Maarif-ul-Quran - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور مذکور کر کتاب میں مریم کا جب جدا ہوئی اپنے لوگوں سے ایک مشرقی مکان میں
خلاصہ تفسیر
اور (اے محمد ﷺ اس کتاب (یعنی قرآن کے اس خاص حصہ یعنی سورت) میں (حضرت) مریم (علیہٰا السلام) کا قصہ بھی ذکر کیجئے (کہ وہ زکریا ؑ کے قصہ مذکورہ سے خاص مناسبت رکھتا ہے اور وہ اسوقت واقع ہوا) جب کہ وہ اپنے گھر والوں سے علیحدہ (ہوکر) ایک ایسے مکان میں جو مشرق کی جانب میں تھا (غسل کے لئے) گئیں پھر ان (گھروالے) لوگوں کے سامنے سے انھوں نے (درمیان میں پردہ ڈال) لیا (تاکہ اس کی آڑ میں غسل کرسکیں) پس (اس حالت میں) ہم نے اپنے فرشتہ (جبرئیل علیہٰ السلام) بھیجا اور وہ (فرشتہ) ان کے سامنے (ہاتھ پاؤں اور صورت و شکل میں) ایک پورا آدمی بن کر ظاہر ہوا (چونکہ حضرت مریم نے اس کو انسان سمجھا اس لئے گھبرا کر) کہنے لگیں کہ میں تجھ سے اپنے خدا کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو (کچھ) خدا ترس ہے (تو یہاں سے ہٹ جاوے گا) فرشتہ نے کہا کہ (میں بشر نہیں کہ تم مجھ سے ڈرتی ہو بلکہ) میں تو تمہارے رب کا بھیجا ہوا (فرشتہ) ہوں (اس لئے آیا ہوں) تاکہ تم کو ایک پاکیزہ لڑکا دوں (یعنی تمہارے منہ میں یا گریبان میں دَم کردوں جس کے اثر سے باذن اللہ حمل رہ جاوے اور لڑکا پیدا ہو) وہ (تعجب سے) کہنے لگیں (نہ کہ انکار سے) کہ میرے لڑکا کس طرح ہوجاوے گا حالانکہ (اس کی شرائط عادیہ میں سے مرد کے ساتھ مقاربت ہے اور وہ بالکل مفقود ہے کیونکہ) مجھ کو کسی بشر نے ہاتھ تک نہیں لگایا (یعنی نہ تو نکاح ہوا) اور نہ میں بدکار ہوں، فرشتہ نے کہا کہ (بس بغیر کسی بشر کے چھونے کے) یوں ہی (لڑکا) ہوجاوے گا (اور میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ) تمہارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ بات (کہ بغیر اسباب عادیہ کے بچہ پیدا کردوں) مجھ کو آسان ہے اور (یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم بغیر اسباب عادیہ کے) اسے خاص طور پر اس لئے پیدا کریں گے تاکہ ہم اس فرزند کو لوگوں کے لئے ایک نشانی (قدرت کی) بنادیں اور (نیز اسکے ذریعہ لوگوں کو ہدایت پانے کے لئے) اس کو باعث رحمت بنادیں اور یہ (بےشک کے اس بچہ کا پیدا ہونا) ایک طے شدہ بات ہے (جو ضرور ہو کر رہے گی)۔

معَارف ومسَائِل
انْتَبَذَتْنبذ سے مشتق ہے جس کے اصلی معنے دور ڈالنے اور پھینکنے کے ہیں۔ انتباذ کے معنی مجمع سے ہٹ کر دور چلے جانے کے ہوئے۔ مکانا شرقیا، یعنی گھر کے اندر مشرقی جانب کے کسی گوشہ میں چلی گیئں۔ ان کا گوشہ میں جانا کس غرض کے لئے تھا اسمیں احتمالات اور اقوال مختلف ہیں بعض نے کہا کہ غسل کرنے کے لئے اس گوشہ میں گئی تھیں۔ بعض نے کہا کہ حسب عادت عبادت الہٰی میں مشغول ہونے کے لئے محراب کی شرقی جانب کے کسی گوشہ کو اختیار کیا تھا۔ قرطبی نے اسی دوسرے احتمال کو احسن قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ نصارٰی نے جو جانب مشرق کو اپنا قبلہ بنایا اور اس جانب کی تعظیم کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے۔
Top