Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 92
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
ثُمَّ : پھر اَتْبَعَ : وہ پیچھے پڑا سَبَبًا : ایک سامان
پھر لگا ایک سامان کے پیچھے ،
خلاصہ تفسیر
پھر (مغرب و مشرق فتح کرکے) ایک اور راہ پر ہو لئے (قرآن میں اس سمت کا نام نہیں لیا مگر آبادی زیادہ جانب شمال ہی ہے اس لئے مفسرین نے اس سفر کو شمالی ممالک کا سفر قرار دیا تاریخی شہادتیں بھی اس کی مؤ ید ہیں) یہاں تک کہ جب ایسے مقام پر جو دو پہاڑوں کے درمیان تھا پہنچے تو ان پہاڑوں سے اس طرح ایک قوم کو دیکھا جو (زبان اور لغت سے ناواقف وحشیانہ زندگی کی وجہ سے) کوئی بات سمجھنے کے قریب بھی نہیں پہنچتے تھے (ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف زبان سے ناواقفیت نہ تھی کیونکہ سمجھ بوجھ ہو تو غیر زبان والے کی باتیں بھی کچھ اشارے کنائے سے سمجھی جاسکتی ہیں بلکہ وحشیانہ زندگی نے سمجھ بوجھ سے بھی دور رکھا تھا مگر پھر شاید کسی ترجمان کے واسطے سے) انہوں نے عرض کیا اے ذوالقرنین قوم یاجوج وماجوج (جو اس گھاٹی کے اس طرف رہتے ہیں ہماری) اس سر زمین میں (کبھی کبھی آکر) بڑا فساد مچاتے ہیں (یعنی قتل و غارتگری کرتے ہیں اور ہم میں ان کے مقابلے کی طاقت نہیں) سو کیا ہم لوگ آپ کے لئے چندہ کرکے کچھ رقم جمع کردیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی روک بنادیں (کہ وہ اس طرف نہ آنے پائیں) ذوالقرنین نے جواب دیا کہ جس مال میں میرے رب نے مجھ کو (تصرف کرنے کا) اختیار دیا ہے وہ بہت کچھ ہے (اس لئے چندہ جمع کرنے اور مال دینے کی تو ضرورت نہیں البتہ) ہاتھ پاؤں کی طاقت (یعنی محنت مزدوری) سے میری مدد کرو تو میں تمہارے اور ان کے درمیان خوب مضبوط دیوار بنادوں گا (اچھا تو) تم لوگ میرے پاس لوہے کی چادریں لاؤ (قیمت ہم دیں گے ظاہر یہ ہے کہ اس آہنی دیوار بنانے کے لئے اور بھی ضرورت کی چیزیں منگوائی ہوں گی مگر یہاں وحشی ملک میں سب سے زیادہ کم یاب چیز لوہے کی چادریں تھیں اس لئے ان کے ذکر کرنے پر اکتفاء کیا گیا سب سامان جمع ہوجانے پر دونوں پہاڑوں کے درمیان آہنی دیوار کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا) یہاں تک کہ جب (اس دیوار کے ردے ملاتے ملاتے) ان (دونوں پہاڑوں) کے دونوں سروں کے بیچ (کے خلاء) کو (پہاڑوں کے) برابر کردیا تو حکم دیا کہ دھونکو (دھونکنا شروع ہوگیا) یہاں تک کہ جب (دھونکتے دھونکتے) اس کو لال انگارا کردیا تو حکم دیا کہ اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ (جو پہلے سے تیار کرا لیا ہوگا) کہ اس پر ڈال دوں (چنانچہ یہ پگھلا ہوا تانبا لایا گیا اور آلات کے ذریعہ اوپر سے چھوڑ دیا گیا کہ دیوار کی تمام درزوں میں گھس کر پوری دیوار ایک ذات ہوجائے اس کا طول و عرض خدا کو معلوم ہے) تو (اس کی بلندی اور چکناہٹ کے سبب) نہ تو یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ سکتے اور نہ اس میں (غایت استحکام کے سبب کوئی) نقب لگا سکتے تھے ذوالقرنین نے (جب اس دیوار کو تیار دیکھا جس کا تیار ہونا کوئی آسان کام نہ تھا تو بطور شکر کے) کہا کہ یہ میرے رب کی ایک رحمت ہے (مجھ پر بھی کہ میرے ہاتھوں یہ کام ہوگیا اور اس قوم کے لئے بھی جن کو یاجوج و ماجوج ستاتے تھے) پھر جس وقت رب کا وعدہ آئے گا (یعنی اس کی فنا کا وقت آئے گا) تو اس کو ڈھا کر (زمین کے) برابر کردے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے (اور اپنے وقت پر ضرور واقع ہوتا ہے)
Top