بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندہ کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کو گھیر رکھا ہے ہماری برکت نے تاکہ دکھلائیں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے وہی ہے سننے والا دیکھنے والا۔
خلاصہ تفسیر
وہ ذات پاک ہے جو اپنے بندہ (محمد ﷺ کو شب کے وقت مسجد حرام (یعنی مسجد کعبہ) سے مسجداقصی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے آس پاس (کہ ملک شام ہے) ہم نے (دینی اور دنیوی) برکتیں کر رکھی ہیں (دینی برکت یہ ہے کہ وہاں بکثرت انبیاء (علیہم السلام) مدفون ہیں اور دنیوی برکت یہ ہے کہ وہاں باغات اور نہروں چشموں اور پیداوار کی کثرت ہے غرض اس مسجد اقصی تک عجیب طور پر اس واسطے) لے گیا تاکہ ہم ان کو اپنے کچھ عجائبات قدرت دکھلا دیں (جن میں بعض تو خود وہاں کے متعلق ہیں مثلا اتنی بڑی مسافت کو بہت تھوڑے سے وقت میں طے کرلینا اور سب انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقات کرنا اور ان کی باتیں سننا وغیرہ اور بعض آگے کے متعلق ہیں مثلا آسمانوں پر جانا اور وہاں عجائبات کا مشاہدہ کرنا) بیشک اللہ تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے دیکھنے والے ہیں (چونکہ رسول کریم ﷺ کے اقوال کو سنتے اور احوال کو دیکھتے تھے اس کے مناسب ان کو یہ خاص امتیاز اور اعزاز بخشا اور اپنے قرب خاص کا وہ مقام عطا کیا جو کسی کو نہیں ملا)

معارف و مسائل
اس آیت میں واقعہ معراج کا بیان ہے جو ہمارے رسول کریم ﷺ کا ایک خصوصی اعزاز اور امتیازی معجزہ ہے لفظ اَسْرٰى اسراء سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی رات کو لے جانا ہیں اس کے بعد لَيْلًا کے لفظ سے صراحۃ بھی اس مفہوم کو واضح کردیا اور لفظ لَيْلًا کے نکرہ لانے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اس تمام واقعہ میں پوری رات بھی صرف نہیں بلکہ رات کا ایک حصہ صرف ہوا ہے مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کا سفر جس کا ذکر اس آیت میں ہے اس کو اسراء کہتے ہیں اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے اسراء اس آیت کی نص قطعی سے ثابت ہے اور معراج کا ذکر سورة نجم کی آیات میں ہے اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے بِعَبْدِهٖ اس مقام اعزازو اکرام میں لفظ بِعَبْدِهٖ ایک خاص محبوبیت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ حق تعالیٰ کس کو خود فرما دیں کہ یہ میرا بندہ ہے اس سے بڑھ کر کسی بشر کا بڑا اعزاز نہیں ہوسکتا حضرت حسن دہلوی نے خوب فرمایا۔
بندہ حسن بصد زبان گفت کہ بندہ توام تو بزبان خود بگوبندہ نواز کیستی
یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک دوسری آیت میں (آیت) عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ الَّذِین الخ فرما کر اپنے مقبولان بارگاہ کا اعزاز بڑھانا مقصود ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اللہ کا عبد کامل بن جائے اس لئے کہ خصوصی اعزاز کے مقام پر آپ کی بہت سی صفات کمال میں سے صفت عبدیت کو اختیار کیا گیا اور اس لفظ سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی مقصود ہے کہ اس حیرت انگیز سفر سے جس میں اول سے آخر تک سب فوق العادت معجزات ہی ہیں کسی کو خدائی کا وہم نہ ہوجائے جیسے عیسیٰ ؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے سے عیسائیوں کو دھوکہ لگا ہے اس سے لفظ عَبْد کہہ کر یہ بتلا دیا کہ ان تمام صفات و کمالات اور معجزات کے باوجود آنحضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے ہی ہیں خدا نہیں۔
معراج کے جسمانی ہونے پر قرآن وسنت کے دلائل اور اجماع
قرآن مجید کے ارشادات اور احادیث متواترہ سے جن کا ذکر آگے آتا ہے ثابت ہے کہ اسراء و معراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں تھا بلکہ جسمانی تھا جیسے عام انسان سفر کرتے ہیں قرآن کریم کے پہلے ہی لفظ سُبْحٰنَ میں اس طرف اشارہ موجود ہے کیونکہ یہ لفظ تعجب اور کسی عظیم الشان امر کے لئے استعمال ہوتا ہے اگر معراج صرف روحانی بطور خواب کے ہوتی تو اس میں کون سی عجیب بات ہے خواب تو ہر مسلمان بلکہ ہر انسان دیکھ سکتا ہے کہ میں آسمان پر گیا فلاں فلاں کام کئے۔
دوسرا اشارہ لفظ عَبْد سے اسی طرف ہے کیونکہ عَبْد صرف روح نہیں بلکہ جسم و روح کے مجموعہ کا نام ہے اس کے علاوہ۔
واقعہ معراج آنحضرت محمد ﷺ نے حضرت ام ہانی کو بتلایا تو انہوں نے حضور ﷺ کو یہ مشورہ دیا کہ آپ اس کا کسی سے ذکر نہ کریں ورنہ لوگ اور زیادہ تکذیب کریں گے اگر معاملہ خواب کا ہوتا تو اس میں تکذیب کی کیا بات تھی۔
پھر جب آنحضرت محمد ﷺ نے لوگوں پر اس کا اظہار کیا تو کفار مکہ نے تکذیب کی اور مذاق اڑایا یہاں تک کہ بعض نو مسلم اس خبر کو سن کر مرتد ہوگئے اگر معاملہ خواب کا ہوتا تو ان معاملات کا کیا امکان تھا اور یہ بات اس کے منافی نہیں کہ آپ کو اس سے پہلے اور بعد میں کوئی معراج روحانی بصورت خواب بھی ہوئی ہو جمہور امت کے نزدیک آیت قرآنی (آیت) وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ۔ میں الرُّءْيَا سے مراد رویت ہے مگر اس کو بلفظ الرُّءْيَا (جو اکثر خواب دیکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے) تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس معاملہ کو تشبیہ کے طور پر رؤ یا کہا گیا ہو کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی خواب دیکھ لے اور اگر رؤ یا کے معنی خواب ہی کے لئے جائیں تو یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ واقعہ معراج جسمانی کے علاوہ اس سے پہلے یا پیچھے یہ معراج روحانی بطور خواب بھی ہوئی ہو اس لئے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ام المؤ منین ؓ سے جو اس کا واقعہ خواب ہونا منقول ہے وہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ معراج جسمانی نہ ہوئی ہو۔
تفسیر قرطبی میں ہے کہ احادیث اسراء کی متواتر ہیں اور نقاش میں بیس صحابہ کرام ؓ اجمعین کی روایات اس باب میں نقل کی ہیں اور قاضی عیاض نے شفاء میں اور زیادہ تفصیل دی ہے (قرطبی)
اور امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ان تمام روایات کو پوری جرح وتعدیل کے ساتھ نقل کیا ہے پھر پچیس صحابہ کرام ؓ اجمعین کے اسماء ذکر کئے ہیں جن سے یہ روایات منقول ہیں ان کے اسماء یہ ہیں 1 حضرت عمر ابن خطاب 2 علی مرتضی 3 ابن مسعود 4 ابوذرغفاری 5 مالک بن صعصیہ 6 ابوہریرہ 7 ابو سعید 8 ابن عباس 9 شداد بن اوس 10 ابی بن کعب 11 عبد الرحمن بن قرظ 12 ابوحیہ 13 ابو لیلے 14 عبداللہ بن عمر 15 جابر بن عبداللہ 16 حذیفہ بن یمان 17 بریدہ 18 ابو ایوب انصاری 19 ابو امامہ 20 سمرہ بن جندب 21 ابو الحمراء 22 صہیب الرومی 23 ام ہانی 24 عائشہ ام المؤ منین 25 اسماء بنت ابی بکر ؓ اجمعین اس کے بعد ابن کثیر نے فرمایا۔
فحدیث الاسراء اجمع علیہ المسلمون واعرض عنہ الزنادقۃ والملحدون (ابن کثیر) واقعہ اسراء کی حدیث پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے صرف ملحد وزندیق لوگوں نے اس کو نہیں مانا،۔
مختصر واقعہ معراج ابن کثیر کی روایت سے
امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں آیت مذکورہ کی تفسیر اور احادیث متعلقہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ حق بات یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو سفر اسراء بیداری میں پیش آیا خواب میں نہیں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک یہ سفر براق پر ہوا جب دروازہ بیت المقدس پر پہنچے تو برق کو دروازہ کے قریب باندھ دیا اور آپ مسجد بیت المقدس میں داخل ہوئے اور اس کے قبلہ کی طرف تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں ادا فرمائیں اس کے بعد ایک زینہ لایا گیا جس میں نیچے سے اوپر جانے کے درجے بنے ہوئے تھے اس زینہ کے ذریعہ آپ پہلے آسمان پر تشریف لے گئے اس کے بعد باقی آسمانوں پر تشریف لے گئے (اس زینہ کی حقیقت تو اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے کہ کیا اور کیسا تھا آج کل بھی زینہ کی بہت سی قسمیں دینا میں رائج ہیں ایسے زینے بھی ہیں جو خود حرکت میں لفٹ کی صورت کے زینے بھی ہیں اس معجزانہ زینہ کے متعلق کسی شک وشبہ میں پڑنے کا کوئی مقام نہیں) ہر آسمان میں وہاں کے فرشتوں نے آپ کا استقبال کیا اور ہر آسمان میں ان انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقات ہوئی جن کا مقام کسی معین آسمان میں ہے مثلا چھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ ؑ اور ساتویں میں حضرت خلیل اللہ ابراہیم ؑ سے ملاقات ہوئی پھر آپ ان تمام انبیاء (علیہم السلام) کے مقامات سے بھی آگے تشریف لے گئے اور ایک ایسے میدان میں پہنچے جہاں قلم تقدیر کے لکھنے کی آواز سنائی دے رہی تھی اور آپ نے سدرۃ المنتہی کو دیکھا جس پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے سونے کے پروانے اور مختلف رنگ کے پروانے گر رہے تھے اور جس کو اللہ کے فرشتوں نے گھیرا ہوا تھا اسی جگہ حضرت جبرائیل ؑ کو آنحضرت محمد ﷺ نے ان کی اصلی شکل میں دیکھا جن کے چھ سو بازو تھے اور وہیں پر ایک رفرف سبز رنگ کا دیکھا جس نے افق کو گھیرا ہوا تھا رفرف مسند سبز ہرے رنگ کی پالکی اور آپ نے بیت المعمور کو بھی دیکھا جس کے پاس بانی کعبہ حضرت ابراہیم ؑ دیوار سے کمر لگائے بیٹھے ہوئے تھے اس بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جن کی باری دوبارہ داخل ہونے کی قیامت تک نہیں آتی اور آنحضرت محمد ﷺ نے جنت اور دوزخ کا بچشم خود معائنہ فرمایا اس وقت آپ کی امت پر اول پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا حکم ملا پھر تخفیف کر کے پانچ کردی گئیں اس سے تمام عبادات کے اندر نماز کی خاص اہمیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
اس کے بعد آپ واپس بیت المقدس میں اترے اور جن انبیاء (علیہم السلام) کی ساتھ مختلف آسمانوں میں ملاقات ہوئی تھی وہ بھی آپ کے ساتھ اترے (گویا) آپ کو رخصت کرنے کے لئے بیت المقدس تک ساتھ آئے اس وقت آپ نے نماز کا وقت ہوجانے پر سب انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ نماز ادا فرمائی یہ بھی احتمال ہے کہ یہ نماز اسی دن صبح کی نماز ہو ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ امامت انبیاء (علیہم السلام) کا واقعہ بعض حضرات کے نزدیک آسمان پر جانے سے پہلے پیش آیا تھا لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ واقعہ واپسی کے بعد ہوا کیونکہ آسمانوں پر انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقات کے واقعہ میں یہ منقول ہے کہ سب انبیاء (علیہم السلام) سے جبرائیل امین نے آپ کا تعارف کرایا اگر واقعہ امامت پہلے ہوچکا ہوتا تو یہاں تعارف کی ضرورت نہ ہوتی اور یوں بھی ظاہر یہی ہے کہ اس سفر کا اصل مقصد ملا اعلیٰ میں جانے کا تھا پہلے اسی کو پورا کرنا اقرب معلوم ہوتا ہے پھر جب اس اصلی کام سے فراغت ہوئی تو تمام انبیاء (علیہم السلام) آپ کے ساتھ مشایعت (رخصت) کے لئے بیت المقدس تک آئے اور آپ کو جبرئیل امین کے اشارہ سے سب کا امام بنا کر آپ کی سیادت اور سب پر فضیلت کا عملی ثبوت دیا گیا۔
اس کے بعد آپ بیت المقدس سے رخصت ہوئے اور براق پر سوار ہو کر اندھیرے وقت میں مکہ معظمہ پہنچ گئے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
واقعہ معراج کے متعلق ایک غیر مسلم کی شہادت
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حافظ ابو نعیم اصبہانی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں محمد بن عمر واقدی کی سند سے بروایت محمد بن کعب قرظی یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ۔
رسول کریم ﷺ نے شاہ روم قیصر کے پاس اپنا نامہ مبارک دے کر حضرت دحیہ ابن خلیفہ کو بھیجا اس کے بعد حضرت دحیہ ؓ کے خط پہونچانے اور شاہ روم تک پہنچنے اور اس کے صاحب عقل و فراست ہونے کا تفصیلی واقعہ بیان کیا (جو صحیح بخاری اور حدیث کی سب معتبر کتب میں موجود ہے جس کے آخر میں ہے کہ شاہ روم ہرقل نے نامہ مبارک پڑھنے کے بعد آنحضرت محمد ﷺ کے حالات کی تحقیق کرنے کے لئے عرب کے ان لوگوں کو جمع کیا جو اس وقت ان کے ملک میں بغرض تجارت آئے ہوئے تھے شاہی حکم کے مطابق ابو سفیان ابن حرب اور ان کے رفقاء جو اس وقت مشہور تجارتی قافلہ لے کر شام میں آئے ہوئے تھے وہ حاضر کئے گئے شاہ ہرقل نے ان سے سوالات کئے جن کی تفصیل صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں موجود ہے ابوسفیان کی دلی خواہش یہ تھی کہ وہ اس موقع پر رسول کریم ﷺ کے متعلق کچھ ایسی باتیں بیان کریں جن سے آپ کی حقارت اور بےحیثیت ہونا ظاہر ہو مگر ابو سفیان کہتے ہیں کہ مجھے اپنے اس ارادہ سے کوئی چیز اس کے سوا مانع نہیں تھی کہ مبادا میری زبان سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس کا جھوٹ ہونا کھل جائے اور میں بادشاہ کی نظر سے گر جاؤں اور میرے ساتھی بھی ہمیشہ مجھے جھوٹا ہونے کا طعنہ دیا کریں البتہ مجھے اس وقت خیال آیا کہ اس کے سامنے واقعہ معراج بیان کروں جس کا جھوٹ ہونا بادشاہ خود سمجھ لے گا تو میں نے کہا کہ میں ان کا ایک معاملہ آپ سے بیان کرتا ہوں جس کے متعلق آپ خود معلوم کرلیں گے کہ وہ جھوٹ ہے ہرقل نے پوچھا وہ کیا واقعہ ہے ابوسفیان نے کہا کہ یہ مدعی نبوت یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک رات میں مکہ مکرمہ سے نکلے اور آپ کی اس مسجد بیت المقدس میں پہنچے اور پھر اسی رات میں صبح سے پہلے مکہ مکرمہ میں ہمارے پاس پہنچ گئے۔
ایلیاء (بیت المقدس) کا سب سے بڑا عالم اس وقت شاہ روم ہرقل کے سرہانے پر قریب کھڑا ہوا تھا اس نے یبان کیا کہ میں اس رات سے واقف ہوں شاہ روم اس کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ آپ کو اس کا علم کیسے اور کیونکر ہوا اس نے عرض کیا کہ میری عادت تھی کہ میں رات کو اس وقت تک سوتا نہیں تھا جب تک بیت المقدس کے تمام دروازے بند نہ کر دوں اس رات میں نے حسب عادت تمام دروازے بند کردیئے مگر ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہوسکا تو میں نے اپنے عملہ کے لوگوں کو بلایا انہوں نے مل کر کوشش کی مگر وہ ان سے بھی بند نہ ہوسکا دروازے کے کواڑ اپنی جگہ سے حرکت نہ کرسکے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ہم کسی پہاڑ کو ہلا رہے ہیں میں نے عاجز ہو کر کاریگروں اور نجاروں کو بلوایا انہوں نے دیکھ کر کہا کہ ان کو اڑوں کے اوپر دروازہ کی عمارت کا بوجھ پڑگیا ہے اب صبح سے پہلے اس کے بند ہونے کی کوئی تدبیر نہیں صبح کو ہم دیکھیں گے کہ کس طرح کیا جاوے میں مجبور ہو کر لوٹ آیا اور دونوں کواڑ اس دروازے کے کھلے رہے صبح ہوتے ہی میں پھر اس دروازے پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ دروازہ مسجد کے پاس ایک پتھر کی چٹان میں روزن کیا ہوا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کوئی جانور باندھ دیا گیا ہے اس وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ آج اس دروازہ کو اللہ تعالیٰ نے شاید اس لئے بند ہونے سے روکا ہے کہ کوئی نبی یہاں آنے والے تھے اور پھر بیان کیا کہ اس رات آپ نے ہماری مسجد میں نماز بھی پڑھی ہے اس کے بعد اور تفصیلات بیان کی ہیں (ابن کثیر ص 24 ج 3)
اسراء و معراج کی تاریخ
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ معراج کی تاریخ میں روایات بہت مختلف ہیں موسیٰ بن عقبہ کی روایت یہ ہے کہ یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے چھ ماہ قبل پیش آیا اور حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کا واقعہ بعثت نبوی کے سات سال بعد ہوا ہے
بعض روایات میں ہے کہ واقعہ معراج بعثت نبوی سے پانچ سال بعد میں ہوا ہے ابن اسحاق کہتے ہیں کہ واقعہ معراج اس وقت پیش آیا جبکہ اسلام عام قبائل عرب میں پھیل چکا تھا ان تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ واقعہ معراج ہجرت مدینہ سے کئی سال پہلے کا ہے۔
حربی کہتے ہیں کہ واقعہ اسراء و معراج ربیع الثانی کی ستائیسویں شب میں ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا ہے اور ابن قاسم ذہبی کہتے ہیں کہ بعثت سے اٹھارہ مہینے کے بعد واقعہ پیش آیا ہے حضرات محدثین نے روایات مختلفہ ذکر کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کن چیز نہیں لکھی اور مشہور عام طور پر یہ ہے کہ ماہ رجب کی ستائیسویں شب شب معراج ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
مسجد حرام اور مسجد اقصے
حضرت ابوذر غفاری ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد کون سی ہے تو آپ نے فرمایا کہ مسجد حرام پھر میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد کون سی تو آپ نے فرمایا مسجد اقصے میں نے دریافت کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے تو آپ نے فرمایا چالیس سال پھر فرمایا کہ (مسجدوں کی ترتیب تو یہ ہے) لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ساری زمین کو مسجد بنادیا ہے جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہیں نماز ادا کرلیا کرو (رواہ مسلم)
امام تفسیر مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی جگہ کو پوری زمین سے دوہزار سال پہلے بنایا ہے اور اس کی بنیادیں ساتویں زمین کے اندر تک پہنچی ہوئی ہیں اور مسجد اقصے کو حضرت سلیمان ؑ نے بنایا ہے (رواہ النسائی باسناد صحیح عن عبداللہ بن عمر) تفسیر قرطبی ص 137 ج 4۔
اور مسجد حرام اس مسجد کا نام ہے جو بیت اللہ کے گرد بنی ہوئی ہے اور بعض اوقات پورے حرم کو بھی مسجد حرام سے تعبیر کیا جاتا ہے اس دوسرے معنی کے اعتبار سے دو روایتوں کا یہ تعارض بھی رفع ہوجاتا ہے کہ بعض روایات میں آپ کا اسراء کے لئے تشریف لیجانا حضرت ام ہانی کے مکان سے منقول ہے اور بعض میں حطیم بیت اللہ سے اگر مسجد حرام کے عام معنی لئے جائیں تو یہ کچھ مستبعد نہیں کہ پہلے آپ ام ہانی کے مکان میں ہوں وہاں سے چل کر حطیم کعبہ میں تشریف لائے پھر وہاں سے سفر اسراء کی ابتدا ہوئی واللہ اعلم۔
مسجد اقصے اور ملک شام کی برکات
آیت میں بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ میں حَوْلَ سے مراد پوری زمین شام ہے ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش سے دریائے فرات تک مبارک زمین بنائی ہے اور اس میں سے فلسطین کی زمین کو تقدس خاص عطا فرمایا ہے (روح المعانی)
اس کی برکات دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی دینی برکات تو یہ ہیں کہ وہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اور تمام انبیاء (علیہم السلام) کا مسکن و مدفن ہے اور دنیوی برکات اس کی زمین کا سرسبز ہونا اور اس میں عمدہ چشمے نہریں باغات وغیرہ کا ہونا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ملک شام تو تمام شہروں میں سے میرا منتخب خطہ ہے اور میں تیری طرف اپنے منتخب بندوں کو پہونچاؤں گا (قرطبی) اور مسند احمد میں حدیث ہے کہ دجال ساری زمین میں پھرے گا مگر چار مسجدوں تک اس کی رسائی نہ ہوگی۔ 1 مسجد مدینہ 2 مسجد مکہ مکرمہ۔ 3 مسجد اقصی 4 مسجد طور
Top