Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 94
وَّ الْخَیْلَ وَ الْبِغَالَ وَ الْحَمِیْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَ زِیْنَةً١ؕ وَ یَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَّالْخَيْلَ : اور گھوڑے وَالْبِغَالَ : اور خچر وَالْحَمِيْرَ : اور گدھے لِتَرْكَبُوْهَا : تاکہ تم ان پر سوار ہو وَزِيْنَةً : اور زینت وَيَخْلُقُ : اور وہ پیدا کرتا ہے مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور گھوڑے پیدا کئے اور خچریں اور گدھے کہ ان پر سوار ہو اور زینت کے لئے اور پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے
(آیت) وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا وَزِيْنَةً یعنی ہم نے گھوڑے خچر گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو سکو اس میں بار برداری بھی ضمنا آگئی اور ان کو اس لئے بھی پیدا کیا کہ یہ تمہارے لئے زینت بنیں زینت سے وہی شان و شوکت مراد ہے جو عرفا ان جانوروں کے مالکان کو دنیا میں حاصل ہوتی ہے۔
قرآن میں ریل موٹر ہوائی جہاز کا ذکر
آخر میں سواری کے تین جانور گھوڑے خچر گدھے کا خاص طور سے بیان کرنے کے بعد دوسری قسم کی سواریوں کے متعلق بصیغہ استقبال فرمایا۔
(آیت) وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا وہ چیزیں جن کو تم نہیں جانتے اس میں وہ تمام نو ایجاد سواری گاڑیاں بھی داخل ہیں جن کا زمانہ قدیم میں نہ وجود تھا نہ کوئی تصور مثلا ریل، موٹر، ہوائی جہاز وغیرہ جو اب تک ایجاد ہوچکے ہیں وہ تمام چیزیں بھی اس میں داخل ہیں جو آئندہ زمانے میں ایجاد ہوں گی کیونکہ تخلیق ان سب چیزوں کی درحقیقت خالق مطلق ہی کا فعل ہے سائنس قدیم وجدید کا اس میں صرف اتنا ہی کام ہے کہ مختلف کل پرزے بنا لے اور پھر اس میں قدرت الہیہ کی بخشی ہوئی ہوا پانی آگ وغیرہ سے برقی رو پیدا کرلے یا قدرت ہی کے دیئے ہوئے خزانوں میں سے پیڑول نکال کر ان سواریوں میں استعمال کرے سائنس قدیم وجدید مل کر بھی نہ کوئی لوہا پیتل پیدا کرسکتی ہے نہ ایلومونیم قسم کی ہلکی دھاتیں بنا سکتی ہے نہ لکڑی پیدا کرسکتی ہے نہ ہوا اور پانی پیدا کرنا اس کے بس میں ہے اس کا کام اس سے زائد نہیں کہ قدرت الہیہ کی پیدا کی ہوئی قوتوں کا استعمال سیکھ لے دنیا کی ساری ایجادات صرف اسی استعمال کی تفصیل ہیں اس لئے جب ذرا بھی کوئی غور وفکر سے کام لے تو ان سے نئی ایجادات کو تخلیق خالق مطلق کہنے اور تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں
یہاں یہ بات خاص طور سے قابل نظر ہے کہ پچھلی تمام اشیاء کی تخلیق میں لفظ ماضی خلق استعمال فرمایا گیا ہے اور معروف سواریوں کا ذکر کرنے کے بعد بصیغہ مستقبل یخلق ارشاد ہوا ہے اس تعبیر عنوان سے واضح ہوگیا کہ یہ لفظ ان سواریوں اور دوسری اشیاء کے متعلق ہے جو ابھی معرض وجود میں نہیں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اگلے زمانے میں کیا کیا سواریاں اور دوسری اشیاء پیدا کرنا ہیں ان کا اظہار اس مختصر جملے میں فرما دیا۔
حق جل شانہ یہ بھی کرسکتے تھے کہ آئندہ وجود میں آنے والی تمام نئی ایجادات کا نام لے کر ذکر فرما دیتے مگر اس زمانے میں اگر ریل، موٹر طیارہ وغیرہ کے الفاظ ذکر بھی کردیئے جاتے تو اس سے بجز تشویش ذہن کے کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ ان اشیاء کا اس وقت تصور کرنا بھی لوگوں کے لئے آسان نہ تھا اور نہ یہ الفاظ ان چیزوں کے لئے اس وقت کہیں مستعمل ہوتے تھے کہ اس سے کچھ مفہوم سمجھا جاسکے۔
میرے والد ماجد حضرت مولانا محمد یسین صاحب نے فرمایا کہ ہمارے استاذ استاذ الکل حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں ریل کا ذکر موجود ہے اور اسی آیت سے استدلال فرمایا اس وقت تک موٹریں عام نہ ہوئی تھیں اور ہوائی جہاز ایجاد نہ ہوئے تھے اس لئے ریل کے ذکر پر اکتفاء فرمایا۔
مسئلہقرآن کریم نے اول انعام یعنی اونٹ گائے، بکری کا ذکر فرمایا اور ان کے فوائد میں سے ایک اہم فائدہ ان کا گوشت کھانا بھی قرار دیا پھر اس سے الگ کر کے فرمایا۔
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ ان کے فوائد میں سواری لینے اور ان سے اپنی زینت حاصل کرنے کا تو ذکر کیا مگر گوشت کھانے کا یہاں ذکر نہیں کیا اس میں یہ دلالت پائی جاتی ہے کہ گھوڑے، خچر، گدھے کا گوشت حلال نہیں خچر اور گدھے کا گوشت حرام ہونے پر تو جمہور فقہاء کا اتفاق ہے اور ایک مستقل حدیث میں ان کی حرمت کا صراحۃ بھی ذکر آیا ہے مگر گھوڑے کے معاملہ میں حدیث کی دو روایتیں متعارض آئی ہیں ایک سے حلال اور دوسری سے حرام ہونا معلوم ہوتا ہے اسی لئے فقہائے امت کے اقوال اس مسئلے میں مختلف ہوگئے بعض نے حلال قرار دیا بعض نے حرام امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے اسی تعارض دلائل کی وجہ سے گھوڑے کے گوشت کو گدھے اور خچر کی طرح حرام تو نہیں کہا مگر مکروہ قرار دیا (احکام القرآن جصاص)
مسئلہاس آیت سے جمال اور زینت کا جواز معلوم ہوتا ہے اگرچہ تفاخر وتکبر حرام ہیں فرق یہ ہے کہ جمال اور زینت کا حاصل اپنے دل کی خوشی یا اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار ہوتا ہے نہ دل میں اپنے کو اس نعمت کا مستحق سمجھتا ہے اور نہ دوسروں کو حقیر جانتا ہے بلکہ حق تعالیٰ کا عطیہ اور انعام ہونا اس کے پیش نظر ہوتا ہے اور تکبر و تفاخر میں اپنے آپ کو اس نعمت کا مستحق سمجھنا دوسروں کو حقیر سمجھنا پایا جاتا ہے وہ حرام ہے (بیان القرآن)
Top