Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 15
وَ اَلْقٰى فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِكُمْ وَ اَنْهٰرًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙ
وَاَلْقٰى : اور ڈالے (رکھے) فِي الْاَرْضِ : زمین میں۔ پر رَوَاسِيَ : پہاڑ اَنْ تَمِيْدَ : کہ جھک نہ پڑے بِكُمْ : تمہیں لے کر وَاَنْهٰرًا : اور نہریں دریا وَّسُبُلًا : اور راستے لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : راہ پاؤ
اور رکھ دیئے زمین پر بوجھ کہ کبھی جھک پڑے تم کو لے کر اور بنائیں ندیاں اور راستے تاکہ تم راہ پاؤ ،
(آیت) وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُم۔ رواسی راسیہ کی جمع ہے بھاری پہاڑ کو کہا جاتا ہے تمید مید مصدر سے مشتق ہے جس کے معنی ڈگمگانا یا مضطربانہ قسم کی حرکت کرنا ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ زمین کے کرہ کو حق تعالیٰ نے بہت سی حکمتوں کے ماتحت ٹھوس اور متوازن اجزاء سے نہیں بنایا اس لئے وہ کسی جانب سے بھاری کسی جانب سے ہلکی واقع ہوئی ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ زمین کو عام فلاسفروں کی طرح ساکن مانا جائے یا کچھ قدیم و جدید فلاسفروں کی طرح حرکت ہوتی جس کو اردو میں کانپنے یا ڈگمگانے سے تعبیر کیا جاتا ہے اس اضطرابی حرکت کو روکنے اور اجزاء زمین کو متوازن کرنے کے لئے حق تعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کا وزن رکھ دیا تاکہ وہ اضطرابی حرکت نہ کرسکے باقی رہا مسئلہ حرکت مستدیرہ کا جیسے تمام سیارات کرتے ہیں اور قدیم فلاسفہ میں سے فیثا غورث کی یہی تحقیق تھی اور جدید فلاسفر سب اس پر متفق ہیں اور نئے تجربات نے اس کو اور بھی زیادہ واضح کردیا ہے تو قرآن کریم میں نہ کہیں اس کا اثبات ہے نہ اس کی نفی بلکہ یہ اضطرابی حرکت جس کو پہاڑوں کے ذریعہ بند کیا گیا ہے اس حرکت مستدیرہ کے لئے اور زیادہ معین ہوگی جو سیارات کی طرح زمین کے لئے ثابت کی جاتی ہے واللہ اعلم۔
Top