Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
اصل میں ابراہیم تھا راہ ڈالنے والا فرمانبردار اللہ کا سب سے ایک طرف ہو کر، اور نہ تھا شرک کرنے والوں میں
خلاصہ تفسیر
ربط آیات
پچھلی آیات میں اصول شرک و کفر یعنی انکار توحید و انکار رسالت پر رد اور کفر و شرک کے بعض فروع یعنی تحلیل حرام اور تحریم حلال پر رد وابطال کی تفصیل تھی اور مشرکین مکہ مکرمہ جو قرآن کریم کے پہلے اور بلاواسطہ مخاطب تھے اپنے کفر وبت پرستی کے باوجود دعوی یہ کرتے تھے کہ ہم ملت ابراہیمی کے پابند ہیں اور ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ سب حضرت ابراہیم ؑ کی تعلیمات ہیں اس لئے مذکورہ چار آیتوں میں ان کے اس دعوے کی تردید اور انہی کے مسلمات سے ان کے جاہلانہ خیالات کا ابطال اس طرح کیا گیا کہ مذکورہ پانچ آیتوں میں سے پہلی آیت میں حضرت ابراہیم ؑ کا تمام اقوام عالم کا مسلم مقتدا ہونا بیان فرمایا جو نبوت و رسالت کا اعلی مقام ہے اس سے ان کا عظیم الشان نبی و رسول ہونا ثابت ہوا اس کے ساتھ ہی مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ سے ان کا کامل توحید پر ہونا بیان فرمایا۔
اور دوسری آیت میں ان کا شکرگزار اور صراط مستقیم پر ہونا بیان فرما کر ان کو تنبیہ کی کہ تم اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہوئے اپنے کو ان کا متبع کس زبان سے کہتے ہو ؟
تیسری آیت میں ان کا دنیا وآخرت میں کامیاب و بامراد ہونا اور چوتھی آیت میں رسول کریم ﷺ کی نبوت و رسالت کے اثبات کے ساتھ آپ کا صحیح ملت ابراہیم ؑ کا پابند ہونا بیان فرما کر یہ ہدایت کی گئی کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو رسول کریم ﷺ پر ایمان اور آپ کی اطاعت کے بغیر یہ دعوی صحیح نہیں ہوسکتا۔
پانچویں آیت اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ میں اشارہ یہ بیان فرمایا کہ ملت ابراہیمی میں اشیاء طیبہ حرام نہیں تھیں جن کو تم نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا ہے مختصر تفسیر آیات مذکورہ کی یہ ہے۔
بیشک ابراہیم (علیہ السلام جن کو تم بھی مانتے ہو) بڑے مقتدا (یعنی نبی اولو العزم اور امت عظیمہ کے متبوع ومقتدا) اللہ تعالیٰ کے (پورے) فرمانبردار تھے (ان کا کوئی عقیدہ یا عمل اپنی خواہش نفسانی سے نہ تھا پھر تم اس کے خلاف محض اپنے نفس کی پیروی سے اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام کیوں ٹھہراتے ہو اور وہ) بالکل ایک (خدا) کی طرف ہو رہے تھے (اور مطلب ایک طرف ہونے کا یہ ہے کہ) وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (تو پھر تم شرک کیسے کرتے ہو اور وہ) اللہ کی نعمتوں کے (بڑے) شکر گذار تھے (پھر تم شرک و کفر میں مبتلا ہو کر ناشکری کیوں کرتے ہو غرض ابراہیم ؑ کی یہ شان اور طریقہ تھا اور وہ ایسے مقبول تھے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان کو منتخب کرلیا تھا اور ان کو سیدھے راہ پر ڈال دیا تھا اور ہم نے ان کو دنیا میں بھی خوبیاں (مثل نبوت و رسالت میں منتخب ہونا اور ہدایت پر ہونا وغیرہ) دی تھیں اور وہ آخرت میں بھی (اعلی درجہ کے) اچھے لوگوں میں ہوں گے (اس لئے تم سب کو انہی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے اور وہ طریقہ اب منحصر ہے طریقہ محمدیہ ہیں جس کا بیان یہ ہے کہ) پھر ہم نے آپ کے پاس وحی بھیجی کہ آپ ابراہیم ؑ کے طریقہ پر جو کہ بالکل ایک (خدا) کی طرف ہو رہے تھے چلئے (اور چونکہ اس زمانہ کے وہ لوگ جو ملت ابراہیمی کے اتباع کے مدعی تھے کچھ نہ کچھ شرک میں مبتلا تھے۔ اس لئے مکرر فرمایا کہ) وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (تاکہ بت پرستوں کے ساتھ یہود و نصاریٰ کے موجودہ طریقہ پر بھی رد ہوجائے جو شرک سے خالی نہ تھے اور چونکہ یہ لوگ تحریم طیبات کی جاہلانہ و مشرکانہ رسوم میں مبتلا تھے اس لئے فرمایا کہ) پس ہفتہ کی تعظیم (یعنی ہفتہ کے روز مچھلی کے شکار کی ممانعت جو تحریم طیبات کی ایک فرد ہے وہ تو) صرف انہی لوگوں پر لازم کی گئی تھی جنہوں نے اس میں (عملا) خلاف کیا تھا (کہ کسی نے مانا اور عمل کیا کسی نے اس کے خلاف کیا مراد اس سے یہود ہیں کہ تحریم طیبات کی یہ صورت مثل دوسری صورتوں کے صرف یہود کے ساتھ مخصوص تھی ملت ابراہیمی میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں آگے احکام الہیہ میں اختلاف کرنے کے متعلق فرماتے ہیں کہ) بیشک آپ کا رب قیامت کے دن ان میں باہم (عملا) فیصلہ کر دے گا جس بات میں یہ (دنیا میں) اختلاف کیا کرتے تھے۔

معارف و مسائل
لفظ امت چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے مشہور معنی جماعت اور قوم کے ہیں حضرت ابن عباس ؓ سے اس جگہ یہی معنی منقول ہیں اور مراد یہ ہے کہ ابراہیم ؑ تنہا ایک فرد ایک امت اور قوم کے کمالات و فضائل کے جامع ہیں اور ایک معنی لفظ امت کے مقتدائے قوم اور جامع کمالات کے بھی آتے ہیں بعض مفسرین نے اس جگہ یہی معنی لئے ہیں اور قانت کے معنی تابع فرمان کے ہیں حضرت ابراہیم ؑ ان دونوں وصفوں میں خاص امتیاز رکھتے ہیں مقتدا ہونے کا تو یہ عالم ہے کہ پوری دنیا کے تمام مشہور مذاہب کے لوگ سب آپ پر اعتقاد رکھتے ہیں اور آپ کی ملت کے اتباع کو عزت وفخر جانتے ہیں یہود نصاری مسلمان تو ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہی ہیں مشرکین عرب بت پرستی کے باوجود اس بت شکن کے معتقد اور ان کی ملت پر چلنے کو اپنا فخر جانتے ہیں اور قانت ومطیع ہونے کا خاص امتیاز ان امتحانات سے واضح ہوجاتا ہے جن سے اللہ کے یہ خلیل گذرے ہیں آتش نمرود اہل و عیال کو لق ودق جنگل میں چھوڑ کر چلے جانے کا حکم پھر آرزؤں سے حاصل ہونے والے بیٹے کی قربانی پر آمادگی یہ سب وہ امتیازات ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان القاب سے معزز فرمایا ہے۔
Top