بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 1
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاؕٚ
اَلْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْزَلَ : نازل کی عَلٰي عَبْدِهِ : اپنے بندہ پر الْكِتٰبَ : کتاب (قرآن) وَلَمْ يَجْعَلْ : اور نہ رکھی لَّهٗ : اس میں عِوَجًا : کوئی کجی
سب تعریف اللہ کو جس نے اتاری اپنے بندے پر کتاب اور نہ رکھی اس میں کچھ کجی
سورة کہف کی خصوصیات اور فضائل
مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، مسند احمد میں حضرت ابو الدردا ؓ سے ایک روایت ہے کہ جس شخص نے سورة کہف کی پہلی دس آیتیں حفظ کرلیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، اور کتب مذکورہ میں حضرت ابوالدردا ؓ ہی سے ایک دوسری روایت میں یہی مضمون سورة کہف کی آخری دس آیتیں یاد کرنے کے متعلق منقول ہے اور مسند احمد میں بروایت حضرت سہل بن معاذ ؓ یہ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سورة کہف کی پہلی اور آخری آیتیں پڑھ لے تو اس کے لئے اس کے قدم سے سر تک ایک نور ہوجاتا ہے اور جو پوری سورت پڑھ لے جو اس کے لئے زمین سے آسمان تک نور ہوجاتا ہے۔
اور حافظ ضیاء مقدسی نے اپنی کتاب مختارہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن سورة کہف پڑھ لے وہ آٹھ روز تک ہر فتنہ سے معصوم رہے گا، اور اگر دجال نکل آئے تو یہ اس کے فتنہ سے بھی معصوم رہے گا۔ { یہ سب روایات تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں }
روح المعانی میں دیلمی سے بروایت حضرت انس ؓ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سورة کہف پوری کی پوری ایک وقت میں نازل ہوئی، اور ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ آئے، جس سے اس کی عظمت شان ظاہر ہوتی ہے۔

شان نزول
امام ابن جریر طبری نے بروایت حضرت ابن عباس ؓ نقل کیا ہے کہ (مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا چرچا ہوا اور قریش مکہ اس سے پریشان ہوئے تو) انہوں نے اپنے دو آدمی نضر بن حارث اور عقبہ ابن ابی معیط کو مدینہ طیبہ کے علماء یہود کے پاس بھیجا کہ وہ لوگ کتب سابقہ تورات و انجیل کے عالم ہیں وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ علماء یہود نے ان کو بتلایا کہ تم لوگ ان سے تین سوالات کرو، اگر انہوں نے ان کا جواب صحیح دے دیاتو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے نبی ہیں، اور یہ نہ کرسکے تو یہ سمجھ لو کہ یہ بات بنانے والے ہیں رسول نہیں۔ ایک تو ان سے ان نوجوانوں کا حال دریافت کرو جو قدیم زمانے میں اپنے شہر سے نکل گئے تھے ان کا کیا واقعہ ہے، کیونکہ یہ واقعہ عجیبہ ہے، دوسرے ان سے اس شخص کا حال پوچھو جس نے دنیا کی مشرق و مغرب اور تمام زمین کا سفر کیا اس کا کیا واقعہ ہے، تیسرے ان سے روح کے متعلق سوال کرو کہ وہ کیا چیز ہے ؟
یہ دونوں قریشی مکہ مکرمہ واپس آئے اور اپنی برادری کے لوگوں سے کہا کہ ہم ایک فیصلہ کن صورت حال لے کر آئے ہیں، علماء یہود کا پورا قصہ سنا دیا، پھر یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ سوالات لے کر حاضر ہوئے، آپ نے سن کر فرمایا کہ میں اس کا جواب کل دوں گا، مگر آپ اس وقت انشاء اللہ کہنا بھول گئے یہ لوگ لوٹ گئے، اور رسول اللہ ﷺ وحی الہی کے انتطار میں رہے کہ ان سوالات کا جواب وحی سے بتلا دیا جائے گا، مگر وعدے کے مطابق اگلے دن تک کوئی وحی نہ آئی، بلکہ پندرہ دن اسی حال پر گذر گئے کہ نہ جبرائیل امین آئے نہ کوئی وحی نازل ہوئی، قریش مکہ نے مذاق اڑانا شروع کیا، اور رسول اللہ ﷺ کو اس سے سخت رنج و غم پہونچا۔
پندرہ دن کے بعد جبرائیل امین سورة کہف لے کر نازل ہوئے (جس میں تاخیر وحی کا سبب بھی بیان کردیا گیا ہے کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہنا چاہیے، اس واقعہ میں چونکہ ایسا نہ ہوا اس پر تنبیہ کرنے کے لئے وحی میں تاخیر ہوئی، اس سورة میں اس معاملہ کے متعلق یہ آیتیں آگے آئیں گی (آیت) (وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ) اور اس سورة میں نوجوانوں کا واقعہ بھی پورا بتلا دیا گیا، جن کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے، اور مشرق و مغرب کے سفر کرنے والے ذوالقرنین کے واقعہ کا بھی مفصل بیان آ گیا، اور روح کے سوال کا جواب بھی، (قرطبی و مظہری بحوالہ ابن جریر) (مگر روح کے سوال کا جواب اجمال کے ساتھ دینا مقتضائے حکمت تھا، اس کو سورة بنی اسرائیل کے آخر میں علیحدہ کر کے بیان کردیا گیا، اور اسی سبب سے سورة کہف کو سورة بنی اسرائیل کے بعد رکھا گیا ہے، کذا اذکرہ السیوطی)۔

خلاصہ تفسیر
تمام خوبیاں اس اللہ کے لئے ثابت ہیں جس نے اپنے (خاص) بندے (محمد ﷺ پر یہ کتاب نازل فرمائی، اور اس (کتاب) میں (کسی قسم کی) ذرا بھی کجی نہیں رکھی (نہ لفظی کہ فصاحت و بلاغت کے خلاف ہو، اور نہ معنوی کہ اس کا کوئی حکم حکمت کے خلاف ہو بلکہ اس کو) بالکل استقامت کے سانھ موصوف بنایا (اور نازل اس لئے کیا کہ) تاکہ وہ (کتاب کافروں کو عموما) ایک سخت عذاب سے جو من جانب اللہ (ان کو آخرت میں ہوگا) ڈرائے اور اہل ایمان کو جو نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دے کہ ان کو (آخرت میں) اچھا اجر ملے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ (کفار میں سے بالخصوص) ان لوگوں کو (عذاب سے) ڈرائے جو یوں کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے (اور اولاد کا عقیدہ رکھنے والے کافروں کا عام کافروں سے الگ کر کے اس لئے بیان کیا گیا کہ اس باطل عقیدہ میں عرب کے عام لوگ مشرکین، یہود، نصاری سب ہی مبتلا تھے) نہ تو اس کی کوئی دلیل ان کے پاس ہے، اور نہ ان کے باپ دادوں کے پاس تھی، بڑی بھاری بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، (اور) وہ لوگ بالکل (ہی) جھوٹ بکتے ہیں (جو عقلا بھی ناممکن ہے، کوئی ادنی عقل والا بھی اس کا قائل نہیں ہو سکتا، اور آپ جو ان لوگوں کے کفر و انکار پر اتنا غم کرتے ہیں کہ) سو شاید آپ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ اس مضمون (قرآنی) پر ایمان نہ لائے تو غم سے اپنی جان دیدیں گے (یعنی اتنا غم نہ کیجئے کہ ہلاکت کے قریب کر دے، وجہ یہ ہے کہ دنیا عالم امتحان ہے، اس میں ایمان و کفر اور خیر وشر دونوں کا مجموعہ ہی رہے گا، سبھی مومن ہوجائیں گے ایسا نہ ہوگا، اسی امتحان کے لئے) ہم نے زمین پر کئی چیزوں کو اس (زمین) کے لئے باعث رونق بنایا، تاکہ ہم (اس کے ذریعہ) لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے (یہ امتحان کرنا ہے کہ کون اس دنیا کی زنیت اور رونق پر مفتون ہو کر اللہ سے آخرت سے غافل ہوجاتا ہے اور کون نہیں، غرض یہ کہ یہ عالم ابتلا ہے، اور ان کے کفر کا نتیجہ دنیا ہی میں ظاہر ہوجانے کا انتظار نہ کیجئے کیونکہ وہ ہمارا کام ہے، ایک مقررہ وقت پر ہوگا، چناچہ ایک روز وہ آئے گا کہ) ہم زمین کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان کردیں گے (نہ اس پر کوئی بسنے والا رہے گا نہ کوئی درخت اور پہاڑ اور نہ کوئی مکان و تعمیر، خلاصہ یہ ہے کہ آپ اپنا کام تبلیغ کا کرتے رہئے، منکرین کے انجام بد کا اتنا غم نہ کیجئے)۔

معارف و مسائل
(آیت) وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاقَـيِّمًا لفظ عوج کے معنی کسی قسم کی کجی اور ایک طرف جھکاؤ کے ہیں قرآن کریم اپنے لفظی اور معنوی کلام میں اس سے پاک ہے، نہ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے کسی جگہ ذرہ برابر کمی یا کجی ہو سکتی ہے نہ علم و حکمت کے لحاظ سے، جو مفہوم لفظ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا سے ایک منفی صورت میں بتلایا گیا ہے، پھر تاکید کے لئے اسی مضمون کو مثبت طور پر لفظ قیما سے واضح کردیا ہے، کیونکہ قیما کے معنے ہیں مستقیما اور مستقیم وہی ہے جس میں کوئی ادنی کجی اور میلان کسی جانب نہ ہو، اور یہاں قیم کے ایک دوسرے معنی بھی ہو سکتے ہیں، یعنی نگران اور محافظ، اس معنی کے لحاظ سے اس لفظ کا مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن کریم جیسا اپنی ذات میں کامل مکمل ہر قسم کی کجی اور افراط وتفریط سے پاک ہے، اسی طرح یہ دوسروں کو بھی استقامت پر رکھنے والا اور بندوں کی تمام مصالح کی حفاظت کرنے والا ہے، اب خلاصہ ان دونوں کا یہ ہوجائے گا کہ قرآن کریم خود بھی کامل و مکمل ہے اور مخلوق خدا کو بھی کامل و مکمل بنانے والا ہے (مظہری)
Top