Maarif-ul-Quran - Maryam : 64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ
وَمَا : اور ہم نَتَنَزَّلُ : نہیں اترتے اِلَّا : مگر بِاَمْرِ : حکم سے رَبِّكَ : تمہارا رب لَهٗ : اس کے لیے مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا : جو ہمارے ہاتھوں میں ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَنَا : ہمارے پیچھے وَمَا : اور جو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے رَبُّكَ : تمہارا رب نَسِيًّا : بھولنے والا
اور ہم نہیں اترتے مگر حکم سے تیرے رب کے اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے اور جو اس کے بیچ میں ہے اور تیرا رب نہیں ہے بھولنے والا
خلاصہ تفسیر
شان نزول
صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل ؑ سے یہ آرزو ظاہر فرمائی کہ ذرا زیادہ آیا کرو، اس پر آیت نازم ہوئی اور (ہم آپ کی درخواست کا جبرئیل ؑ کی طرف سے جواب دیتے ہیں سنئے وہ یہ ہے کہ) ہم (یعنی فرشتے) بدون آپ کے رب کے حکم کے وقتاً فوقتاً نہیں آسکتے اسی کی (ملک) ہیں ہمارے آگے کی سب چیزیں (مکان ہو یا زمان، مکانی ہو یا زمانی) اور (اسی طرح) ہمارے پیچھے کی سب چیزیں اور جو چیزیں ان کے درمیان میں ہیں (آگے کا مکان تو جو منہ کے سامنے ہو اور پیچھے کا جو پشت کی طرف ہو اور مابین ذلک جو زمانہ حال ہو) اور آپ کا رب بھولنے والا نہیں (چنانچہ یہ سب امور آپ کو پہلے سے معلوم ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم تکویناً و تشریعاً مسخر امر ہیں اپنی رائے سے ایک مکان سے دوسرے مکان میں یا جب ہم چاہیں کہیں آجا نہیں سکتے لیکن جب ہمارا بھیجنا مصلحت ہوتا ہے تو حق تعالیٰ بھیج دیتے ہیں یہ احتمال نہیں کہ شاید کسی مصلحت کے وقت بھول جاتے ہوں) وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور ان سب چیزوں کا جو ان دونوں کے درمیان میں ہیں سو (جب ایسا حاکم ومالک ہے تو اے مخاطب) تو اس کی عبادت (اور اطاعت) کیا کر اور (ایک آدھ بار نہیں بلکہ) اس کی عبادت پر قائم رہ (اور اگر اس کی عبادت نہ کرے گا تو کیا دوسرے کی عبادت کرے گا) بھلا تو کسی کو اس کا ہم صفت جانتا ہے (یعنی کوئی اس کا ہم صفت نہیں لائق عبادت بھی کوئی نہیں، پس اسی کی عبادت کرنا ضروری ہوا) اور انسان (منکر آخرت) یوں کہتا ہے کہ میں جب مرجاؤں گا تو کیا پھر زندہ کر کے قبر سے نکالا جاؤں گا (اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ) کیا (یہ) انسان اسی بات کو نہیں سمجھتا کہ ہم اس کو اس کے قبل (عدم سے) وجود میں لاچکے ہیں، اور یہ (اس وقت) کچھ بھی نہ تھا (جب ایسی حالت سے حیات کی طرف لانا آسان ہے تو دوبارہ حیات دینا تو بدرجہ اولیٰ آسان ہے) سو قسم ہے آپ کے رب کی ہم ان کو (قیامت میں زندہ کر کے موقف حشر میں) جمع کریں گے اور (ان کے ساتھ) شیاطین کو بھی (جو دنیا میں ان کے ساتھ رہ کر بہکاتے سکھاتے تھے جیسا دوسری آیت میں ہے قال قَرِيْنُهٗ رَبَّنَا مَآ اَطْغَيْتُهٗ) پھر ان (سب) کو دوزخ کے ارد گرد اس حالت سے حاضر کریں گے کہ (مارے ہیبت کے) گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے پھر (ان کفار کے) ہر گروہ میں سے (جیسے یہود و نصارٰی و مجوس بت پرست) ان لوگوں کو جدا کریں گے جو ان میں سب سے زیادہ اللہ سے سرکشی کیا کرتے تھے (تاکہ ایسوں کو اوروں سے پہلے دوزخ میں داخل کریں) پھر (یہ نہیں کہ اس جدا کرنے میں ہم کو کسی تحقیقات کی ضرورت پڑے کیونکہ) ہم (خود) ایسے لوگوں کو خوب جانتے ہیں جو دوزخ میں جانے کے زیادہ (یعنی اول) مستحق ہیں (پس اپنے علم سے ایسوں کو الگ کر کے اول ان کو پھر دوسرے کفار کو دوزخ میں داخل کریں گے اور یہ ترتیب صرف اولیت میں ہے، اور آخریت نہ ہونے میں تو سب مساوی ہیں اور جہنم کا وجود ایسا یقینی ہے کہ اس کا معائنہ سب مومن و کافر کو کرایا جائے گا گو صورت اور غرض معائنہ کی مختلف ہوگی کفار کو بطور دخول کے اور تعذیب ابدی کے واسطے اور مؤمنین کو بطور عبور پل صراط اور زیادت شکر اور فرح کے واسطے کہ اس کو دیکھ کر جو جنت میں پہنچیں گے تو اور زیادہ شکر کریں گے اور خوش ہوں گے) اور (بعض گنہگاروں کو سزائے محدود کے لئے جو کہ درحقیقت تطہیر ہے اسی عموم معائنہ کی خبر دی جاتی ہے کہ) تم میں سے کوئی بھی نہیں جس کا اس پر گزر نہ ہو (کسی کا دخولاً اور کسی کا عبوراً) یہ (وعدہ کے موافق) آپ کے رب کے اعتبار سے (بطور) لازم (مؤ کد کے) ہے جو (ضرور) پورا ہو کر رہے گا پھر (اس جہنم پر عبور سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس میں مومن و کافر برابر ہیں بلکہ) ہم ان لوگوں کو نجات دے دیں گے جو خدا سے ڈر (کر ایمان لائے) تھے، (خواہ اول ہی دفعہ میں نجات ہوجاوے جیسے مؤمنین کاملین کو اور خواہ بعد کسی قدر تکلیف کے جیسے کہ مؤمنین ناقصین کو) اور ظالموں کو (یعنی کافروں کو) اس میں (ہمیشہ کے لئے) ایسی حالت میں رہنے دیں گے کہ (مارے رنج و غم کے) گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے۔
Top