Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 81
فَاَرَدْنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَیْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً وَّ اَقْرَبَ رُحْمًا
فَاَرَدْنَآ : پس ہم نے ارادہ کیا اَنْ يُّبْدِ : کہ بدلہ دے لَهُمَا : ان دونوں کو رَبُّهُمَا : ان کا رب خَيْرًا : بہتر مِّنْهُ : اس سے زَكٰوةً : پاکیزگی وَّاَقْرَبَ : اور زیادہ قریب رُحْمًا : شفقت
پھر ہم نے چاہا کہ بدلہ دے ان کو ان کا رب بہتر اس سے پاکیزگی میں اور نزدیک تر شفقت میں
(آیت) فَاَرَدْنَآ اَنْ يُّبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكٰوةً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا یعنی اس لئے ہم نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ان صالح ماں باپ کو اس لڑکے کے بدلے میں اس سے بہتر اولاد دیدے جو اعمال و اخلاق میں پاکیزہ بھی ہو اور ماں باپ کے حقوق کو بھی پورا کرے
اس واقعہ میں خَشِيْنَآ اور اَرَدْنَآ میں جمع متکلم کا صیغہ استعمال فرمایا اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ ارادہ اور خشیت خضر ؑ نے اپنی اور اللہ تعالیٰ دونوں کی طرف منسوب کیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود اپنی ہی طرف منسوب کیا ہو تو پھر اردنا کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے اللہ سے دعا کی کیونکہ کسی لڑکے کے بدلے میں اس سے بہتر اولاد دینے کا معاملہ خالص حق تعالیٰ کا فعل ہے اس میں خضر ؑ یا کوئی دوسرا انسان شریک نہیں ہو سکتا۔
اور یہاں یہ شبہ کرنا درست نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ لڑکا کافر ہوگا اور ماں باپ کو بھی گمراہ کرے گا تو پھر یہ واقعہ علم الہی کے مطابق ایسا ہی واقع ہونا ضروری تھا کیونکہ علم الہی کے خلاف کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔
جواب یہ ہے کہ علم الہی میں اس تعلیق و شرط کے ساتھ تھا کہ یہ بالغ ہوگا تو کافر ہوگا اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی خطرہ بنے گا پھر چونکہ وہ عمر بلوغ سے پہلے ہی قتل کردیا گیا تو جو واقعہ پیش آیا وہ اس علم الہی کے منافی نہیں (مظہری)
ابن ابی شیبہ ابن المنذر ابن ابی حاتم نے بروایت عطیہ نقل کیا ہے کہ مقتول لڑکے کے والدین کو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں ایک لڑکی عطا فرمائی جس کے بطن سے ایک نبی پیدا ہوا اور ابن عباس ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ اس کے بطن سے دو نبی پیدا ہوئے بعض روایات میں ہے کہ اس کے بطن سے پیدا ہونے والے نبی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی امت کو ہدایت فرمائی۔
Top