بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Maryam : 1
كٓهٰیٰعٓصٓ۫ۚ
كٓهٰيٰعٓصٓ : کاف۔ ہا۔ یا۔ عین۔ صاد
کھیعص
خلاصہ تفسیر
کھیعص (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ (جو آئندہ قصہ آتا ہے) تذکرہ ہے آپ کے پروردگار کے مہربانی فرمانے کا اپنے (مقبول) بندہ (حضرت) زکریا (علیہ السلام کے حال) پر جبکہ انہوں نے اپنے پروردگار کو پوشیدہ طور پر پکارا (جس میں یہ) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میری ہڈیاں (بوجہ پیری کے) کمزور ہوگئیں اور (میرے) سر میں بالوں کی سفیدی پھیل پڑی (یعنی تمام بال سفید ہوگئے اور اس حالت کا مقتضاء یہ ہے کہ میں اس حالت میں اولاد کی درخواست نہ کروں مگر چونکہ آپ کی قدرت و رحمت بڑی کامل ہے) اور (میں اس قدرت و رحمت کے ظہور کا خوگر ہمیشہ رہا ہوں چناچہ اس کے قبل کبھی) آپ سے (کوئی چیز) مانگنے میں اے میرے رب ناکام نہیں رہا ہوں (اس بنا پر بعید سے بعید مقصود بھی طلب کرنا مضائقہ نہیں) اور (اس طلب کا مرجح یہ امر خاص ہوگیا ہے کہ) میں اپنے (مرنے کے) بعد (اپنے) رشتہ داروں (کی طرف) سے (یہ) اندیشہ رکھتا ہوں (کہ میری مرضی کے موافق شریعت اور دین کی خدمت نہ بجالاویں گے۔ یہ امر مرجح ہے طلب اولاد کے لئے جس میں خاص خاص اوصاف پائے جاویں جن کو توقع خدمت دین میں داخل ہو) اور (چونکہ میری پیرانہ سالی کے ساتھ) میری بیوی (بھی) بانجھ ہے (جس کے کبھی باوجود صحت مزاج کے اولاد ہی نہیں ہوئی اس لئے اسباب عادیہ اولاد ہونے کے بھی مفقود ہیں سو (اس صورت میں) آپ مجھ کو خاص اپنے پاس سے (یعنی بلا توسط اسباب عادیہ کے) ایک ایسا وارث (یعنی بیٹا) دے دیجئے کہ وہ (میرے علوم خاصہ میں) میرا وارث بنے اور (میرے جد) یعقوب ؑ کے خاندان (کے علوم متوارثہ میں ان) کا وارث بنے (یعنی علوم سابقہ و لاحقہ اس کو حاصل ہوں) اور (بوجہ باعمل ہونے کے) اس کو اے میرے رب (اپنا) پسندیدہ (ومقبول) بنائیے (یعنی عالم بھی ہو اور عامل بھی ہو۔ حق تعالیٰ کا بواسطہ ملائکہ کے ارشاد ہوا کہ) اے زکریا ہم تم کو ایک فرزند کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہوگا کہ اس کے قبل (خاص اوصاف میں) ہم نے کسی کو اس کا ہم صفت نہ بنایا ہوگا (یعنی جس علم و عمل کی تم دعا کرتے ہو وہ تو اس فرزند کو ضرور ہی عطا کریں گے اور مزید برآں کچھ اوصاف خاصہ بھی عنایت کئے جاویں گے مثلاً خشیت الٰہی سے خاص درجہ کی رقت قلب وغیرہ۔ چونکہ اس اجابت دعا میں کوئی خاص کیفیت حصول ولد کی بتلائی نہ گئی تھی اس لئے اس کے استفار کیلئے) زکریا ؑ نے عرض کیا کہ اے میرے رب میرے اولاد کس طرح پر ہوگی حالانکہ میری بی بی بانجھ ہے اور (ادھر) میں پڑھاپے کے انتہائی درجہ کو پہنچ چکا ہوں (پس معلوم نہیں کہ ہم جوان ہوں گے یا مجھ کو دوسرا نکاح کرنا ہوگا یا بحالت موجودہ اولاد ہوگی) ارشاد ہوا کہ حالت (موجودہ) یوں ہی رہے گی (اور پھر اولاد ہوگی اے زکریا) تمہارے رب کا قول ہے کہ یہ (امر) مجھ کو آسان ہے اور (یہ کیا اس سے بڑا کام کرچکا ہوں مثلاً) میں نے تم کو (ہی) پیدا کیا ہے حالانکہ (پیدائش کے قبل) تم کچھ بھی نہ تھے (اسی طرح خود اسباب عادیہ بھی کوئی چیز نہ تھے جب معدوم کو موجود کرنا آسان ہے تو ایک موجود سے دوسرا موجود کردینا کیا مشکل ہے یہ سب ارشاد تقویت رجا کے لئے تھا نہ کہ دفع شبہ کے لئے، کیونکہ زکریا ؑ کو کوئی شبہ نہ تھا جب) زکریا (علیہ السلام کو قوی امید ہوگئی تو انہوں) نے عرض کیا کہ اے میرے رب (وعدہ پر تو اطمینان ہوگیا اب اس وعدہ کے قریب وقوع یعنی حمل کی بھی) کوئی علامت میرے لئے مقرر فرمادیجئے (تاکہ زیادہ شکر کروں اور خود وقوع تو محسوسات ظاہرہ ہی میں سے ہے) ارشاد ہوا کہ تمہاری (وہ) علامت یہ ہے کہ تم تین رات (اور تین دن تک) آدمیوں سے بات (چیت) نہ کرسکو گے حالانکہ تندرست ہوگے (کوئی بیماری وغیرہ نہ ہوگی اور اسی وجہ سے ذکر اللہ کے ساتھ تکلم پر قدرت رہے گی چناچہ باذن اللہ تعالیٰ زکریا ؑ کی بیوی حاملہ ہوئیں اور حسب انبار الٰہی زکریا ؑ کی زبان پستہ ہوگئی) پس حجرے میں سے اپنی قوم کے پاس برآمد ہوئے اور ان کو ارشارہ سے فرمایا (کیونکہ زبان سے تو بول نہ سکتے تھے) کہ تم لوگ صبح اور شام خدا کی پاکی بیان کیا کرو۔ (یہ تسبیح اور امر بالتسبیح یا تو حسب معمول تھا ہمیشہ تذکیرا زبان سے کہتے تھے آج اشارہ سے کہا یا اس نعمت جدیدہ کے شکر میں خود بھی تسبیح کی کثرت فرمائی اور اوروں کو بھی اسی طور پر امر فرمایا غرض پھر یحییٰ ؑ پیدا ہوئے اور سن شعور کو پہنچے تو ان کو حکم ہوا کہ) اے یحییٰ کتاب کو (یعنی توریت کو کہ اس وقت وہی کتاب شریعت تھی اور انجیل کا نزول بعد میں ہوا) مضبوط ہو کرلو (یعنی خاص کوشش کی ساتھ عمل کرو) اور ہم نے ان کو (انکے) لڑکپن ہی میں (دین کی) سمجھ اور خاص اپنے پاس سے رقت قلب (کی صفت) اور پاکیزگی (اخلاق کی) عطا فرمائی تھی (حکم میں علم کی طرف اور حنان اور زکوٰة میں اخلاق کی طرف اشارہ ہوگیا) اور (آگے اعمال ظاہرہ کیطرف اشارہ فرمایا کہ) وہ بڑے پرہیزگار اور اپنے والدین کے خدمت گزار تھے (اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی طرف اشارہ ہوگیا) اور وہ (خلق کے ساتھ) سرکشی کرنے والے (یا حق تعالیٰ کی) نافرمانی کرنے والے نہ تھے اور (عنداللہ ایسے وجیہ اور مکرم تھے کہ انکے حق میں منجانب اللہ یہ ارشاد ہوتا ہے کہ) ان کو (اللہ تعالیٰ کا) سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن کہ وہ انتقال کریں گے اور جس دن (قیامت میں) زندہ ہو کر اٹھائے جاویں گے۔

معارف و مسائل
سورة کہف کے بعد سورة مریم شاید اس مناسبت سے رکھی گئی جیسے سورة کہف بہت سے واقعات عجیبہ پر مشتمل تھی اسی طرح سورة مریم بھی ایسے واقعات غریبہ پر مشتمل ہے (روح المعانی) کھیعص حروف مقطعہ اور متشابہات میں سے ہے جسکا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے بندوں کے لئے اس کی تفتیش بھی اچھی نہیں۔
Top