Maarif-ul-Quran - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
تو نے نہیں دیکھا کہ ہم نے چھوڑ رکھے ہیں شیطان منکروں پر اچھالتے ہیں ان کو ابھار کر
خلاصہ تفسیر
(آپ جو ان کی گمراہی سے غم کرتے ہیں تو) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہم نے شیاطین کو کفار پر (ابتلاءً) چھوڑ رکھا ہے کہ وہ ان کو (کفر و ضلال پر) خوب ابھارتے (اور اکساتے) رہتے ہیں (پھر جو خود ہی اپنے اختیار سے اپنے بدخواہ کے بہکانے میں آجاوے اس کا کیوں غم کیا جاوے) سو (جب شیاطین ابتلاءً مسلط ہوئے ہیں اور تعجیل سزائے مستحق میں ابتلاء رہتا نہیں تو) آپ ان کے لئے جلدی (عذاب ہونے کی درخواست) نہ کیجئے ہم ان کی باتیں (جن پر سزا ہوگی) خود شمار کر رہے ہیں، (اور وہ سزا ان روز واقع ہوگی) جس روز ہم متقیوں کو رحمٰن (کے دار النعیم) کی طرف مہمان بنا کر جمع کریں گے اور مجرموں کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے (اور کوئی ان کا سفارشی بھی نہ ہوگا کیونکہ وہاں) کوئی سفارش کا اختیار نہ رکھے گا مگر ہاں جس نے رحمان کے پاس سے اجازت لی ہے (وہ انبیاء و صلحاء ہیں اور اجازت خاص ہے مومنین کے ساتھ پس کفار محل شفاعت نہ ہوئے)۔

معارف و مسائل
تَـــؤ ُ زُّهُمْ اَزًّا، عربی لغت میں لفظ ھَزَّ ، اَزَّ ، فَزَّ ، حَضَّ ، سب ایک معنی میں ہیں یعنی کسی کام کے لئے ابھارنا اور آمادہ کرنا۔ خفت و شدت اور کمی زیادتی کے لحاظ سے ان میں باہمی فرق ہے۔ لفظ اَزَّ کے معنی پوری قوت اور تدبیر و تحریک کے ذریعہ کسی شخص کو کسی کام کے لئے آمادہ بلکہ مجبور کردینے کے ہیں معنی آیت کے یہ ہیں کہ شیاطین ان کو اعمال بد پر ابھارتے رہتے ہیں اور ان کی خوبیاں ان کے دل پر مسلط کردیتے ہیں خرابیوں پر نظر نہیں ہونے دیتے۔
Top