Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 10
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّ مِنْهُ شَجَرٌ فِیْهِ تُسِیْمُوْنَ
هُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس نے اَنْزَلَ : نازل کیا (برسایا) مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی لَّكُمْ : تمہارے لیے مِّنْهُ : اس سے شَرَابٌ : پینا وَّمِنْهُ : اور اس سے شَجَرٌ : درخت فِيْهِ : اس میں تُسِيْمُوْنَ : تم چراتے ہو
وہی ہے جس نے اتارا آسمان سے تمہارے لئے پانی اس سے پیتے ہو اور اسی سے درخت ہوتے ہیں جس میں چراتے ہو
خلاصہ تفسیر
وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تمہارے (فائدہ کے) واسطے آسمان سے پانی برسایا جس سے تم کو پینے کو ملتا ہے اور جس (کے سبب) سے درخت (پیدا ہوتے) ہیں جن میں تم (اپنے مواشی کو) چرنے دیتے ہو (اور) اس (پانی) سے تمہارے (فائدے کے) لئے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (زمین سے) اگاتا ہے بیشک اس (مذکور) میں سوچنے والوں کے لئے (توحید کی) دلیل (موجود) ہے اور اس (اللہ) نے تمہارے (فائدہ کے) لئے رات اور دن اور سورج اور چاند کو (اپنا) مسخر (قدرت) بنایا اور (اسی طرح اور) ستارے (بھی) اس کے حکم سے مسخر (قدرت) ہیں بیشک اس (مذکور) میں (بھی) عقلمند لوگوں کے لئے (توحید کی) چند دلیلیں (موجود) ہیں اور (اسی طرح) ان چیزوں کو بھی مسخر (قدرت) بنایا جن کو تمہارے (فائدہ کیلئے) اس طور پر پیدا کیا ہے کہ ان کے اقسام (یعنی اجناس و انواع واصناف) مختلف ہیں (اس میں تمام حیوانات و نباتات و جمادات مفردات ومرکبات داخل ہوگئے) بیشک اس (مذکور) میں (بھی) سمجھدار لوگوں کے لئے (توحید کی) دلیل (موجود) ہے اور وہ (اللہ) ایسا ہے کہ اس نے دریا کو (بھی) مسخر (قدرت) بنایا تاکہ اس میں سے تازہ تازہ گوشت (یعنی مچھلی نکال نکال کر) کھاؤ اور (تاکہ) اس میں سے (موتیوں کا) گہنا نکالو جس کو تم (مرد و عورت سب) پہنتے ہو اور (اے مخاطب اس دریا کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ) تو کشتیوں کو (خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی جیسے بڑے جہاز تو ان کو) دیکھتا ہے کہ اس (دریا) میں (اس کا) پانی چیرتی ہوئی چلی جا رہی ہیں اور (نیز اس لئے دریا کو مسخر قدرت بنایا) تاکہ تم (اس میں مال تجارت لے کر سفر کرو اور اس کے ذریعہ سے) خدا کی روزی تلاش کرو اور تاکہ (ان سب فائدوں کو دیکھ کر اس کا) شکر (ادا) کرو اور اس نے زمین میں پہاڑ رکھ دئیے تاکہ وہ (زمین) تم کو لے کر ڈگمگانے (اور ہلنے) نہ لگے اور اس نے (چھوٹی چھوٹی) نہریں اور رستے بنائے تاکہ (ان رستوں کے ذریعہ سے اپنی) منزل مقصود تک پہنچ سکو اور (ان رستوں کی پہچان کے لئے) بہت سی نشانیاں بنائیں (جیسے پہاڑ درخت تعمیرات وغیرہ جن سے رستہ پہچانا جاتا ہے ورنہ اگر تمام زمین کی سطح یکساں حالت پر ہوتی تو رستہ ہرگز نہ پہچانا جاتا) اور ستاروں سے بھی لوگ رستہ معلوم کرتے ہیں (چنانچہ ظاہر و معلوم ہے)

معارف و مسائل
مِنْهُ شَجَـرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ لفظ شجر اکثر درخت کے لئے بولا جاتا ہے جو ساق یعنی تنے پر کھڑا ہوتا ہے اور کبھی مطلق زمین سے اگنے والی ہر چیز کو بھی شجر کہتے ہیں گھاس اور بیل وغیرہ بھی اس میں داخل ہوتی ہیں اس آیت میں یہی معنی مراد ہیں کیونکہ آگے جانوروں کے چرانے کا ذکر ہے اس کا تعلق زیادہ تر گھاس ہی سے ہے۔
تُسِيْمُوْنَ اسامت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں جانور کو چراگاہ میں چرنے کیلئے چھوڑنا
Top