا یا معنی منسوخ کر کے اس کی جگہ دوسرا حکم بھیجدیتے ہیں) اور حالانکہ اللہ تعالیٰ جو حکم (پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ) بھیجتا ہے (اس کی مصلحت و حکمت کو) وہی خوب جانتا ہے (کہ جن کو یہ حکم دیا گیا ہے ان کے حالات کے اعتبار سے ایک وقت میں مصلحت کچھ تھی پھر حالت بدل جانے سے مصلحت اور حکمت دوسری ہوگی) تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) آپ (خدا پر) افتراء کرنے والے ہیں (کہ اپنے کلام کو اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں ورنہ اللہ کا حکم ہوتا تو اس کے بدلنے کی کیا ضرورت تھی کیا اللہ تعالیٰ کو پہلے علم نہ تھا اور یہ لوگ اس پر غور نہیں کرتے کہ بعض اوقات سب حالات کا علم ہونے کے باوجود پہلی حالت پیش آنے پر پہلا حکم دیا جاتا ہے اور دوسری حالت پیش آنے کا اگرچہ اس وقت بھی علم ہے مگر بتقاضائے مصلحت اس دوسری حالت کا حکم اس وقت بیان نہیں کیا جاتا بلکہ جب وہ حالت پیش آجاتی ہے اس وقت بیان کیا جاتا ہے جیسے طبیب ڈاکٹر ایک دوا تجویز کرتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کے استعمال سے حالت بدلے گی اور پھر دوا دوسری دی جائے گی مگر مریض کو ابتدا میں سب تفصیل نہیں بتلاتا یہی حقیقت نسخ احکام کی ہے جو قرآن وسنت میں ہوتا ہے جو حقیقت سے واقف نہیں وہ باغوا شیطانی نسخ کا انکار کرنے لگتے ہیں اسی لئے اس کے جواب میں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ مفتری نہیں) بلکہ انہی میں اکثر لوگ جاہل ہیں (کہ احکام میں نسخ کو بلا کسی دلیل کے کلام الہی ہونے کے خلاف سمجھتے ہیں) آپ (ان کے جواب میں) فرما دیجئے (کہ یہ کلام میرا بنایا ہوا نہیں بلکہ اس کو) روح القدس (یعنی جبرئیل علیہ السلام) آپ کے رب کی طرف سے حکمت کے موافق لائے ہیں (اس لئے یہ اللہ کا کلام ہے اور اس میں احکام کی تبدیلی بمقتضائے حکمت و مصلحت ہے اور یہ کلام اس لئے بھیجا گیا ہے) تاکہ ایمان والوں کو (ایمان پر) ثابت قدم رکھے اور ان مسلمانوں کے لئے ہدایت اور خوشخبری (کا ذریعہ) ہوجائے (اس کے بعد کفار کے ایک اور لغو شبہ کا جواب ہے) اور ہم کو معلوم ہے کہ یہ لوگ (ایک دوسری غلط بات) یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کو تو آدمی سکھلاتا ہے (اس سے مراد ایک عجمی روم کا باشندہ لوہار ہے جس کا نام بلعام یا مقیس تھا وہ حضور ﷺ کی باتیں جی لگا کر سنتا تو حضور ﷺ کبھی اس کے پاس جا بیٹھتے اور وہ کچھ انجیل وغیرہ کو بھی جانتا تھا اس پر کافروں نے یہ بات چلتی کی کہ یہی شخص حضور ﷺ کو قرآن کا کلام سکھاتا ہے، کذا فی الدرالمنثور، اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ قرآن مجید تو مجموعہ الفاظ ومعانی کا نام ہے تم لوگ اگر قرآن کریم کے معانی اور معارف کو نہیں پہچان سکتے تو کم از کم عربی زبان کی معیاری فصاحت و بلاغت سے تو ناواقف نہیں ہو تو اتنا تو تمہیں سمجھنا چاہئے کہ اگر بالفرض قرآن کے معانی اس شخص نے سکھلا دیئے ہوں تو کلام کے الفاظ اور ان کی ایسی فصاحت و بلاغت جس کا مقابلہ کرنے سے پورا عرب عاجر ہوگیا یہ کہاں سے آگئی کیونکہ) جس شخص کی طرف اس کی نسبت کرتے ہیں اس کی زبان تو عجمی ہے اور یہ قرآن صاف عربی ہے (کوئی بیچارہ ایسی عبارت کیسے بنا سکتا ہے اور اگر کہا جائے کہ عبارت رسول کریم ﷺ نے بنائی ہوگی تو اس کا واضح جواب اس تحدی (چلینج) سے پوری طرح ہوچکا ہے جو سورة بقرہ میں آچکا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے باذن خداوندی اپنی نبوت اور قرآن کی حقانیت کا معیار اسی کو قرار دے دیا تھا کہ اگر تمہارے کہنے کے مطابق یہ انسان کا کلام ہے تو تم بھی انسان ہو اور بڑی فصاحت و بلاغت کے مدعی ہو تو تم اس جیسا کلام زیادہ نہیں تو ایک آیت ہی کی برابر لکھ لاؤ مگر سارا عرب باوجودیکہ آپ کے مقابلہ میں اپنا سب کچھ جان ومال قربان کرنے کو تیار تھا مگر اس چیلنج کو قبول کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی اس کے بعد منکرین نبوت اور قرآن پر ایسے اعتراضات کرنے والوں پر وعید وتہدید ہے کہ) جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ان کو اللہ تعالیٰ کبھی پر نہ لائیں گے اور ان کے لئے درد ناک سزا ہوگی (اور یہ لوگ جو نعوذ باللہ آپ کو مفتری کہتے ہیں) جھوٹ افتراء کرنے والے تو یہی لوگ ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ ہیں پورے جھوٹے۔
Top