Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 24
وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ
وَاخْفِضْ : اور جھکا دے لَهُمَا : ان دونوں کے لیے جَنَاحَ : بازو الذُّلِّ : عاجزی مِنَ : سے الرَّحْمَةِ : مہربانی وَقُلْ : اور کہو رَّبِّ : اے میرے رب ارْحَمْهُمَا : ان دونوں پر رحم فرما كَمَا : جیسے رَبَّيٰنِيْ : انہوں نے میری پرورش کی صَغِيْرًا : بچپن
اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کر کر نیاز مندی سے اور کہہ اے رب ان پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا
چوتھا حکم (آیت) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاح الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ جس کا حاصل یہ ہے کہ ان کے سامنے اپنے آپ کو عاجز و ذلیل آدمی کی صورت میں پیش کرے جیسے غلام آقا کے سامنے جناح کے معنی بازو کے ہیں لفظی معنی یہ ہیں کہ والدین کے لئے اپنے بازو عاجزی اور ذلت کے ساتھ جھکائے آخر میں من الرحمۃ کے لفظ سے ایک تو اس پر متنبہ کیا کہ والدین کے ساتھ یہ معاملہ محض دکھاوے کا نہ ہو بلکہ قلبی رحمت وعزت کی بنیاد پر ہو دوسرے شاید اشارہ اس طرف بھی ہے کہ والدین کے سامنے ذلت کے ساتھ پیش آنا حقیقی عزت کا مقدمہ ہے کیونکہ یہ واقعی ذلت نہیں بلکہ اس کا سبب شفقت و رحمت ہے۔
پانچواں حکم وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ والدین کی پوری راحت رسانی تو انسان کے بس کی بات نہیں اپنی مقدور بھر راحت رسانی کی فکر کے ساتھ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بھی دعا کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کی سب مشکلات کو آسان اور تکلیفوں کو دور فرمائے یہ آخری حکم ایسا وسیع اور عام ہے کہ والدین کی وفات کے بعد بھی جاری ہے جس کے ذریعہ وہ ہمیشہ والدین کی خدمت کرسکتا ہے۔
مسئلہوالدین اگر مسلمان ہوں تو ان کے لئے رحمت کی دعاء ظاہر ہے لیکن اگر وہ مسلمان نہ ہوں تو ان کی زندگی میں یہ دعا اس نیت سے جائز ہوگی کہ ان کو دنیوی تکلیف سے نجات ہو اور ایمان کی توفیق ہو مرنے کے بعد ان کے لئے دعاء رحمت جائز نہیں (قرطبی ملخصا)
ایک واقعہ عجیبہقرطبی نے اپنی اسناد متصل کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ اسی وقت جبرائیل امین تشریف لائے اور رسول کریم ﷺ سے کہا کہ جب اس کا باپ آجائے تو آپ اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں خود اس کے کانوں نے بھی اس کو نہیں سنا جب یہ شخص اپنے والد کو لے کر پہنچا تو آپ نے والد سے کہا کہ کیا بات ہے ؟ آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں والد نے عرض کیا کہ آپ اسی سے یہ سوال فرمائیں کہ میں اس کی پھوپھی خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہاں خرچ کرتا ہوں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایہ (جس کا مطلب یہ تھا کہ جب حقیقت معلوم ہوگئی اب اور کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں) اس کے بعد اس کے والد سے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں جن کو ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمیں ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ آپ پر ہمارا ایمان اور یقین بڑھا دیتے ہیں (جو بات کسی نے نہیں سنی اس کی آپ کو اطلاع ہوگئی جو ایک معجزہ ہے) پھر اس نے عرض کیا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے چند اشعار دل میں کہے تھے جن کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا آپ نے فرمایا کہ وہ ہمیں سناؤ اس وقت اس نے یہ اشعار ذیل سنائے۔
غذوتک مولودا ومنتک یافعا، تعل بما اجنی علیک وتنھل۔
میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد تمہاری ذمہ داری اٹھائی تمہارا سب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا۔
اذا لیلۃ ضافتک بالسقم لم ابت، لسقک الا ساھرا اتململ۔
جب کسی رات میں تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے تمام رات تمہاری بیماری کے سبب بیداری اور بیقراری میں گذاری۔
کأنی انا المطروق دونک بالذی، طرقت بہ دونی فعینی تھمل۔
گویا کہ تمہاری بیماری مجھے ہی لگی ہے تمہیں نہیں جس کی وجہ سے میں تمام شب روتا رہا۔
تخاف الردی نفسی علیک وانھا، لتعلم ان الموت وقت مؤ جل۔
میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے پہلے پیچھے نہیں ہوسکتی۔
فلما بلغت السن والغایۃ التی، الیہا مدی ماکنت فیک اؤ مل۔
پھر جب تم اس عمر اور اس حد تک پہنچ گئے جس کی میں تمنا کیا کرتا تھا۔
جعلت جزائی غلظۃ و فظاظۃ، کانک انت المنعم المتفضل۔
تو تم نے میرا بدلہ سختی اور سخت کلامی بنادیا گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو۔
فلیتک اذلم ترع حق ابوتی، فعلت کما الجار المصاقب یفعل۔
کاش اگر تم سے میرے باپ ہونے کا حق ادا نہیں ہوسکتا تو کم از کم ایسا ہی کرلیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔
فاولیتنی حق الجرار ولم تکن، علی بمال دون مالک تبخل۔
تو کم از کم مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور خود میرے ہی مال میں میرے حق میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔
رسول کریم ﷺ نے یہ اشعار سننے کے بعد بیٹے کا گریبان پکڑ لیا اور فرمایا انت ومالک لابیک یعنی جا تو بھی اور تیرا مال بھی سب باپ کا ہے (تفسیر قرطبی ص 246 ج 1) یہ اشعار عربی ادب کی مشہور کتاب حماسہ میں بھی نقل کئے گئے مگر ان کو امیہ بن ابی الصلت شاعر کی طرف منسوب کیا ہے اور بعض نے کہا کہ یہ عبدالاعلی کے اشعار ہیں بعض نے ان کی نسبت ابوالعباس اعمی کی طرف کی ہے (حاشیہ قرطبی)
Top