Maarif-ul-Quran - Maryam : 51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
اور مذکور کر کتاب میں موسیٰ کا بیشک وہ تھا چنا ہوا اور تھا رسول نبی
خلاصہ تفسیر
اور اس کتاب (یعنی قرآن) میں موسیٰ ؑ کا بھی ذکر کیجئے (یعنی لوگوں کو سنائیے ورنہ کتاب میں ذکر کرنے والا تو فی الحقیقت اللہ تعالیٰ ہے) وہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے خاص کئے ہوئے (بندے) تھے اور وہ رسول بھی تھے، نبی بھی تھے اور ہم نے ان کو کوہ طور کی داہنی جانب سے آواز دی اور ہم نے ان کو راز کی باتیں کرنے کے لئے مقرب بنایا اور ہم نے ان کو اپنی رحمت (اور عنایت) سے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر عطا کیا (یعنی ان کی درخواست کے موافق ان کو نبی کیا کہ ان کی مدد کریں) اور اس کتاب میں اسماعیل ؑ کا بھی ذکر کیجئے بلا شبہ وہ وعدے کے (بڑے) سچے تھے اور وہ رسول بھی تھے نبی بھی تھے اور پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے اور اس کتاب میں ادریس ؑ کا بھی ذکر کیجئے بیشک وہ بڑی راستی والے نبی تھی اور ہم نے ان کو (کمالات میں) بلند رتبہ تک پہنچا دیا یہ (حضرات جن کا شروع سورت سے یہاں تک ذکر ہوا زکریا ؑ سے ادریس ؑ تک یہ) وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے (خاص) انعام فرمایا ہے (چنانچہ نبوت سے بڑھ کر کون سی نعمت ہوگی) منجملہ (دیگر) انبیاء (علیہم السلام) کے (یہ وصف سب مذکورین میں مشترک ہے اور یہ سب) آدم ؑ کی نسل سے (تھے) اور بعض ان میں ان لوگوں کی نسل سے (تھے) جن کو ہم نے نوح ؑ کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا تھا (چنانچہ بجز ادریس ؑ کے کہ وہ اجداد نوح ؑ کی نسل سے ہیں باقی سب میں یہ وصف ہے) اور (بعضے ان میں) ابراہیم ؑ اور یعقوب ؑ کی نسل سے (تھے چناچہ حضرت زکریا و یحییٰ و عیسیٰ و موسیٰ (علیہم السلام) دونوں کی اولاد میں تھے اور اسحاق و اسماعیل و یعقوب (علیہم السلام) صرف حضرت ابراہیم کی اولاد میں تھے) اور (یہ سب حضرات) ان لوگوں میں سے (تھے) جن کو ہم نے ہدایت فرمائی اور ان کو مقبول بنایا (اور باوجود اس مقبولیت و اختصاص کے ان سب حضرات موصوفین کی عبدیت کی یہ کیفیت تھی کہ) جب ان کے سامنے (حضرت) رحمٰن کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو (غایت افتقار و انکسار وانقیاد کے اظہار کے لئے) سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے (زمین پر) گر جاتے تھے۔

معارف و مسائل
كَانَ مُخْلَصًا، مخلص بفتح لام وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خالص کرلیا ہو یعنی جس کو غیر اللہ کی طرف التفات نہ ہو، اس نے اپنے نفس اور تمام خواہشات کو اللہ کی مرضی کے لئے مخصوص کردیا ہو۔ یہ شان خصوصی طور پر انبیاء (علیہم السلام) کی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہے اِنَّآ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ ، یعنی ہم نے ان کو مخصوص کردیا ہے ایک خاص کام یعنی دار آخرت کی یاد کے لئے۔ امت میں جو حضرات کاملین انبیاء (علیہم السلام) کے نقش قدم پر ہوں ان کو بھی اس مقام کا ایک درجہ ملتا ہے اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ قدرتی طور پر گناہوں اور برائیوں سے بچا دئیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی حفاظت ان کے ساتھ ہوتی ہے۔
Top