Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 97
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً١ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
مَنْ : جو۔ جس عَمِلَ : عمل کیا صَالِحًا : کوئی نیک مِّنْ ذَكَرٍ : مرد ہو اَوْ : یا اُنْثٰى : عورت وَهُوَ : جبکہ وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَلَنُحْيِيَنَّهٗ : تو ہم اسے ضرور زندگی دیں گے حَيٰوةً : زندگی طَيِّبَةً : پاکیزہ وَ : اور لَنَجْزِيَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں دیں گے اَجْرَهُمْ : ان کا اجر بِاَحْسَنِ : اس سے بہت بہتر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
جس نے کیا نیک کام مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان پر ہے تو اس کو ہم زندگی دیں گے ایک اچھی زندگی اور بدلے میں دیں گے ان کو حق ان کا بہتر کاموں پر جو کرتے تھے۔
خلاصہ تفسیر
(اس سے پہلی آیات میں ایفاء عہد کی تاکید اور عہد شکنی کی مذمت کا بیان تھا جو ایک خاص عمل ہے اس آیت میں تمام اعمال صالحہ اور عاملین صالحین کا عمومی بیان ہے مضمون آیت کا یہ ہے کہ آخرت کا اجر وثواب اور دنیا کی برکات صرف ایفائے عہد میں منحصر نہیں اور نہ کسی عامل کی تخصیص ہے بلکہ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ) جو شخص بھی کوئی نیک کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو (کیونکہ کافر کے اعمال صالحہ مقبول نہیں) تو ہم اس شخص کو (دنیا میں تو) بالطف زندگی دیں گے اور (آخرت میں) ان کے اچھے کاموں کے عوض میں ان کا اجر دیں گے۔

معارف و مسائل
حیات طیبہ کیا چیز ہے ؟
جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں حیات طیبہ سے مراد دنیا کی پاکیزہ اور بالطف زندگی ہے اور بعض ائمہ تفسیر نے اس سے آخرت کی زندگی مراد لی ہے اور جمہور کی تفسیر کے مطابق بھی اس سے یہ مراد نہیں کہ اس کو کبھی فقر وفاقہ یا بیماری پیش نہ آئے گی بلکہ مراد یہ ہے کہ مومن کو اگر کبھی معاشی تنگی یا کوئی تکلیف بھی پیش آتی ہے تو دو چیزیں اس کو پریشان نہیں ہونے دیتیں ایک قناعت اور سادہ زندگی کی عادت جو تنگدستی میں بھی چل جاتی ہے دوسرے اس کا یہ عقیدہ کہ مجھے اس تنگی اور بیماری کے بدلے میں آخرت کی عظیم الشان دائمی نعمتیں ملنے والی ہیں بخلاف کافر وفاجر کے کہ اگر اس کو تنگدستی اور بیماری پیش آتی ہے تو اس کے لئے کوئی تسلی کا سامان نہیں ہوتا عقل وہوش کھو بیٹھتا ہے بعض اوقات خود کشی کی نوبت آجاتی ہے اور اگر اس کو فراخی عیش بھی نصیب ہو تو اس کو زیادتی کی حرص کسی وقت چین سے نہیں بیٹھنے دیتی وہ کروڑ پتی ہوجاتی ہے تو ارب پتی بننے کی فکر اس کے عیش کو خراب کرتی رہتی ہے۔
ابن عطیہ نے فرمایا کہ مؤمنین صالحین کو حق تعالیٰ دنیا میں بھی وہ فرحت و انبساط اور پر لطف زندگی عطا فرماتے ہیں جو کسی حال میں متغیر نہیں ہوتی تندرستی اور فراخ دستی کے وقت تو ان کی زندگی کا پر لطف ہونا ظاہر ہے ہی خصوصا اس بنا پر کہ بلاضرورت مال کو بڑھانے کی حرص ان میں نہیں ہوتی جو انسان کو ہر حال میں پریشان رکھتی ہے اور تنگدستی یا بیماری بھی پیش آئے تو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر ان کا مکمل یقین اور مشکل کے بعد آسانی کلفت کے بعد راحت ملنے کی قوی امید ان کی زندگی کو بےلطف نہیں ہونے دیتی جیسے کاشتکار کھیت بولے اور اس کی پرورش کے وقت اس کو کتنی ہی تکلیفیں پیش آجائیں سب کو اس لئے راحت محسوس کرتا ہے کہ چند روز کے بعد اس کا بڑا صلہ اس کو ملنے والا ہے تاجر اپنی تجارت میں ملازم اپنی ڈیوٹی ادا کرنے میں کیسی کیسی محنت ومشقت بلکہ بعض اوقات ذلت بھی برداشت کرتا ہے مگر اس لئے خوش رہتا ہے کے چند روز کے بعد اس کو تجارت کا بڑا نفع یا ملازمت کی تنخواہ ملنے کا یقین ہوتا ہے مومن کا بھی یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ مجھے ہر تکلیف پر اجر مل رہا ہے اور آخرت میں اس کا بدلہ دائمی عظیم الشان نعمتوں کی صورت میں ملے گا اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس لئے یہاں کے رنج و راحت اور سرد وگرم سب کو آسانی سے برداشت کرلیتا ہے اس کی زندگی ایسے حالات میں بھی مشوش اور بےلطف نہیں ہوتی یہی وہ حیات طیبہ ہے جو مومن کو دنیا میں نقد ملتی ہے۔
Top