Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 125
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اُدْعُ : تم بلاؤ اِلٰى : طرف سَبِيْلِ : راستہ رَبِّكَ : اپنا رب بِالْحِكْمَةِ : حکمت (دانائی) سے وَالْمَوْعِظَةِ : اور نصیحت الْحَسَنَةِ : اچھی وَجَادِلْهُمْ : اور بحث کرو ان سے بِالَّتِيْ : ایسے جو هِىَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے بہتر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب هُوَ : وہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِمَنْ : اس کو جو ضَلَّ : گمراہ ہوا عَنْ : سے سَبِيْلِهٖ : اس کا راستہ وَهُوَ : اور وہ اَعْلَمُ : خوب جاننے والا بِالْمُهْتَدِيْنَ : راہ پانے والوں کو
بلا اپنے رب کی راہ پر پکی باتیں سمجھا کر اور نصیحت سنا کر بھلی طرح اور الزام دے ان کو جس طرح بہتر ہو تیرا رب ہی بہتر جانتا ہے ان کو جو بھول گیا اس کی راہ سے اور وہی بہتر جانتا ہے ان کو جو راہ پر ہیں
خلاصہ تفسیر
ربط آیات
سابقہ آیات میں رسول کریم ﷺ کی نبوت و رسالت کے اثبات سے مقصود یہ تھا کہ امت آپ کے احکام کی تعمیل کر کے رسالت کے حقوق ادا کریں مذکورہ آیات میں خود رسول کریم ﷺ کو ادائے رسالت کے حقوق اور آداب کی تعلیم ہے جس کے غموم میں تمام مؤمنین شریک ہیں مختصر تفسیر یہ ہے
آپ اپنے رب کی راہ (یعنی دین اسلام) کی طرف (لوگوں کو) حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ بلائیے (حکمت سے وہ طریقہ دعوت مراد ہے جس میں مخاطب کے احوال کی رعایت سے ایسی تدبیر اختیار کی گئی ہو جو مخاطب کے دل پر اثر انداز ہو سکے اور نصیحت سے مراد یہ ہے کہ خیرخواہی و ہمدردی کے جذبہ سے بات کہی جائے اور اچھی نصیحت سے مراد یہ ہے کہ عنوان بھی نرم ہو دل خراش توہین آمیز نہ ہو) اور ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے بحث کیجئے (یعنی اگر بحث مباحثے کی نوبت آجائے تو وہ بھی شدت اور خشونت سے اور مخاطب پر الزام تراشی اور بےانصافی سے خالی ہونا چاہئے بس اتنا کام آپ کا ہے پھر اس تحقیق میں نہ پڑیئے کہ کس نے مانا کس نے نہیں مانا یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے پس) آپ کا رب خوب جانتا ہے اس شخص کو بھی جو اس کے راستہ سے گم ہوگیا اور وہی راہ پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے اور (اگر کبھی مخاطب علمی بحث و مباحثہ کی حد سے آگے بڑھ کر عملی جدال اور ہاتھ یا زبان سے ایذاء پہنچانے لگیں تو اس میں آپ کو اور آپ کے متبین کو بدلہ لینا بھی جائز ہے اور صبر کرنا بھی پس) اگر (پہلی صورت اختیار کرو یعنی) بدلہ لینے لگو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمہارے ساتھ برتاؤ کیا گیا ہے (اس سے زیادتی نہ کرو) اور اگر (دوسری صورت یعنی ایذاؤں پر) صبر کرو تو وہ (صبر کرنا) صبر کرنے والوں کے حق میں بہت ہی اچھی بات ہے (کہ مخالف پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور دیکھنے والوں پر بھی اور آخرت میں موجب اجر عظیم ہے) اور (صبر کرنا اگرچہ سبھی کے لئے بہتر ہے مگر آپ کی عظمت شان کے لحاظ سے آپ کو خصوصیت کے ساتھ حکم ہے کہ آپ انتقام کی صورت اختیار نہ کریں بلکہ) آپ صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا خدا ہی کی توفیق خاص سے ہے ّیعنی ان کے ایمان نہ لانے پر یا مسلمانوں کو ستانے) پر غم نہ کیجئے اور جو کچھ یہ تدبیریں کیا کرتے ہیں اس سے تنگدل نہ ہو جئے (ان کی مخالف تدبیروں سے آپ کا کوئی ضرر نہ ہوگا کیونکہ آپ کا احسان اور تقوی کی صفات حاصل ہیں اور) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے (یعنی ان کا مددگار ہوتا ہے) جو پرہیزگار ہوتے ہیں اور نیک کردار ہوتے ہیں۔

معارف و مسائل
دعوت و تبلیغ کے اصول اور مکمل نصاب
اس آیت میں دعوت و تبلیغ کا مکمل نصاب اس کے اصول اور آداب کی پوری تفصیل چند کلمات میں سموئی ہوئی ہے تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت ہرم ابن حیان کی موت کا وقت آیا تو عزیزوں نے درخواست کی کہ ہمیں کچھ وصیت فرمائیے تو فرمایا کہ وصیت تو لوگ اموال کی کیا کرتے ہیں وہ میرے پاس ہے نہیں لیکن میں تم کو اللہ کی آیات خصوصا سورة نحل کی آخری آیتوں کی وصیت کرتا ہوں کہ ان پر مضبوطی سے قائم رہو۔ وہ آیات یہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔
دعوۃ کے لفظی معنی بلانے کے ہیں انبیاء (علیہم السلام) کا پہلا فرض منصبی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے پھر تمام تعلیمات نبوت و رسالت اسی دعوت کی تشریحات ہیں قرآن میں رسول کریم ﷺ کی خاص صفت الی اللہ ہونا ہے، (آیت) وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا (احزاب 46) يٰقَوْمَنَآ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللّٰهِ (احقاف 31)
امت پر بھی آپ کے نقش قدم پر دعوت الی اللہ کو فرض کیا گیا ہے سورة آل عمران میں ارشاد ہے۔
(آیت) وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (آل عمران 104) تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دیں (یعنی) نیک کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں) اور ایک آیت میں ارشاد ہے
(آیت) وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ۔ گفتار کے اعتبار سے اس شخص سے اچھا کون ہوسکتا ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا
تعبیر میں کبھی اس لفظ کو دعوت الی اللہ کا عنوان دیا جاتا ہے اور کبھی دعوت الی الخیر کا اور کبھی دعوت الی سبیل اللہ کا حاصل سب کا ایک ہے کیونکہ اللہ کی طرف بلانے سے اس کے دین اور صراط مستقیم ہی کی طرف بلانا مقصود ہے۔
اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی خاص صفت رب اور پھر اس کی نبی کریم ﷺ کی طرف اضافت میں اشارہ ہے کہ دعوت کا کام صفت ربوبیت اور تربیت سے تعلق رکھتا ہے جس طرح حق تعالیٰ جل شانہ نے آپ کی تربیت فرمائی آپ کو بھی تربیت کے انداز سے دعوت دینا چاہئے جس میں مخاطب کے حالات کی رعایت کر کے وہ طرز اختیار کیا جائے کہ مخاطب پر بار نہ ہو اور اس کی تاثیر زیادہ سے زیادہ ہو خود لفظ دعوت بھی اس مفہوم کو ادا کرتا ہے کہ پیغمبر کا کام صرف اللہ کے احکام پہنچا دینا اور سنا دینا نہیں بلکہ لوگوں کو ان کی تعمیل کی طرف دعوت دینا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی کو دعوت دینے والا اس کے ساتھ ایسا خطاب نہیں کیا کرتا جس سے مخاطب کو وحشت ونفرت ہو یا جس میں اس کے ساتھ استہزاء و تمسخر کیا گیا ہو۔
بِالْحِكْمَةِ لفظ حکمت قرآن کریم میں بہت سے معانی کے لئے استعمال ہوا ہے اس جگہ بعض ائمہ تفسیر نے حکمت سے مراد قرآن کریم بعض نے قرآن وسنت بعض نے حجت قطیعہ کو قرار دیا ہے اور روح المعانی نے نے بحوالہ بحرمحیط حکمت کی تفسیر یہ کی ہے۔
انھا الکلام الصواب الواقع من اجمل موقع (روح) یعنی حکمت اس درست کلام کا نام ہے جو انسان کے دل میں۔ اس تفسیر میں تمام اقوال جمع ہوجاتے ہیں اور صاحب روح البیان نے بھی تقریبا یہی مطلب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ حکمت سے مراد وہ بصیرت ہے جس کے ذریعہ انسان مقتضیات احوال کو معلوم کر کے اس کے مناسب کلام کرے وقت اور موقعہ ایسا تلاش کرے کہ مخاطب پر بار نہ ہو نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی اختیار کرے اور جہاں یہ سمجھے کہ صراحۃ کہنے میں مخاطب کو شرمندگی ہوگی وہاں اشارات سے کلام کرے یا کوئی ایسا عنوان اختیار کرے کہ مخاطب کو نہ شرمندگی ہو اور نہ اس کے دل میں اپنے خیال پر جمنے کا تعصب پیدا ہو۔
وَالْمَوْعِظَةِ موعظۃ اور وعظ کے لغوی معنی یہ ہے کہ کسی خیر خواہی کی بات کو ایسی طرح کہا جائے کہ اس سے مخاطب کا دل قبولیت کے لئے نرم ہوجائے مثلا اس کے ساتھ قبول کرنے کے ثواب و فوائد اور نہ کرنے کے عذاب ومفاسد ذکر کئے جائیں (قاموس ومفردات راغب)
الْحَسَنَةِ کے معنی یہ ہیں کہ بیان اور عنوان بھی ایسا ہو جس سے مخاطب کا قلب مطمئن ہو اس کے شکوک و شبہات دور ہوں اور مخاطب یہ محسوس کرے کہ آپ کی اس میں کوئی غرض نہیں صرف اس کی خیرخواہی کے لئے کہہ رہے ہیں،
مَوْعِظَةِ کے لفظ سے خیر خواہی کی بات مؤ ثر انداز میں کہنا تو واضح ہوگیا تھا مگر خیر خواہی کی بات بعض اوقات دل خراش عنوان سے یا اس طرح بھی کہی جاتی ہے جس سے مخاطب اپنی اہانت محسوس کرے (روح المعانی اس طریقہ کو چھوڑنے کے لئے حسنہ کا اضافہ کردیا گیا۔
(آیت) وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ لفظ جادل، مجادلہ سے مشتق ہے اس جگہ مجادلہ سے مراد بحث ومناظرہ ہے اور بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ سے مراد یہ ہے کہ اگر دعوت میں کہیں بحث ومناظرہ کی ضرورت پیش آجائے تو وہ مباحثۃ بھی اچھے طریقہ سے ہونا چاہئے روح المعانی میں ہے کہ اچھے طریقہ سے یہ مراد ہے کہ گفتگو میں لطف اور نرمی اختیار کی جائے دلائل ایسے پیش کئے جائیں جو مخاطب آسانی سے سمجھ سے دلیل میں یہ مقدمات پیش کئے جائیں جو مشہور و معروف ہوں تاکہ مخاطب کے شکوک دور ہوں اور وہ ہٹ دھرمی کے راستہ پر نہ جائے اور قرآن کریم کی دوسری آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہ احسان فی المجادلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں اہل کتاب کے بارے میں تو خصوصیت کے ساتھ قرآن کا ارشاد ہے (آیت) وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ اور دوسری آیت میں حضرت موسیٰ وھارون (علیہما السلام) کو (آیت) فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا۔ کی ہدایت دے کر یہ بھی بتلا دیا کہ فرعون جیسے سرکش کافر کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا ہے۔
دعوت کے اصول وآداب
آیت مذکورہ میں دعوت کے تین چیزوں کا ذکر ہے۔
اول حکمت۔ دوسرے موعظۃ حسنہ تیسرے مجادلہ بالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ تین چیزیں مخاطبین کی تین قسموں کی بنا پر ہیں دعوت بالحکمۃ اہل علم وفہم کے لئے دعوت بالموعظہ عوام کے لئے مجادلہ ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں شکوک و شبہات ہوں یا جو عناد اور ہٹ دھرمی کے سبب بات ماننے سے منکر ہوں۔
سیدی حضرت حکیم الامۃ تھانوی نے بیان القرآن میں فرمایا کہ ان تین چیزوں کے مخاطب الگ الگ تین قسم کی جماعتیں ہونا سیاق آیت کے لحاظ سے بعید معلوم ہوتا ہے انتہی۔
ظاہر یہ ہے کہ یہ آداب دعوت ہر ایک کے لئے استعمال کرنے ہیں کہ دعوت میں سب سے پہلے حکمت سے مخاطب کے حالات کا جائزہ لے کر اس کے مناسب کلام تجویز کرنا ہے پھر اس کلام میں خیر خواہی و ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ ایسے شواہد اور دلائل سامنے لانا ہے جن سے مخاطب مطمئن ہو سکے اور طرز بیان و کلام ایسا مشفقانہ اور نرم رکھنا ہے کہ مخاطب کو اس کا یقین ہوجائے کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں میری ہی مصلحت اور خیرخواہی کے لئے کہہ رہے ہیں مجھے شرمندہ کرنا یا میری حیثیت کو مجروح کرنا ان کا مقصد نہیں۔
البتہ صاحب روح المعانی نے اس جگہ ایک نہایت لطیف نکتہ یہ بیان فرمایا کہ آیت کے نسق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصول دعوت اصل میں دو ہی چیزیں ہیں حکمت اور موعظت تیسری چیز مجادلہ، اصول دعوت میں داخل نہیں ہاں طریق دعوت میں کبھی اس کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے۔
صاحب روح المعانی کا استدلال اس پر یہ ہے کہ اگر یہ تینوں چیزیں اصول دعوت ہوتیں تو مقتضائے مقام یہ تھا کہ تینوں چیزوں کو عطف کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاتا بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ والجدال الاحسن مگر قرآن حکیم نے حکمت وموعظت کو تو عطف کے ساتھ ایک ہی نسق میں بیان فرمایا اور مجادلہ کے لئے الگ جملہ وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭاختیار کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجادلہ فی العلم دراصل دعوت الی اللہ کا رکن یا شرط نہیں بلکہ طریق دعوت میں پیش آنے والے معاملات کے متعلق ایک ہدایت ہے جیسا کہ اس کے بعد کی آیت میں صبر کی تلقین فرمائی ہے کیونکہ طریق دعوت میں لوگوں کی ایذاؤں پر صبر کرنا ناگزیر ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اصول دعوت دو چیزیں ہیں حکمت اور موعظت جن سے کوئی دعوت خالی نہ ہونا چاہئے خواہ علماء و خواص کو ہو یا عوام الناس کو البتہ دعوت میں کسی وقت ایسے لوگوں سے بھی سابقہ پڑجاتا ہے جو شکوک واوہام میں مبتلا اور داعی کے ساتھ بحث مباحثہ پر آمادہ ہیں تو ایسی حالت میں مجادلہ کی تعلیم دی گئی مگر اس کے ساتھ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭکی قید لگا کر بتلا دیا کہ جو مجادلہ اس شرط سے خالی ہو اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔
دعوت الی اللہ کے پیغمبرانہ آداب
دعوت الی اللہ دراصل انبیاء (علیہم السلام) کا منصب ہے امت کے علماء اس منصب کو ان کا نائب ہونے کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں تو لازم یہ ہے کہ اس کے آداب اور طریقے بھی انہی سے سیکھیں جو دعوت ان طریقوں پر نہ رہے وہ دعوت کے بجائے عداوت اور جنگ وجدال کا موجب ہوجاتی ہے۔
دعوت پیغمبرانہ کے اصول میں جو ہدایت قرآن کریم میں حضرت موسیٰ و ہارون کے لئے نقل کی گئی ہے کہ (آیت) فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى یعنی فرعون سے نرم بات کرو شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے یہ ہر داعی حق کو ہر وقت سامنے رکھنا ضروری ہے کہ فرعون جیسا سرکش کافر جس کی موت بھی علم الہی میں کفر ہی پر ہونے والی تھی اس کی طرف بھی جب اللہ تعالیٰ اپنے داعی کو بھیجتے ہیں تو نرم گفتار کی ہدایت کے ساتھ بھیجتے ہیں آج ہم جن لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ فرعون سے زیادہ گمراہ نہیں اور ہم میں سے کوئی موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کے برابر ہادی وداعی نہیں تو جو حق تعالیٰ نے اپنے دونوں پیغمبروں کو نہیں دیا کہ مخاطب سے سخت کلامی کریں اس پر فقرے کسیں اس کی توہین کریں وہ حق تعالیٰ ہمیں کہاں سے حاصل ہوگیا۔
قرآن کریم انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت و تبلیغ اور کفار کے مجادلات سے بھرا ہوا ہے اس میں کہیں نظر نہیں آتا کہ کسی اللہ کے رسول نے حق کے خلاف ان پر طعنہ زنی کرنیوالوں کے جواب میں کوئی ثقیل کلمہ بھی بولا ہو اس کی چند مثالیں دیکھئے۔
سورة اعراف کے ساتویں رکوع میں آیات 59 سے 67 تک دو پیغمبر حضرت نوح اور حضرت ہود (علیہما السلام) کے ساتھ ان کی قوم کے مجادلے اور سخت سست الزامات کے جواب میں ان بزرگوں کے کلمات قابل ملاحظہ ہیں۔
حضرت نوح ؑ اللہ تعالیٰ کے وہ الوالعزم پیغمبر ہیں جن کی طویل عمر دنیا میں مشہور ہے ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کی دعوت و تبلیغ اصلاح و ارشاد میں دن رات مشغول رہے مگر اس بدبخت قوم میں سے معدودے چند کے علاوہ کسی نے ان کی بات نہ مانی اور تو اور خود ان کا ایک لڑکا اور بیوی کافروں کے ساتھ لگے رہے ان کی جگہ آج کا کوئی مدعی دعوت و اصلاح ہوتا تو اس قوم کے ساتھ اس کا لب و لہجہ کیسا ہوتا اندازہ لگائیے پھر دیکھئے کہ ان کی تمام ہمدردی وخیر خواہی کی دعوت کے جواب میں قوم نے کیا کہا۔
(آیت) اِنَّا لَنَرٰكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (اعراف) ہم تو آپ کو کھلی ہوئی گمراہی میں پاتے ہیں۔
ادھر سے اللہ کے پیغمبر بجائے اس کے کہ اس سرکش قوم کی گمراہیوں، بدکاریوں کا پردہ چاک کرتے جواب میں کیا فرماتے ہیں۔
(آیت) يٰقَوْمِ لَيْسَ بِيْ ضَلٰلَةٌ وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ میرے بھائیو ! مجھ میں کوئی گمراہی نہیں میں تو رب العلمین کا رسول اور قاصد ہوں (تمہارے فائدہ کی باتیں بتلاتا ہوں)
ان کے بعد آنے والے دوسرے اللہ کے رسول حضرت ہود ؑ کو ان کی قوم نے معجزات دیکھنے کے باوجود از راہ عناد کہا کہ آپ نے اپنے دعوے پر کوئی دلیل پیش نہیں کی اور ہم آپ کے کہنے سے اپنے معبودوں (بتوں) کو چھوڑنے والے نہیں ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تم نے جو ہمارے معبودوں کی شان میں بےادبی کی ہے اس کی وجہ سے تم جنون میں مبتلا ہوگئے ہو حضرت ہود ؑ نے یہ سب کچھ سن کر جواب دیا۔
اِنِّىْٓ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَاشْهَدُوْٓا اَنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ یعنی میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان بتوں سے بری اور بیزار ہوں جن کو تو اللہ کا شریک مانتے ہو (سورة ہود)
اور سورة اعراف میں ہے کہ ان کی قوم نے ان کو کہا
اِنَّا لَنَرٰكَ فِيْ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ (اعراف) ہم تو آپ کو بیوقوفی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہیں۔
قوم کے اس دل آزار خطاب کے جواب میں اللہ کے رسول ہود ؑ نہ ان پر کوئی فقرہ کستے ہیں نہ ان کی بےراہی اور کذب وافترا علی اللہ کی کوئی بات کہتے ہیں جواب کیا ہے صرف یہ کہ
(آیت) يٰقَوْمِ لَيْسَ بِيْ سَفَاهَةٌ وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ (اعراف) اے میری برادری کے لوگو مجھ میں بےوقوفی یا کم عقلی نہیں میں تو رب العلمین کا رسول ہوں۔
حضرت شعیب ؑ نے قوم کو حسب دستور انبیاء اللہ کی طرف دعوت دی اور ان میں جو بڑا عیب ناپ تول میں کمی کرنے کا تھا اس سے باز آنے کی ہدایت فرمائی تو ان کی قوم نے تمسخر کیا اور توہین آمیز خطاب کیا)
(آیت) يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤ ُ نَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤ ُ ا ۭ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِيْمُ الرَّشِيْدُ اے شعیب ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور یہ کہ جن اموال کے ہم مالک ہیں ان میں اپنی مرضی کے موافق جو چاہیں نہ کریں واقعی آپ ہیں بڑے عقلمند دین پر چلنے والے۔
انہوں نے ایک تو یہ طعنہ دیا کہ تم جو نماز پڑھتے ہو یہی تمہیں بےوقوفی کے کام سکھاتی ہے دوسرے یہ کہ مال ہمارے ہیں ان کی خریدو فروخت کے معاملات میں تمہارا یا خدا کا کیا دخل ہے ہم جس طرح چاہیں ان میں تصرف کا حق رکھتے ہیں تیسرا جملہ تمسخر و استہزاء کا یہ کہا کہ آپ ہیں بڑی عقلمند بہت دین پر چلنے والے۔
معلوم ہوا کہ یہ لا دینی معاشیات کے پجاری صرف آج نہیں پیدا ہوئے ان کے بھی کچھ اسلاف ہیں جن کا نظریہ وہی تھا جو آج کے بعض نام کے مسلمان کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اسلام مانتے ہیں مگر معاشیات میں ہم سوشل ازم کو اختیار کرتے ہیں اس میں اسلام کا کیا دخل ہے بہرحال اس ظالم قوم کے اس مسخرے پن اور دل آزار گتفگو کا جواب اللہ کا رسول کیا دیتا ہے دیکھئے
(آیت) قَالَ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَرَزَقَنِيْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَـنًا ۭ وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا باللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ (سورة ھود آیت 88) اے میری قوم ! بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھ کو اپنی طرف سے عمدہ دولت یعنی نبوت دی ہو تو پھر میں کیسے اس کی تبلیغ نہ کروں اور میں خود بھی تو اس کے خلاف کوئی عمل نہیں کرتا جو تمہیں بتلاتا ہوں میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میری قدرت میں ہے اور مجھ کو جو کچھ اصلاح اور عمل کی توفیق ہوجاتی ہے وہ صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور تمام امور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں
حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون کی طرف بھیجنے کے وقت جو نرم گفتار کی ہدایت منجانب اللہ دی گئی تھی اس کی پوری تعمیل کرنے کے باوجود فرعون کا خطاب حضرت موسیٰ ؑ سے یہ تھا۔
(آیت) قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَّلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِـنِيْنَ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِيْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ (سورة شعراء) فرعون کہنے لگا (اہا تم ہو) کیا ہم نے تم کو بچپن میں پرورش نہیں کیا اور تم اس عمر میں برسوں ہمارے پاس رہا سہا کئے اور تم نے اپنی وہ حرکت بھی کی تھی جو کی تھی (یعنی قبطی کو قتل کیا تھا) اور تم بڑی ناشکرے ہو۔
اس میں حضرت موسیٰ ؑ پر اپنا یہ احسان بھی جتلایا کہ بچپن میں ہم نے تجھے پالا ہے پھر یہ احسان بھی جتلایا کہ بڑے ہونے کے بعد بھی کافی مدت تک تم ہمارے پاس رہے پھر یہ عتاب کیا کہ حضرت موسیٰ ؑ کے ہاتھ سے جو ایک قبطی بغیر ارادہ قتل کے مارا گیا تھا اس پر غصہ وناراضی کا اظہار کر کے یہ بھی کہا کہ تم کافروں میں سے ہوگئے۔
یہاں کافروں میں سے ہونے کے لغوی معنی بھی ہو سکتے ہیں یعنی ناشکری کرنے والا جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے تم پر احسانات کئے اور تم نے ہمارے ایک آدمی کو مار ڈالا جو احسان کی ناشکری تھی اور اصطلاحی معنی بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ فرعون خود خدائی کا دعویدار تھا تو جو اس کی خدائی کا منکر ہوا وہ کافر ہوا۔
اب اس موقع پر حضرت موسیٰ ؑ کا جواب سنئے جو پیغمبرانہ آداب دعوت اور پیغمبرانہ اخلاق کا شاہکار ہے کہ اس میں سب سے پہلے تو اس کمزوری اور کوتاہی کا اعتراف کرلیا جو ان سے سرزد ہوگئی تھی یعنی اسرائیلی آدمی سے لڑنے والے قبطی کو ہٹانے کے لئے ایک مکا اس کے مارا تھا جس سے وہ مرگیا تو گو یہ قتل عمدا ارادۃ نہیں تھا مگر کوئی دینی تقاضا بھی نہیں تھا بلکہ شریعت موسوی کے لحاظ سے بھی وہ شخص قتل کا مستحق نہیں تھا اس لئے پہلے یہ اعتراف فرمایا۔
فَعَلْتُهَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ (سورة شعراء) یعنی میں نے یہ کام اس وقت کیا تھا جبکہ میں ناواقف تھا۔
مراد یہ ہے کہ یہ فعل عطاء نبوت سے پہلے سرزد ہوگیا تھا جب کہ مجھے اس بارے میں اللہ کا کوئی حکم معلوم نہیں تھا اس کے بعد فرمایا۔
فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِيْ رَبِّيْ حُكْمًا وَّجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ (سورة شعراء) پھر مجھ کو ڈر لگا تو میں تمہارے یہاں سے مفرور ہوگیا پھر مجھ کو میرے رب نے دانشمندی عطا فرمائی اور مجھ کو اپنی پیغمبروں میں شامل کردیا۔
پھر اس کے احسان جتلانے کا جواب یہ دیا کہ تمہارا یہ احسان جتانا صحیح نہیں کیونکہ میری پرورش کا معاملہ تمہارے ہی ظلم وعدوان کا نتیجہ تھا کہ تم نے اسرائیلی بچوں کے قتل کا حکم دے رکھا تھا اس لئے والدہ نے مجبور ہو کر مجھے دریا میں ڈالا اور تمہارے گھر تک پہنچنے کی نوبت آئی فرمایا۔
وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ (سورة شعراء) (رہا احسان جتلانا پرورش کا) وہ نعمت ہے جس کا تو مجھ پر احسان رکھتا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو سخت ذلت میں ڈال رکھا تھا۔
اس کے بعد فرعون نے جب سوال کیا وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی رب العالمین کون ہے اور کیا ہے ؟ تو جواب میں فرمایا کہ وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس سب کا اس پر فرعون نے بطور استہزاء کے حاضرین سے کہا اَلَا تَسْمَعُوْنَ یعنی تم سن رہے ہو کہ یہ کیسی بےعقلی کی باتیں کہہ رہے ہیں اس پر موسیٰ ؑ نے فرمایا۔
(آیت) رَبُّكُمْ وَرَبُّ اٰبَاۗىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَ (یعنی تمہارا اور تمہارے باپ دادوں کا بھی وہی رب پروردگار ہے۔
اس پر فرعون نے جھنجھلا کر کہا
(آیت) اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْٓ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ یعنی یہ جو تمہاری طرف اللہ کے رسول ہونے کا مدعی ہے وہ دیوانہ ہے۔
مجنون دیوانہ کا خطاب دینے پر بھی موسیٰ ؑ بجائے اس کے کہ ان کا دیوانہ ہونا اور اپنا عاقل ہونا ثابت کرتے اس طرف کوئی التفات ہی نہیں کیا بلکہ اللہ رب العلمین کی ایک اور صفت بیان فرما دی۔
(آیت) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۭاِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ (سورة شعراء) وہ رب ہے مشرق و مغرب کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اگر تم کو کچھ عقل ہو۔
یہ ایک طویل مکالمہ ہے جو فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کے درمیان ہو رہا ہے جو سورة شعراء کے تین رکوع میں بیان ہوا ہے اللہ کے مقبول رسول حضرت موسیٰ ؑ کے اس مکالمہ کو اول سے آخر تک دیکھئے نہ کہیں جذبات کا اظہار ہے نہ اس کی بدگوئی کا جواب ہے نہ اس کی سخت کلامی کے جواب میں کوئی سخت کلمہ ہے بلکہ مسلسل اللہ جل شانہ کی صفات کمال کا بیان ہے اور تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ مختصر سا نمونہ ہے انبیاء (علیہم السلام) کے مجادلات کا جو اپنے معاند اور ضدی قوم کے مقابلہ میں کئے گئے ہیں اور مجادلہ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ جو قرآن کی تعلیم ہے اس کی عملی تشریح ہے۔
مجادلات کے علاوہ دعوت و تبلیغ میں ہر مخاطب اور ہر موقع کے مناسب کلام کرنے میں حکیمانہ اصول اور عنوان و تعبیر میں حکمت و مصلحت کی رعایتیں بھی جو انبیاء (علیہم السلام) نے اختیار فرمائی ہیں اور دعوت الی اللہ کو مقبول ومؤ ثر اور پائیدار بنانے کے لئے جو طرز عمل اختیار فرمایا ہے وہی دراصل دعوت کی روح ہے اس کی تفصیلات تو تمام تعلیمات نبوی ؑ میں پھیلی ہوئی ہیں نمونے کے طور پر چند چیزیں دیکھئے۔
رسول کریم ﷺ کو دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت میں اس کا بڑا لحاظ رہتا تھا کہ مخاطب پر بار نہونے پائے صحابہ کرام ؓ اجمعین جیسے عشاق رسول جن سے کسی وقت بھی اس کا احتمال نہ تھا کہ وہ آپ کی باتیں سننے سے اکتا جائیں گے ان کے لئے بھی آپ کی عادت یہ تھی کہ وعظ و نصیحت روزانہ نہیں بلکہ ہفتہ کے بعض دنوں میں فرماتے تھے تاکہ لوگوں کے کاروبار کا حرج اور ان کی طبیعت پر بار نہ ہو۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت محمد ﷺ ہفتہ کے بعض ایام ہی میں وعظ فرماتے تھے تاکہ ہم اکتا نہ جائیں اور دوسروں کو بھی آپ کی طرف سے یہی ہدایت تھی
حضرت انس ؓ کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا
یسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا (صحیح بخاری کتاب العلم) لوگوں پر آسانی کرو دشواری نہ پیدا کرو اور ان کو اللہ کی رحمت کی خوشخبری سناؤ مایوس یا متنفر نہ کرو۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں تمہیں چاہئے کہ ربانی حکماء علماء اور فقہاء بنو۔ صحیح بخاری میں یہ قول نقل کر کے لفظ ربانی کی یہ تفسیر فرمائی کہ جو شخص دعوت و تبلیغ اور تعلیم میں تربیت کے اصول کو ملحوظ رکھ کر پہلے احکام بتلائے جو ابتدائی مرحلے میں مشکل ہوتے وہ عالم ربانی ہے آج کل جو وعظ و تبلیغ کا اثر بہت کم ہوتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عموما اس کام کرنے والے ان اصول و اداب کی رعایت نہیں کرتے لمبی تقریریں وقت بےوقت نصحیت مخاطب کے حالات کو معلوم کئے بغیر اس کو کسی کام پر مجبور کرنا ان کی عادت بن گئی ہے۔
رسول کریم ﷺ کو دعوت و اصلاح کے کام میں اس کا بھی بڑا اہتمام تھا کہ مخاطب کی سبکی یا رسوائی نہ ہو اسی لئے جب کسی شخص کو دیکھتے کہ کسی غلط اور برے کام میں مبتلا ہے تو اس کو براہ راست خطاب کرنے کے بجائے مجمع عام کو مخاطب کر کے فرماتے تھے۔
مابال اقوام یفعلون کذالوگوں کو کیا ہوگیا کہ فلاں کام کرتے ہیں۔
اس عام خطاب میں جس کو سنانا اصل مقصود ہوتا وہ بھی سن لیتا اور دل میں شرمندہ ہو کر اس کے چھوڑنے کی فکر میں لگ جاتا۔
انبیاء (علیہم السلام) کی عام عادت یہی تھی کہ مخاطب کو شرمندگی سے بچاتے تھے اسی لئے بعض اوقات جو کام مخاطب سے سرزد ہوا ہے اسی کو اپنی طرف منسوب کر کے اصلاح کی کوشش فرماتے۔ سورة یسین میں ہے وَمَالِيَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ یعنی مجھے کیا ہوگیا کہ میں اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت نہ کروں ظاہر ہے کہ یہ قاصد رسول تو ہر وقت عبادت میں مشغول تھے سنانا اس مخاطب کو تھا جو مشغول عبادت نہیں ہے مگر اس کام کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔
اور دعوت کے معنی دوسرے کو اپنے پاس بلانا ہے محض اس کے عیب بیان کرنا نہیں اور یہ بلانا اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ متکلم اور مخاطب میں کوئی اشتراک ہو اسی لئے قرآن عزیز میں انبیاء (علیہم السلام) کی دعوت کا عنوان اکثر یا قوم سے شروع ہوتا ہے جس میں برادرانہ رشتہ کا اشتراک پہلے جتلا کر اگے اصلاحی کلام کیا جاتا ہے کہ ہم تم تو ایک ہی برادری کے آدمی ہیں کوئی منافرت نہیں ہونی چاہئے یہ کہہ کر ان کی اصلاح کا کام شروع فرماتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ نے جو دعوت کا خط ہرقل شاہ روم کے نام بھیجا اس میں اول تو شاہ روم کو عظیم الروم کے لقب سے یاد فرمایا جس میں اس کا جائز اکرام ہے کیونکہ اس میں اس کے عظیم ہونے کا اقرار بھی ہے مگر رومیوں کے لئے اپنے لئے نہیں اس کے بعد ایمان کی دعوت اس عنوان سے دی گئی۔
(آیت) تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ (سورة آل عمران) جس میں پہلے آپس کا ایک مشترک نقطہ و حدت ذکر کیا کہ توحید کا عقیدہ ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اس کے بعد عیسائیوں کی غلطی پر متنبہ فرمایا۔
تعلیمات رسول کریم ﷺ پر دھیان دیا جائے تو ہر تعلیم دعوت میں اسی طرح کہ آداب و اصول ملیں گے آج کل اول تو دعوت و اصلاح اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی طرف دھیان ہی نہ رہا اور جو اس میں مشغول بھی ہیں انہوں نے صرف بحث و مباحثہ اور مخالف پر الزام تراشی فقرے کسنے اور اس کی تحقیر و توہین کرنے کو دعوت و تبلیغ سمجھ لیا ہے جو خلاف سنت ہونے کی وجہ سے کبھی مؤ ثر ومفید نہیں ہوتا وہ سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی بڑی خدمت کی اور حقیقت میں وہ لوگوں کو متنفر کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
مروجہ مجادلات کی دینی اور دنیوی مضرتیں
آیت مذکورہ کی تفسیر میں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اصل مقصود شرع دعوت الی اللہ ہے۔ جس کے دو اصول ہیں حکمت موعظت حسنہ مجادلہ کی صورت کبھی سر آپڑے تو اس کے لئے بھی احسن کی قید لگا کر اجازت دے دیگئی ہے مگر وہ حقیقۃ دعوت کا کوئی شعبہ نہیں بلکہ اس کے منفی پہلو کی ایک تدبیر ہے جس میں قرآن کریم میں بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ کی قید لگا کر جس طرح یہ بتلا دیا ہے کہ وہ نرمی خیر خواہی اور ہمدری کے جذبے سے ہونا چاہئے اور اس میں دلائل واضحہ مخاطب کے مناسب حال بیان کرنا چاہئے مخاطب کی توہین و تحقیر سے کلی اجتناب کرنا چاہئے اسی طرح اس کے احسن ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خود متکلم کے لئے مضر نہ ہوجائے کہ اس میں اخلاق رذیلہ حسد بغض تکبر جاہ پسندی وغیرہ پیدا نہ ہوجائے جو باطنی گناہ کبیرہ ہیں اور آج کل کے بحث و مباحثہ مناضرہ مجادلہ میں شاذو نادر ہی کوئی اللہ کا بندہ ان سے نجات پائے تو ممکن ہے ورنہ عادۃ ان سے بچنا سخت دشوار ہے۔
امام غزالی نے فرمایا کہ جس طرح شراب ام الخبائث ہے کہ خود بھی بڑا گناہ ہے اور دوسرے بڑے بڑے جسمانی گناہوں کا ذریعہ بھی ہے اسی طرح بحث و مباحثہ میں جب مقصود مخاطب پر غلبہ پانا اور اپنا علمی تفوق لوگوں پر ظاہر کرنا ہوجائے تو وہ بھی باطن کے لئے ام الخبائث ہے جس کے نتیجہ میں بہت سی روحانی جرائم پیدا ہوتے ہیں مثلا حسد بغض تکبر غیبت دوسرے کے عیوب کا تجسس اس کی برائی سے خوش اور بھلائی سے رنجیدہ ہونا قبول حق سے استکبار دوسرے کے قول پر انصاف اعتدال کے ساتھ غور کرنے کے بجائے جواب دہی کی فکر خواہ اس میں قرآن وسنت میں کیسی ہی تاویلات کرنا پڑیں یہ تو وہ مہلکات ہیں جن میں باوقار علماء ہی مبتلاء ہوتے ہیں اور معاملہ جب ان کے متبعین میں پہنچتا ہے تو دست و گریبان اور جنگ وجدال کے معرکے گرم ہوجاتے ہیں انا للہ حضرت امام شافعی نے فرمایا
علم تو اہل علم وفضل کے مابین ایک رحم متصل (رشتہ اخوت و برادری) ہے تو وہ لوگ جنہوں نے علم ہی کو عداوت بنا لیا ہے وہ دوسروں کو اپنے مذہب کی اقتداء کی دعوت کس طرح دیتے ہیں ان کے پیش نظر دوسرے پر غلبہ پانا ہی ہے تو پھر ان سے باہمی انس ومودت اور مروت کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے اور ایک انسان کے لئے اس سے بڑھ کر شر اور برائی اور کیا ہوگی کہ وہ اس کو منافقین کے اخلاق میں مبتلا کردے اور مؤمنین ومتقین کے اخلاق سے محروم کر دے۔
امام عزالی نے فرمایا کہ علم دین اور دعوت حق میں اشتغال رکھنے والا یا تو اصول صحیحہ کے تابع اور مہلک خطرات سے متجنب رہ کر سعادت ابدی حاصل کرلیتا ہے یا پھر اس مقام سے گرتا ہے تو شقاوت ابدی کی طرف جاتا ہے اس کا درمیان میں رہنا بہت مستبعد ہے کیونکہ جو علم نافع نہ ہو وہ عذاب ہی ہے رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔
اشد الناس عذابا یوم القیمۃ عالم لم ینفعہ اللہ بعلمہ۔ سب سے سخت عذاب میں قیامت کے دن وہ عالم ہوگا جس کے علم سے اللہ تعالیٰ نے اس کو نفع نہ بخشا ہو۔
ایک دوسری حدیث صحیح میں ہے
لاتتعلموا العلم لتباھوا بہ العلمآء ولتماروابہ السفھآء ولتصرفوا بہ وجوہ الناس الیکم فمن فعل ذلک فھو فی النار (ابن حدیث جابر باسناد صحیح کذا فی تخریج العراقی علی الاحیاء) علم دین کو اس غرض سے نہ سیکھو کہ اس کے ذریعہ دوسرے علماء کے مقابلہ میں فخر و عزت حاصل کرو یا کم علم لوگوں سے جھگڑے کرو یا اس کے ذریعہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف کرلو اور جو ایسا کرے گا وہ آگ میں ہے۔
اسی لئے ائمہ فقہاء اور اہل حق کا مسلک اس معاملے میں یہ تھا کہ علمی مسائل میں جھگڑا اور جدال ہرگز جائز نہیں سمجھتے تھے دعوت حق کے لئے اتنا کافی ہے کہ جس کو خطاء پر سمجھے اس کو نرمی اور خیر خواہی کے عنوان سے دلائل کے ساتھ اس کی خطاء پر متنبہ کر دے پھر وہ قبول کرلے تو بہتر ورنہ سکوت اختیار کرے جھگڑے اور بدگوئی سے کلی احتراز کرے حضرت امام مالک کا ارشاد ہے۔
کان مالک یقول المرآء و الجدال فی العلم یذھب بنور العلم عن قلب العبد وقیل لہ رجل لہ علم بالسنۃ فہل یجادل عنہا قال لا ولکن یخبر بالسنۃ فان قبل منہ والا سکت (او جزالمسالک شرح مؤ طا ص 15 ج 1) امام مالک نے فرمایا کہ علم میں جھگڑا اور جدال نور علم کو انسان کے قلب سے نکال دیتا ہے کسی نے عرض کیا کہ ایک شخص جس کو سنت کا علم ہو کیا وہ حفاظت سنت کیلئے جدال کرسکتا ہے فرمایا نہیں بلکہ اس کو چاہئے کہ مخاطب کو صحیح بات سے آگاہ کر دے پھر وہ قبول کرلے تو بہتر ورنہ سکوت اختیار کرے اس زمانے میں دعوت و اصلاح کا کام پوری طرح مؤ ثر نہ ہونے کے دو سبب ہیں۔ ایک تو یہ کہ فساد زمانہ اور حرام چیزوں کی کثرت کے سبب عام طور پر لوگوں کے قلوب سخت اور آخرت سے غافل ہوگئے ہیں اور قبول حق کی توفیق کم ہوگئی ہے اور بعض تو اس قہر میں مبتلا ہیں جس کی خبر رسول کریم ﷺ نے دی تھی کہ آخر زمانے میں بہت سے لوگوں کے قلوب اوندھے ہوجائیں گے بھلے برے کی پہچان اور جائز و ناجائز کا امتیاز ان کے دل سے اٹھ جائے گا۔
اور دوسرے سبب یہ کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دعوت حق کے فرائض سے غفلت عام ہوگئی ہے عوام کا تو کیا ذکر خواص علماء وصلحاء میں اس ضرورت کا احساس بہت کم ہے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اپنے اعمال درست کر لئے جائیں تو یہ کافی ہے خواہ ان کی اولاد بیوی بھائی دوست احباب کیسے ہی گناہوں میں مبتلا رہیں ان کی اصلاح کی فکر گویا ان کے ذمہ ہی نہیں حالانکہ قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ ہر شخص کے ذمہ اپنے اہل و عیال اور متعلقین کی اصلاح کو فرض قرار دے رہی ہیں قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا اور پھر اگر کچھ لوگ دعوت و اصلاح کے فریضہ کی طرف توجہ دیتے بھی ہیں تو وہ قرآنی تعلیمات اور دعوت پیغمبرانہ کے اصول وآداب سے ناآشنا ہیں بےسوچے سمجھے جس کو جس وقت جو چاہا کہہ ڈالا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ہے حالانکہ یہ طرز عمل سنت انبیاء کے خلاف ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دین اور احکام دین پر عمل کرنے سے اور زیادہ دور پھینک دیتا ہے۔
خصوصا جہاں کسی دوسرے پر تنقید کا نام لے کر تنقیص اور استہزاء و تمسخر تک پہنچ جاتے ہیں حضرت امام شافعی نے فرمایا
جس شخص کو کسی غلطی پر متنبہ کرنا ہے اگر تم نے اس کو تنہائی میں نرمی کے ساتھ سمجھایا تو یہ نصیحت ہے اور اگر علانیہ لوگوں کے سامنے اس کو رسوا کیا تو یہ فضیحت ہے۔
آج کل تو ایک دوسرے کے عیوب کو اخباروں اشتہاروں کے ذریعے منظر عام پر لانے کو دین کی خدمت سمجھ لیا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین اور اس کی دعوت کی صحیح بصیرت اور آداب کے مطابق اس کی توفیق عطا فرمائیں۔
یہاں تک دعوت کے اصول اور آداب کا بیان ہوا اس کے بعد فرمایا (آیت) اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ يَّضِلُّ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۚ وَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ یہ جملہ داعیان دین کی تسلی کے لئے ارشاد فرمایا ہے کیونکہ مذکور الصدر آداب دعوت کو استعمال کرنے باوجود جب مخاطب حق بات کو قبول نہ کرے تو طبعی طور پر انسان کو سخت صدمہ پہنچتا ہے اور بعض اوقات اس کا یہ اثر بھی ہوسکتا ہے کے کہ دعوت کا فائدہ نہ دیکھ کر آدمی پر مایوسی طاری ہوجائے اور کام ہی چھوڑ بیٹھے اس لئے اس جملے میں یہ فرمایا کہ آپ کا کام صرف دعوت حق کو اصول صحیحہ کے مطابق ادا کردینا ہے آگے اس کو قبول کرنا یا نہ کرنا اس میں نہ آپ کا کوئی دخل ہے نہ آپ کی ذمہ داری وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے وہی جانتا ہے کہ کون گمراہ رہے گا اور کون ہدایت پائے گا آپ اس فکر میں نہ پڑیں اپنا کام کرتے رہیں اس میں ہمت نہ ہاریں مایوس نہ ہوں اس سے معلوم ہوا کہ یہ جملہ بھی آداب دعوت ہی کا تکملہ ہے۔
Top