Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 24
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ مَّا ذَاۤ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ١ۙ قَالُوْۤا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَۙ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمْ : ان سے مَّاذَآ : کیا اَنْزَلَ : نازل کیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اَسَاطِيْرُ : کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے لوگ
اور جب کہے ان سے کہ کیا اتارا ہے تمہارے رب نے تو کہیں کہانیاں ہیں پہلوں کی
خلاصہ تفسیر
اور جب ان سے کیا جاتا ہے (یعنی کوئی ناواقف شخص تحقیق کے لئے یا کوئی واقف شخص امتحان کے لئے ان سے پوچھتا ہے) کہ تمہارے رب نے کیا چیز نازل فرمائی ہے (یعنی قرآن جس کو رسول کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا فرماتے ہیں آیا یہ صحیح ہے) تو کہتے ہیں کہ (صاحب وہ رب کا نازل کیا ہوا کہاں ہے) وہ تو محض بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے (منقول) چلی آ رہی ہیں (یعنی اہل ملل پہلے سے توحید ونبوت ومعاد کے مدعی ہوتے آئے ہیں ان ہی سے یہ بھی نقل کرنے لگے باقی یہ دعوے اللہ تعالیٰ کے تعلیم دیئے ہوئے نہیں) نتیجہ اس (کہنے) کا یہ ہوگا کہ ان لوگوں کو قیامت کے دن اپنے گناہوں کا پورا بوجھ اور جن کو یہ لوگ بےعلمی سے گمراہ کر رہے تھے ان کے گناہوں کا بھی کچھ بوجھ اپنے اوپر اٹھانا پڑے گا (گمراہ کرنے سے مراد یہی کہنا ہے اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ کا کیونکہ اس سے دوسرے آدمی کا اعتقاد خراب ہوتا ہے اور جو شخص کسی کو گمراہ کیا کرتا ہے اس گمراہ کو تو گمراہی کا گناہ ہوتا ہے اور اس گمراہ کرنے والے کو اس کی گمراہی کے سبب بن جانے کا اس حصہ تسبب کو کچھ بوجھ فرمایا گیا اور اپنے گناہ کا کامل طور پر اٹھانا ظاہر ہے) خوب یاد رکھو کہ جس گناہ کو یہ اپنے اوپر لاد رہے ہیں وہ برا بوجھ ہے (اور انہوں نے جو گمراہ کرنے کی یہ تدبیر نکالی ہے کہ دوسروں کو ایسی باتیں کر کے بہکاتے ہیں سو یہ تدبیریں حق کے مقابلہ میں نہ چلیں گی بلکہ خود انہی پر ان کا وبال ونکال عود کرے گا چنانچہ) جو لوگ ان سے پہلے ہو گذرے ہیں انہوں نے (انبیاء (علیہم السلام) کے مقابلہ اور مخالفت میں) بڑی بڑی تدبیریں کیں سو اللہ تعالیٰ نے ان (کی تدبیروں) کا بنا بنایا گھر جڑ بنیاد سے ڈھا دیا پھر (وہ ایسے ناکام ہوئے جیسے گویا) اوپر سے ان پر (اس گھر کی) چھت آ پڑی (ہو یعنی جس طرح چھت آ پڑنے سے سب دب کر رہ جاتے ہیں اسی طرح وہ لوگ بالکل خائب و خاسر ہوئے) اور (علاوہ ناکامی کے) ان پر (خدا کا) عذاب ایسی طرح آیا کہ ان کو خیال بھی نہ تھا (کیونکہ توقع تو اس تدبیر میں کامیابی کی تھی خلاف توقع ان پر ناکامی سے بڑھ کر عذاب آ گیا جو کوسوں بھی ان کے ذہن میں نہ تھا کفار سابقین پر عذابوں کا آنا معلوم و معروف ہے یہ حالت تو ان کی دنیا میں ہوئی) پھر قیامت کے دن (ان کے واسطے یہ ہوگا کہ) اللہ تعالیٰ ان کو رسوا کرے گا اور (اس میں سے ایک رسوائی یہ ہوگی کہ ان سے) یہ کہے گا کہ (تم نے جو) میرے شریک (بنا رکھے تھے) جن کے بارے میں تم (انبیاء (علیہم السلام) اور اہل ایمان سے) لڑائی جھگڑا کرتے تھے (وہ اب) کہاں ہیں (اس حالت کو دیکھ کر حق کے) جاننے والے کہیں گے کہ آج پوری رسوائی اور عذاب کافروں پر ہے جن کی جان فرشتوں نے حالت کفر پر قبض کی تھی (یعنی آخر وقت تک کافر رہے شاید ان اہل علم کا قول بیچ میں اس لیے بیان فرمایا ہو کہ کفار کی رسوائی کا عام اور علانیہ ہونا معلوم ہوجائے) پھر کافر لوگ (اپنے شرکاء کے جواب میں) صلح کا پیغام ڈالیں گے (اور کہیں گے) کہ (شرک جو اعلیٰ درجہ کی برائی اور مخالفت حق تعالیٰ کی ہے ہماری کیا مجال تھی کہ ہم اس کے مرتکب ہوتے) ہم تو کوئی برا کام (جس میں ادنیٰ مخالفت بھی حق تعالیٰ کی ہو) نہ کرتے تھے (اس کو صلح کا مضمون اس لئے کہا گیا کہ دنیا میں شرک کا جو کہ مخالفت یقینیہ ہے بڑے جوش و خروش سے اقرار تھا کقولہ تعالیٰ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكنَا اور شرک کا اقرار مخالفت کا اقرار تھا خصوصا انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ تو خود صریح مخالفت کے مدعی تھے وہاں اس شرک کے انکار سے مخالفت کا انکار کریں گے اس لئے اس کو صلح فرمایا اور یہ انکار ایسا ہے جسا دوسری آیت میں ہے (آیت) وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ حق تعالیٰ ان کے اس قول کو رد فرمائیں گے کہ) کیوں نہیں (بلکہ واقعی تم نے بڑے کام مخالفت کے کئے) بیشک اللہ کو تمہارے سب اعمال کی پوری خبر ہے سو (اچھا) جہنم کے دروازوں میں (سے جہنم میں) داخل ہوجاؤ (اور) اس میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہو غرض (حق سے) تکبر (اور مخالفت اور مقابلہ) کرنے والوں کا وہ برا ٹھکانا ہے (یہ عذاب آخرت کا ذکر ہوگیا پس حاصل آیات کا یہ ہوا کہ تم نے اپنے سے پہلے کافروں کا حال خسارہ و عذاب دنیا وآخرت کا سن لیا اسی طرح جو تدبیر ومکر دین حق کے مقابلہ میں تم کر رہے ہو اور خلق کو گمراہ کرنا چاہتے ہو یہی انجام تمہارا ہوگا۔

معارف و مسائل
پچھلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور تخلیق عالم میں یکتا ہونے کا ذکر کرکے مشرکین کی اپنی گمراہی کا بیان تھا ان آیات میں دوسروں کو گمراہ کرنے اور اس کے عذاب کا بیان ہے اور اس سے پہلے ایک سوال قرآن کے متعلق اور اس سوال کے مخاطب یہاں تو مشرکین ہیں اور انہی کا جاہلانہ جواب یہاں ذکر کرکے ان پر وعید بیان کی گی ہے اور پانچ آیتوں کے بعد یہی سوال مؤمنین متقین کو خطاب کرکے کیا گیا اور ان کا جواب اور اس پر وعدہ انعامات کا ذکر ہے۔
قرآن کریم نے یہ نہیں کھولا کہ سوال کرنے والا کون تھا اس لئے مفسرین کے اس میں اقوال مختلف ہیں کسی نے کافروں کو سوال کرنے والا قرار دیا کسی نے مسلمانوں کو کسی ایک سوال مشرکین کا اور دوسرا مؤمنین کا قرار دیا لیکن قرآن کریم نے اس کو مبہم رکھ کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ اس بحث میں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ سوال کس کی طرف سے تھا دیکھنا تو جواب اور اس کے نتیجہ کا ہے جن کا قرآن نے خود بیان کردیا ہے۔
مشرکین کی طرف سے خلاصہ جواب یہ ہے کہ انہوں نے ا سی کو تسلیم نہیں کیا کہ کوئی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا بھی ہے بلکہ قرآن کو پھچلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیا قرآن کریم نے اس پر یہ وعید سنائی کہ یہ ظالم قرآن کو کہانیاں بتلا کر دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس کا یہ نتیجہ ان کو بھگتنا پڑے گا کہ قیامت کے روز اپنے گناہوں کا پورا وبال تو ان پر پڑنا ہی ہے جن کو یہ گمراہ کر رہے ہیں ان کا بھی کچھ وبال ان پر پڑے گا اور پھر فرمایا کہ گناہوں کے جس بوجھ کو یہ لوگ اپنے اوپر لاد رہے ہیں وہ بہت برا بوجھ ہے۔
Top