Maarif-ul-Quran - Maryam : 30
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ
قَالَ : بچہ نے اِنِّىْ : بیشک میں عَبْدُ اللّٰهِ : اللہ کا بندہ اٰتٰىنِيَ : اس نے مجھے دی ہے الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلَنِيْ : اور مجھے بنایا ہے نَبِيًّا : نبی
وہ بولا میں بندہ ہوں اللہ کا مجھ کو اس نے کتاب دی ہے اور مجھ کو اس نے نبی کیا
(آیت) اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ ، ایک روایت میں ہے کہ جس وقت خاندان کے لوگوں نے حضرت مریم ؑ کو ملامت کرنا شروع کی حضرت عیسیٰ ؑ دودھ پی رہے تھے۔ جب انہوں نے ان لوگوں کی ملامت کو سنا تو دودھ چھوڑ دیا اور اپنی بائیں کروٹ پر سہارا لے کر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے یہ الفاظ فرمائے اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ یعنی میں اللہ کا بندہ ہوں، اس پہلے ہی لفظ میں حضرت عیسیٰ ؑ نے اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا کہ اگرچہ میری پیدائش معجزانہ انداز سے ہوئی ہے مگر میں خدا نہیں خدا کا بندہ ہوں تاکہ لوگ میری پرستش میں مبتلا نہ ہو جائیں
(آیت) اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِيْ نَبِيًّا ان الفاظ میں حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی شیر خوارگی کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت اور کتاب ملنے کی خبر دی۔ حالانکہ کسی پیغمبر کو چالیس سال کی عمر سے پہلے نبوت و کتاب نہیں ملتی اس لئے مفہوم اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرما دیا ہے کہ مجھے اپنے وقت پر نبوت اور کتاب دیں گے اور یہ بالکل ایسا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے نبوت اس وقت عطا کردی گئی تھی جب کہ آدم ؑ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ان کا خمیر ہی تیار ہو رہا تھا اس کا مطلب ظاہر ہے کہ اس کے سوا نہیں کہ عطا نبوت کا وعدہ محمد مصطفے ٰ ﷺ کے لئے قطعی اور یقینی تھا یہاں بھی اسی یقین کو عطا نبوت کے لفظ ماضی سے تعبیر کردیا گیا ہے۔ عطا نبوت کا اظہار کرنے سے ان لوگوں کی بدگمانی رفع کردی گئی کہ میری والدہ پر بدکاری کا الزام لگانا سراسر غلط ہے کیونکہ میرا نبی ہونا اور مجھے رسالت کا ملنا اس کی دلیل ہے کہ میری پیدائش میں کسی گناہ کا دخل نہیں ہوسکتا۔
Top