Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 126
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ١ؕ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر عَاقَبْتُمْ : تم تکلیف دو فَعَاقِبُوْا : تو انہیں تکلیف دو بِمِثْلِ : ایسی ہی مَا عُوْقِبْتُمْ : جو تمہیں تکلیف دی گئی بِهٖ : اس سے ۭوَلَئِنْ : اور اگر صَبَرْتُمْ : تم صبر کرو لَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ : بہتر لِّلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والوں کے لیے
اور اگر بدلہ لو تو بدلہ لو اسی قدر جس قدر کہ تم کو تکلیف پہنچائی جائے، اور اگر صبر کرو تو یہ بہتر ہے صبر کرنے والوں کو ،
داعی حق کو کوئی ایذاء پہونچائے تو بدلہ لینا بھی جائز ہے مگر صبر بہتر ہے
اس کے بعد کی تین آیتوں میں داعیان حق کے لئے ایک اور اہم ہدایت ہے وہ یہ کہ بعض اوقات ایسے سخت دل جاہلوں سے سابقہ پڑتا ہے کہ ان کو کتنی ہی نرمی اور خیرخواہی سے بات سمجھائی جائے وہ اس پر بھی مشتعل ہوجاتے ہیں زبان درازی کر کے ایذاء پہونچاتے ہیں اور بعض اوقات اس سے بھی تجاوز کر کے ان کو جسمانی تکلیف پہونچانے بلکہ قتل تک سے بھی گریز نہیں کرتے ایسے حالات میں دعوت حق دینے والوں کو کیا کرنا چاہئے۔
اس کے لئے وَاِنْ عَاقَبْتُمْ الخ میں ایک تو ان حضرات کو قانونی حق دیا گیا کہ جو آپ پر ظلم کرے آپ کو بھی اس سے اپنا بدلہ لینا جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ بدلہ لینے میں مقدار ظلم سے تجاوز نہ ہو جتنا ظلم اس نے کیا ہے اتنا ہی بدلہ لیا جائے اس میں زیادتی نہ ہونے پائے اور آخر آیت میں مشورہ دیا کہ اگرچہ آپ کو انتقام لینے کا حق ہے لیکن صبر کریں اور انتقام نہ لیں تو یہ بہتر ہے۔
آیات مذکورہ کا شان نزول اور رسول کریم ﷺ و صحابہ کی طرف سے تعمیل حکم
جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت مدنی ہے غزوہ احد میں ستر صحابہ کی شہادت اور حضرت حمزہ ؓ کو قتل کر کے مثلہ کرنے کے واقعہ میں نازل ہوئی صحیح بخاری کی روایت اسی کے مطابق ہے دارقطنی نے بروایت ابن عباس نقل کیا ہے کہ
غزوہ احد میں جب مشرکین لوٹ گئے تو صحابہ کرام ؓ اجمعین میں سے ستر اکابر کی لاشیں سامنے آئیں جن میں آنحضرت محمد ﷺ کے عم محترم حضرت حمزہ ؓ بھی تھے چونکہ مشرکین کو ان پر بڑا غیظ تھا اس لئے ان کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش پر اپنا غصہ اس طرح نکالا کہ ان کی ناک کان اور دوسرے اعضاء کاٹے گئے پیٹ چاک کیا گیا رسول کریم ﷺ کو اس منظر سے سخت صدمہ پہنچا اور آپ نے فرمایا کہ میں حمزہ کے بدلے میں مشرکین کے ستر آدمیوں کا اسی طرح مثلہ کروں گا جیسا انہوں نے حمزہ کو کیا ہے اس واقعہ میں یہ تین آیات نازل ہوئیں وَاِنْ عَاقَبْتُمْ الخ (تفسیر قرطبی) بعض روایات میں ہے کہ دوسرے حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین کے ساتھ بھی ان ظالموں نے اسی طرح کا معاملہ مثلہ کرنے کا کیا تھا (کما رواہ الترمذی واحمد وابن خزیمہ وابن حبان فی صحیحہما عن ابی بن کعب)
اس میں چونکہ رسول کریم ﷺ نے فرط غم میں بلا لحاظ تعداد ان صحابہ کے بدلے میں ستر مشرکین کے مثلہ کرنے کا عزم فرمایا تھا جو اللہ کے نزدیک اس اصول عدل و مساوات کے مطابق نہ تھا جس کو آپ کے ذریعے دنیا میں قائم کرنا منظور تھا اس لئے ایک تو اس پر متنبہ فرمایا گیا کہ بدلہ لینے کا حق تو ہے مگر اسی مقدار اور پیمانہ پر جس مقدار کا ظلم ہے بلالحاظ تعداد چند کا بدلہ ستر سے لینا درست نہیں دوسرے آپ کو مکارم اخلاق کا نمونہ بنانا مقصود تھا اس لئے یہ نصیحت کی گئی کہ برابر سرابر بدلہ لینے کی اگرچہ اجازت ہے مگر وہ بھی چھوڑ دو اور مجرموں پر احسان کرو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔
اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب ہم صبر ہی کریں گے کسی ایک سے بھی بدلہ نہیں لیں گے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیا (مظہری عن البغوی) فتح مکہ کے موقع پر جب یہ تمام مشرکین مغلوب ہو کر رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ اجمعین کے قبضہ میں تھے یہ موقع تھا کہ اپنا وہ عزم و ارادہ پورا کرلیتے جو غزوہ احد کے وقت کیا تھا مگر آیات مذکورہ کے نزول کے وقت ہی رسول کریم ﷺ اپنے ارادے کو چھوڑ کر صبر کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے اس لئے فتح مکہ کے وقت ان آیات کے مطابق صبر کا عمل اختار کیا گیا شاید اسی بنا پر بعض روایات میں یہ مذکور ہوا ہے کہ یہ آیتیں فتح مکہ کے وقت نازل ہوئی تھیں اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ ان آیات کا نزول مکرر ہوا ہو اول غزوہ احد میں نازل ہوئیں اور پھر فتح مکہ کہ وقت دوبارہ نازل ہوئیں (کما حکاہ المظہری عن ابن الحصار)
مسئلہاس آیت نے بدلہ لینے میں مساوات کا قانون بتایا ہے اسی لئے حضرات فقہاء نے فرمایا کہ جو شخص کسی کو قتل کر دے اس کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے گا جو زخمی کر دے تو اتنا ہی زخم اس کرنے والے کو لگایا جائے گا جو کسی ہاتھ یا پاؤں کاٹے پھر قتل کردے۔
البتہ اگر کسی نے پتھر مار کر کسی کو قتل کیا یاتیروں سے زخمی کر کے قتل کیا تو اس میں نوعیت قتل کی صحیح مقدار متعین نہیں کی جاسکتی کہ کتنی ضربوں سے یہ قتل واقع ہوا ہے اور مقتول کو کتنی تکلیف پہنچی ہے اس معاملہ میں حقیقی مساوات کا کوئی پیمانہ نہیں ہے اس لئے اس کو تلوار ہی سے قتل کیا جائے گا (جصاص)
مسئلہآیت کا نزول اگرچہ جسمانی تکالیف اور جسمانی نقصان پہونچانے کے متعلق ہوا ہے مگر الفاظ عام ہیں جس میں مالی نقصان پہنچانا بھی داخل ہے اسی لئے حضرات فقہاء نے فرمایا کہ جو شخص کسی سے اس کا مال غصب کرے تو اس کو بھی حق حاصل ہے کہ حق کے مطابق اس سے مال چھین لے یا یا چوری کر کے لے لے بشرطیکہ جو مال لیا ہے وہ اپنے حق کی جنس سے ہو مثلا نقد روپیہ لیا ہے تو اس کے بدلے میں اتنا ہی نقد روپیہ اس سے غصب یا چوری کے ذریعے لے سکتا ہے غلہ کپڑا وغیرہ لیا ہے تو اسی طرح کا غلہ کپڑا لے سکتا ہے مگر اس جنس کے بدلے میں دوسری جنس نہیں لے سکتا مثلا روپے کے بدلے میں کپڑا یا کوئی دوسری استعمالی چیز زبردستی نہیں لے سکتا اور بعض فقہا نے مطلقا اجازت دی ہے خواہ جنس حق سے ہو یا کسی دوسری جنس سے اس مسئلہ کی کچھ تفصیل قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھی ہے اور تفصیلی بحث کتب فقہ میں مذکور ہے۔
آیت وَاِنْ عَاقَبْتُمْ میں عام قانون مذکور تھا جس میں سب مسلمانوں کے لئے برابر کا بدلہ لینا جائز مگر صبر کرنا افضل و بہتر بتلایا گیا ہے اس کے بعد کی آیت میں نبی کریم ﷺ کو خصوصی خطاب فرما کر صبر کرنے کی تلقین و ترغیب دی گئی ہے کیونکہ آپ کی شان عظیم اور منصب بلند کے لئے دوسروں کی نسبت سے وہی زیادہ موزوں و مناسب ہے اس لئے فرمایا واصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا باللّٰہ یعنی آپ تو انتقام کا ارادہ ہی نہ کریں صبر ہی کو اختیار کریں اور ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ آپ کا صبر اللہ تعالیٰ ہی کی مدد سے ہوگا یعنی صبر کرنا آپ کے لئے آسان کردیا جائے گا۔
Top