Maarif-ul-Quran - Maryam : 34
ذٰلِكَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ١ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم قَوْلَ : بات الْحَقِّ : سچی الَّذِيْ فِيْهِ : وہ جس میں يَمْتَرُوْنَ : وہ شک کرتے ہیں
یہ ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا سچی بات جس میں لوگ جھگڑتے ہیں
خلاصہ تفسیر
یہ ہیں عیسیٰ بن مریم (جن کے اقوال و احوال مذکور ہوئے جس سے ان کا بندہ قبول ہونا معلوم ہوتا ہے نہ جیسے کہ عیسائیوں نے ان کو بندوں کی فہرست سے خارج کرکے خدا تک پہنچا دیا ہے اور نہ ویسے جیسا کہ یہودیوں نے ان کو مقبولیت سے خارج کر کے طرح طرح کی تہمتیں لگائی ہیں) میں (بالکل) سچی بات کہہ رہا ہوں جس میں یہ (افراط وتفریط کرنے والے) لوگ جھگڑ رہے ہیں (چنانچہ یہود و نصاریٰ کے اقوال اوپر معلوم ہوئے اور چونکہ یہود کا قول ظاہراً بھی موجب تنقیص نبی تھا جو کہ بداہتاً باطل ہے اس لیے اس کے رد کی طرف اس مقام پر توجہ نہیں فرمائی بخلاف قول نصارٰی کے کہ ظاہراً مثبت زیادت کمال تھا کہ نبوت کے ساتھ خدا کا بیٹا ہونا ثابت کرتے تھے اس لیے آگے اس کو رد فرماتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اس میں حق تعالیٰ کی تنفیص بوجہ انکار توحید کے لازم آتی ہے حالانکہ) اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ (کسی کو) اولاد بنائے وہ (بالکل) پاک ہے (کیونکہ اس کی یہ شان ہے کہ) کمال کے واسطے اولاد کا ہونا عقلاً نقص ہے) اور (آپ اثبات توحید کے لئے لوگوں سے فرما دیجئے کہ مشرکین بھی سن لیں کہ) بیشک اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے سو (صرف) اسی کی عبادت کرو (اور) یہی (خالص خدا کی عبادت کرنا یعنی توحید اختیار کرنا (دین کا) سیدھا راستہ ہے سو (توحید پر باوجود ان عقلی اور نقلی دلائل قائم ہونے کے پھر بھی) مختلف گروہوں نے (اس بارہ میں) باہم اختلاف ڈال دیا (یعنی توحید کا انکار کر کے طرح طرح کے مذاہب ایجاد کرلئے) سو ان کافروں کے لئے ایک بڑے (بھاری) دن کے آجانے سے بڑی خرابی (ہونے والی) ہے (مراد اس سے قیامت کا دن ہے کہ یہ دن ایک ہزار سال دراز اور ہولناک ہونے کی وجہ سے بہت عظیم ہوگا) جس روز یہ لوگ (حساب و جزا کے لئے) ہمارے پاس آویں گے (اس روز) کیسے کچھ شنوا اور بینا ہوجائیں گے۔ (کیونکہ قیامت میں یہ حقائق پیش نظر ہوجاویں گے اور تمام تر غلطیاں رفع ہوجاویں گی) لیکن یہ ظالم آج (دنیا میں کیسی) صریح غلطی میں (مبتلا ہو رہے) ہیں، اور آپ لوگوں کو حسرت کے دن سے ڈرائیے جبکہ (جنت دوزخ کا) اخیر فیصلہ کردیا جاوے گا (جس کا ذکر حدیث میں ہے کہ جنت اور دوزخ والوں کو موت دکھلا کر اس کو ذبح کردیا جاوے گا اور دونوں کو خلود (یعنی ہمیشہ ہمیشہ اسی حال میں زندہ رہنے کا حکم سنا دیا جاوے گا، رواہ الشیخان والترمذی، اور اس وقت کی حسرت کا بیحد ہونا ظاہر ہے) اور وہ لوگ (آج دنیا میں) غفلت میں (پڑے) ہیں اور وہ لوگ ایمان نہیں لاتے (لیکن آخر ایک دن مریں گے) اور تمام زمین اور زمین پر رہنے والوں کے وارث (یعنی آخر مالک) ہم ہی رہ جاویں گے اور یہ سب ہمارے ہی پاس لوٹائے جاویں گے (پھر اپنے کفر و شرک کی سزا بھگتیں گے)۔

معارف مسائل
(آیت) ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق یہود و نصاریٰ کے بیہودہ خیالات میں افراط وتفریط کا یہ عالم تھا کہ نصاریٰ نے تو تعظیم میں اتنی زیادتی کی کہ ان کو خدا تعالیٰ کا بیٹا بنادیا، اور یہود نے ان کی توہین و تذلیل میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ یوسف نجار کی ناجزئز اولاد میں ہیں۔ معاذاللہ، حق تعالیٰ نے ان دونوں غلط کاروں کی غلطی بتلا کر اس کی صحیح حیثیت ان آیات میں واضح فرمادی۔ (قرطبی)
قَوْلَ الْحَــقِّ بفتح لام اس کی واضح ترکیب نحوی یہ ہے کہ اقول قول الحق اس کی اصل ہے اور بعض قراءتوں میں قول الحق بضم لام بھی ہے تو اس صورت میں مراد یہ ہوگا کہ عیسیٰ ؑ خود قول حق ہیں جیسا کہ ان کو کلمة اللہ کا لقب بھی دیا گیا ہے کیونکہ ان کی پیدائش بلا واسطہ سبب ظاہری کے صرف اللہ تعالیٰ کے قول سے ہوئی ہے۔ (قرطبی)
Top