Maarif-ul-Quran - Maryam : 47
قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْكَ١ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّیْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِیْ حَفِیًّا
قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام عَلَيْكَ : تجھ پر سَاَسْتَغْفِرُ : میں ابھی بخشش مانگوں گا لَكَ : تیرے لیے رَبِّيْ : اپنا رب اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِيْ : مجھ پر حَفِيًّا : مہربان
کہا تیری سلامتی رہے میں گناہ بخشواؤں گا تیرا اپنے رب سے بیشک وہ ہے مجھ پر مہربان
سَلٰمٌ عَلَيْكَ ، یہاں لفظ سلام دو معنے کے لئے ہوسکتا ہے اول یہ کہ یہ سلام مقاطعہ ہو یعنی کسی سے قطع تعلق کرنے کا شریفانہ اور مہذب طریقہ یہ ہے کہ بات کا جواب دینے کے بجائے لفظ سلام کہہ کر علیحدہ ہوجائے جیسا کہ قرآن کریم نے اپنے مقبول و صالح بندوں کی صفت میں بیان فرمایا ہےوَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا، یعنی جب جاہل لوگ ان سے جاہلانہ خطاب کرتے ہیں تو یہ ان سے دو بدو ہونے کے بجائے لفظ سلام کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ باوجود مخالفت کے میں تمہیں کوئی گزند اور تکلیف نہ پہنچاؤں گا۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ یہاں سلام عرفی سلام ہی کے معنے میں ہو، اس میں فقہی اشکال یہ ہے کہ کسی کافر کو ابتداء سلام کرنا حدیث میں ممنوع ہے صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لا تبداء وا الیھود والنصارٰی بالسلام (یعنی یہود و نصارٰی کو ابتداءً سلام نہ کرو) مگر اس کے بالمقابل بعض روایات حدیث میں ایک ایسے مجمع کو ابتدائی سلام کرنا خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جس میں کفار و مشرکین اور مسلمان سب جمع تھے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم ہی میں حضرت اسامہ کی روایت سے ثابت ہے۔
اسی لئے فقہاء امت کا اس کے جواز و عدم جواز میں اختلاف ہوا۔ بعض صحابہ وتابعین اور امہ مجتہدین کے قول و عمل سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے بعض سے عدم جواز، جس کی تفصیل قرطبی نے احکام القرآن میں اسی آیت کے تحت بیان کی ہے۔ اور امام نخعی نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر تمہیں کسی کافر یہودی نصرانی سے ملنے کی کوئی دینی یا دنیوی ضرورت پیش آجائے تو اس کو ابتدائی سلام کرنے میں مضائقہ نہیں اور بےضرورت سلام کی ابتداء کرنے سے بچنا چاہئیے۔ اس میں مذکورہ دونوں حدیثوں کو تطبیق ہوجاتی ہے واللہ اعلم۔ (قرطبی)
سَاَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّيْ ، یہاں بھی یہ اشکال ہے کہ کسی کافر کے لئے استغفار کرنا شرعاً ممنوع و ناجائز ہے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا تھا کہ واللہ لاستغفرن لک مالم انہ عنہ (یعنی بخدا میں آپ کے لئے اس وقت تک ضرور استغفار یعنی دعا مغفرت کرتا رہوں گا جب تک اللہ کی طرف سے مجھے منع نہ فرما دیا جائے)۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ (یعنی نبی اور ایمان والوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ مشرکین کے لئے استغفار کریں) اس آیت کے نازل ہونے پر آپ نے چچا کے لئے استغفار کرنا چھوڑ دیا۔
جواب اشکال کا یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا باپ سے وعدہ کرنا کہ آپ کے لئے استغفار کروں گا یہ ممانعت سے پہلے کا واقعہ ہے اس کے بعد ممانعت کردی گئی سورة ممتحنہ میں حق تعالیٰ نے خود اس واقعہ کو بطور استشناء ذکر فرما کر اس کی اطلاع دے دی ہے (آیت) اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ اور اس سے زیادہ واضح سورة توبہ میں آیت مذکورہ (آیت) مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا کے بعد دوسری آیت میں فرمایا وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ جس سے معلوم ہوا کہ یہ استغفار اور اس کا وعدہ باپ کے کفر پر جمے رہنے اور خدا کا دشمن ثابت ہونے سے پہلے کا تھا جب یہ حقیقت واضح ہوگئی تو انہوں نے بھی براءت کا اعلان کردیا۔
Top