Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 103
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ
قُلْ : فرمادیں هَلْ : کیا نُنَبِّئُكُمْ : ہم تمہیں بتلائیں بِالْاَخْسَرِيْنَ : بدترین گھاٹے میں اَعْمَالًا : اعمال کے لحاظ سے
تو کہہ ہم بتائیں تم کو کن کا کیا ہوا گیا بہت اکارت
(آیت) اَلْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا اس جگہ پہلی دو آیتیں اپنے مفہوم عام کے اعتبار سے ہر اس فرد یا جماعت کو شامل ہیں جو کچھ اعمال کو نیک سمجھ کر اس میں جدوجہد اور محنت کرتے ہیں مگر اللہ کے نزدیک ان کی محنت برباد اور عمل ضائع ہے قرطبی نے فرمایا کہ یہ صورت دو چیزوں سے پیدا ہوتی ہے ایک فساد اعتقاد، دوسرے ریاء کاری یعنی جس شخص کا عقیدہ اور ایمان درست نہ ہو وہ عمل کتنے ہی اچھے کرے اور کتنی ہی محنت اٹھائے وہ آخرت میں بیکار اور ضائع ہے۔
اسی طرح جس کا عمل مخلوق کو خوش کرنے کے لئے ریاکاری سے ہو وہ بھی عمل کے ثواب سے محروم ہے اسی مفہوم عام کے اعتبار سے بعض حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین نے اس کا مصداق خوارج کو اور بعض مفسرین نے معتزلہ اور روافض وغیرہ گمراہ فرقوں کو قرار دیا مگر اگلی آیت میں یہ متعین کردیا گیا ہے کہ اس جگہ مراد وہ کفار ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور قیامت و آخرت کے منکر ہوں (آیت) اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ اس لئے قرطبی ابوحیان مظہری وغیرہ میں ترجیح اس کو دی گئی ہے کہ اصل مراد اس جگہ وہی کفار ہیں جو اللہ تعالیٰ اور قیامت اور حساب و کتاب کے منکر ہوں مگر صورۃً وہ لوگ بھی اس کے مفہوم عام سے بےتعلق نہیں ہو سکتے جن کے اعمال ان کے عقائد فاسدہ نے برباد کردیئے اور ان کی محنت رائیگاں ہوگئی بعض صحابہ کرام ؓ اجمعین حضرت علی ؓ اور سعد ؓ سے جو ایسے اقوال منقول ہیں ان کا یہی مطلب ہے (قرطبی)
Top