Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 8
عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یَّرْحَمَكُمْ١ۚ وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا١ۘ وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا
عَسٰي : امید ہے رَبُّكُمْ : تمہارا رب اَنْ : کہ يَّرْحَمَكُمْ : وہ تم پر رحم کرے وَاِنْ : اور اگر عُدْتُّمْ : تم پھر (وہی) کرو گے عُدْنَا : ہم وہی کرینگے وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنایا جَهَنَّمَ : جہنم لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے حَصِيْرًا : قید خانہ
بعید نہیں تمہارے رب سے کہ رحم کرے تم پر اور اگر پھر وہی کرو گے تو ہم پھر وہی کریں گے اور کیا ہے ہم نے دوزخ کو قید خانہ کافروں کا
ان دونوں واقعات کے ذکر کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان معاملات میں اپنا ضابطہ بیان فرما دیا وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا یعنی اگر تم پھر نافرمانی اور سرکشی کی طرف لوٹو گے تو ہم پھر اس طرح کی سزاء و عذاب تم پر لوٹا دیں گے یہ ضابطہ قیامت تک کے لئے ارشاد ہوا ہے اور اس کے مخاطب وہ بنی اسرائیل تھے جو رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں موجود تھے جس میں اشارہ کردیا گیا ہے کہ جس طرح پہلے شریعت موسویہ کی مخالفت سے اور دوسری مرتبہ شریعت عیسویہ کی مخالفت سے تم لوگ سزا و عذاب میں گرفتار ہوئے تھے اب تیسرا دور شریعت محمدیہ کا ہے جو قیامت تک چلے گا اس کی مخالفت کرنے کا بھی وہی انجام ہوگا چناچہ ایسا ہی ہوا کہ ان لوگوں نے شریعت محمدیہ اور اسلام کی مخالفت کی تو مسلمانوں کے ہاتھوں جلا وطن اور ذلیل و خوار ہوئے اور بالآخر انکے قبلہ بیت المقدس پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوا فرق یہ رہا کہ پیچھلے بادشاہوں نے ان کو بھی ذلیل و خوار کیا تھا اور ان کے قبلہ بیت المقدس کی بےحرمتی بھی کی تھی اب مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو مسجد بیت المقدس جو صدیوں سے منہدم اور غیر آباد پڑی تھی اس کو از سر نو تعمیر کیا اور اس قبلہ انبیاء کے احترام کو بحال کیا۔
واقعات بنی اسرائیل مسلمانوں کے لئے عبرت میں موجودہ واقعہ بیت المقدس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے
بنی اسرائیل کے یہ واقعات قرآن کریم میں بیان کرنے اور مسلمانوں کو سنانے سے بظاہر مقصد یہی ہے کہ مسلمان بھی اس ضابطہ الہیہ سے مستثنی نہیں ہیں دنیا ودین میں ان کی عزت و شوکت اور مال و دولت اطاعت خداوندی کے ساتھ وابستہ ہیں جب وہ اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت سے انحراف کریں گے تو ان کے دشمنوں اور کافروں کو ان پر غالب اور مسلط کردیا جائے گا جن کے ہاتھوں ان کے معاہدہ ومساجد کی بےحرمتی بھی ہوگی۔
آج کل جو حادثہ فاجعہ بیت المقدس پر یہودیوں کے قبضہ کا اور پھر اس کو آگ لگانے کا سارے عالم اسلام کو پریشان کئے ہوئے ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ اسی قرآنی ارشاد کی تصدیق ہو رہی ہے مسلمانوں نے خدا و رسول کو بھلایا آخرت سے غافل ہو کر دنیا کی شان و شوکت میں لگ گئے اور قرآن وسنت کے احکام سے بیگانہ ہوگئے تو وہ ہی ضابطہ قدرت الہیہ سامنے آیا کہ کروڑوں عربوں پر چند لاکھ یہودی غالب آگئے انہوں نے ان کی جان ومال کو بھی نقصان پہنچایا اور شریعت اسلام کی رو سے دنیا کی تین عظیم الشان مسجدوں میں سے ایک جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کا قبلہ رہا ہے وہ ان سے چھین لیا گیا اور ایک ایسی قوم غالب آگئی جو دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل و خوار سمجھی جاتی رہی ہے یعنی یہود اس پر مزید مشاہدہ ہے کہ وہ قوم نہ تعداد میں مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت رکھتی ہے اور نہ مسلمانوں کے مجموعی موجودہ سامان حرب کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ واقعہ یہود کو کوئی عزت کا مقام نہیں دیتا البتہ مسلمانوں کے لئے ان کی سرکشی کی سزا ضرور ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ جو کچھ ہوا ہماری بداعمالیوں کی سزاء کے طور پر ہوا اور اس کا علاج بجز اس کے کچھ نہیں کہ ہم پھر اپنی بداعمالیوں پر نادم ہو کر سچی توبہ کریں احکام الہیہ کی اطاعت میں لگ جائیں سچے مسلمان بنیں غیروں کی نقالی اور غیروں پر اعتماد کے گناہ عظیم سے باز آجائیں تو حسب وعدہ ربانی انشاء اللہ تعالیٰ بیت المقدس اور فلسطین پھر ہمارے قبضہ میں آئے گا مگر افسوس یہ ہے کہ آج کل کے عرب حکمران اور وہاں کے عام مسلمان اب تک بھی اس حقیقت پر متنبہ نہیں ہوئے وہ اب بھی غیروں کی امداد پر سہارا لگائے ہوئے بیت المقدس کی واپسی کے پلان اور نقشے بنا رہے ہیں جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا فالی اللہ المشتکی۔
وہ اسلحہ اور سامان جس سے بیت المقدس اور فلسطین پھر مسلمانوں کو واپس مل سکتا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف انابت ورجوع آخرت پر یقین احکام شرعیہ کا اتباع اپنی معاشرت اور سیاست میں غیروں پر اعتماد اور ان کی نقالی سے اجتناب اور پھر اللہ پر بھروسہ کر کے خالص اسلامی اور شرعی جہاد ہے اللہ تعالیٰ ہمارے عرب حکمرانوں اور دوسرے مسلمانوں کو اس کی توفیق عطا فرما دیں
ایک عجیب معاملہاللہ تعالیٰ نے اس زمین میں اپنی عبادت کے لئے دو جگہوں کو عبادت کرنے والوں کا قبلہ بنایا ہے ایک بیت المقدس دوسرا بیت اللہ مگر قانون قدرت دونوں کے متعلق الگ الگ ہے بیت اللہ کی حفاظت اور کفار کا اس پر غالب نہ آنا یہ اللہ نے خود اپنی ذمہ لے لیا ہے اس کا نتیجہ وہ واقعہ فیل ہے جو قرآن کریم کی سورة فیل میں ذکر کیا گیا ہے کہ یمن کے نصرانی بادشاہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تو اللہ نے معہ اس کے ہاتھیوں کی فوج کے بیت اللہ کے قریب تک جانے سے پہلے ہی پرندے جانوروں کے ذریعہ ہلاک و برباد کردیا۔
لیکن بیت المقدس کے متعلق یہ قانون نہیں بلکہ آیات مذکورہ سے معلوم ہوا ہے کہ جب مسلمان گمراہی اور معاصی میں مبتلا ہوں گے تو ان کی سزا کے طور پر ان سے یہ قبلہ بھی چھین لیا جائے گا اور کفار اس پر غالب آجائیں گے۔
کافر بھی اللہ کے بندے ہیں مگر اس کے مقبول نہیں
مذکور الصدر پہلے واقعہ میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب اہل دین فتنہ و فساد پر اتر آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنے ایسے بندوں کو مسلط کر دینگے جو ان کے گھروں میں گھس کر ان کو قتل و غارت کریں گے اس جگہ قرآن کریم نے لفظ عِبَادًا لَّنَآ فرمایا ہے عِبَادَنَا نہیں کہا حالانکہ وہ مختصر تھا حکمت یہ ہے کہ کسی بندہ کی اضافت ونسبت اللہ کی طرف ہوجانا اس کے لئے سب سے بڑا اعزاز ہے جیسا کہ اسی سورة کے شروع میں اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ کے تحت میں یہ بتلایا جا چکا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو جو انتہائی اعزاز اور غایت قرب شب معراج میں نصیب ہوا قرآن نے اس واقعہ کے بیان میں رسول کریم ﷺ کا اسم گرامی یا کوئی صفت بیان کرنے کے بجائے صرف بِعَبْدِهٖ کہہ کر یہ بتلا دیا کہ انسان کا آخری کمال اور انتہائی اونچا مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنا بندہ کہہ کر نوازیں آیت مذکورہ میں جن لوگوں سے بنی اسرائیل کی سزاء کا کام لیا گیا یہ خود بھی کافر تھے اس لئے حق تعالیٰ نے ان کو عِبَادَنَا کے لفظ سے تعبیر فرمانے کے بجائے اضافت ونسبت کو توڑ کر عِبَادًا لَّنَآ فرمایا جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تکوینی طور پر تو سارے ہی انسان اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں مگر بغیر ایمان کے مقبول بندے نہیں ہوتے جن کی نسبت واضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاسکے۔
Top