Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور پیچھے ہو لئے اس علم کے جو بڑہتے تھے شیطان سلیمان کی بادشاہت کیوقت اور کفر نہیں کیا سلیمان نے لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ سکھلاتے تھے لوگوں کو جادو، اور اس علم کے پیچھے ہو لئے جو اترا دو فرشتوں پر شہر بابل میں جن کا نام ہاروت ہے اور انہیں سکھاتے تھے وہ دونوں فرشتے کسی کو جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو آزمائش کیلئے ہیں سو تو کافر مت ہو پھر ان سے سیکھتے وہ جادو جس سے جدائی ڈالتے ہیں مرد میں اور اس کی عورت میں، اور وہ اس سے نقصان نہیں کرسکتے کسی کا بغیر حکم اللہ کے، اور سیکھتے ہیں وہ چیز جو نقصان کرے ان کا اور فائدہ نہ کرے اور خوب جان چکے ہیں کہ جس نے اختیار کیا جادو کو نہیں اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ، اور بہت ہی بری چیز ہے جس کے بدلے بیچا انہوں نے اپنے آپ کو اگر ان کو سمجھ ہوتی
خلاصہ تفسیر
اور (یہودی ایسے بےعقل ہیں کہ) انہوں نے (کتاب اللہ کا تو اتباع نہ کیا اور) ایسی چیز کا (یعنی سحر وجادو کا) اتباع (اختیار) کیا جس کا چرچا کیا کرتے تھے شیاطین (یعنی خبیث جن) حضرت سلیمان ؑ کے (عہد) سلطنت میں اور (بعضے بیوقوف جو حضرت سلیمان ؑ پر گمان سحر رکھتے ہیں بالکل ہی لغو بات ہے کیونکہ سحر تو اعتقادا یا عملا کفر ہے اور) حضرت سلیمان ؑ نے (نعوذ باللہ کبھی) کفر نہیں کیا (ہاں) شیاطین (یعنی خبیث جن بیشک) کفر (کی باتیں اور کام یعنی سحر) کیا کرتے تھے اور حالت یہ تھی کہ (خود تو کرتے ہی اور) آدمیوں کی بھی (اس) سحر کی تعلیم کیا کرتے تھے (سو وہی سحر متوارث چلا آرہا ہے اس کا اتباع یہ یہودی کرتے ہیں) اور اسی طرح اس (سحر) کا بھی (یہ لوگ اتباع کرتے ہیں) جو کہ ان دونوں فرشتوں پر (ایک خاص حکمت کے واسطے) نازل کیا گیا تھا (جو شہر) بابل میں (رہتے تھے) جن کا نام ہاروت وماروت تھا اور وہ دونوں (وہ سحر) کسی کو نہ بتلاتے جس تک جب تک (احتیاطا پہلے) یہ (نہ) کہہ دیتے کہ ہمارا وجود بھی (لوگوں کے لئے) ایک امتحان (خداوندی) ہے کہ (ہماری زبان سے سحر پر مطلع ہو کر کون پھنستا ہے اور کون بچتا ہے) سو تو (اس پر مطلع ہوکر) کہیں کافر مت بن جائیو (کہ اس میں پھنس جاؤ) سو بعضے لوگ ان دونوں (فرشتوں) سے اس قسم کا سحر سیکھ لیتے تھے جس کے ذریعہ سے (عمل کرکے) کسی مرد اور اس کی بیوی میں تفریق پیدا کردیتے تھے اور (اس سے کوئی وہم اور خوف میں نہ پھنس جاوے کہ جادوگر جو چاہے کرسکتا ہے کیونکہ یہ یقینی بات ہے کہ) یہ (ساحر) لوگ اس (سحر) کے ذریعے سے کسی کو (ذرہ برابر) بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے مگر خدا ہی کے (تقدیری) حکم سے اور (ایسا سحر حاصل کرکے بس) ایسی چیزیں سیکھ لیتے ہیں جو (خود) ان کو (بوجہ گناہ کے) ضرر رساں ہیں اور (کسی معتدبہ درجہ میں) ان کو نافع نہیں ہیں (تو یہودی بھی اتباع سحر سے بڑے ضرر میں ہوں گے) اور یہ (بات کچھ ہمارے ہی کہنے کی نہیں بلکہ) ضرور یہ (یہودی) کوئی اتنا جانتے ہیں کہ جو شخص اس (سحر) کو (کتاب اللہ کے عوض) اختیار کرے ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ (باقی) نہیں اور بیشک بری ہے وہ چیز (یعنی جادو و کفر) جس میں وہ لوگ اپنی جان دے رہے ہیں کاش ان کو (اتنی) عقل ہوتی اور اگر وہ لوگ (بجائے اس کفر و بدعملی کے) ایمان اور تقوے ٰ (اختیار) کرتے تو خدا تعالیٰ کے یہاں کا معاوضہ (اس کفر وبد عملی سے ہزار درجے) بہتر تھا کاش اتنی عقل ہوتی،
معارف و مسائل
آیت مذکورہ کی تفسیر اور شان نزول میں نقل کی ہوئی اسرائیلی روایات سے بہت سے لوگوں کو مختلف قسم کے شبہات پیش آتے ہیں ان شبہات کا حل سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے نہایت واضح اور سہل انداز میں فرمایا ہے اس جگہ اس کو بعینہ نقل کردینا کافی ہے وہ یہ ہے،
1۔ یہ بیوقوف لوگ جو حضرت سلیمان ؑ کی طرف جادو کی نسبت کرتے تھے، یہودی تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے درمیان آیت میں حضرت سلیمان ؑ کی براءت بھی ظاہر فرمادی،
ان آیتوں میں یہودیوں کی برائی کرنا مقصود ہے کیونکہ ان میں جادو کا چرچا تھا ان آیتوں کے متعلق زہرہ کا ایک لمبا چوڑا قصہ بھی مشہور ہے جو کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں، جن علماء نے اس قصہ کو قواعد شرعیہ کے خلاف سمجھا ہے رد کردیا ہے اور جنہوں نے اس میں تاویل کو خلاف شرع نہیں سمجھا ہے رد نہیں کیا ہمیں یہاں فی الوقت اس کے صحیح یا غلط ہونے سے بحث نہیں البتہ اتنا ضرور ہے ان آیات کی تفسیر اس قصہ پر موقوف نہیں جیسے کہ ناظرین کو معارف و مسائل کے اس زیر عنوان مضمون سے اندازہ ہوجائے گا،
اور یہودی سب باتوں کے جاننے کے باوجود چونکہ عمل علم کے خلاف کرتے تھے اور تدبر سے کام نہ لیتے تھے اس لئے اول تو ان کے جاننے کی خبر دی اور پھر آخر میں یہ کہہ کر اس کی نفی بھی کردی کہ کاش ان کو علم وعقل ہوتی کیونکہ جس علم پر عمل اور تدبر نہ ہو وہ جہل کی مانند ہے،
ایک زمانے میں جس کی پوری تعیین میں کوئی محققانہ رائے اس وقت سامنے نہیں دنیا میں اور خصوصاً بابل میں جادو کا بہت چرچا تھا اور اس کے عجیب اثرات کو دیکھ کر جاہلوں کو اس کی حقیقت اور انبیاء کرام کے معجزات کی حقیقت میں اختلاط و اشتباہ ہونے لگا اور بعض لوگ جادوگروں کو مقدس اور قابل اتباع سمجھنے لگے اور بعض لوگ جادو کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے لگے جیسا موجودہ دور میں مسمریزم کے ساتھ لوگوں کا معاملہ ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے اس اشتباہ اور غلطی کے رفع کرنے کے لئے بابل میں دو فرشتے ہاروت وماروت نامی اس کام کے لئے بھیجے کہ لوگوں کو سحر کی حقیقت اور اس کے شعبوں سے مطلع کردیں تاکہ اشتباہ جاتا رہے، اور جادو پر عمل کرنے نیز جادوگروں کے اتباع کرنے سے اجتناب کرسکیں اور جس طرح انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت کو معجزات و دلائل سے ثابت کردیا جاتا ہے اسی طرح ہاروت وماروت کے فرشتہ ہونے پر دلائل قائم کردئیے گئے تاکہ ان کے احکامات و ارشادات کی تعمیل و اطاعت ممکن ہو،
اور یہ کام انبیاء (علیہم السلام) سے اس لئے نہیں لیا گیا کہ اول تو انبیاء اور جادوگروں میں امتیاز وفصل کرنا مقصود تھا ایک حیثیت سے گویا انبیاء کرام ایک فریق کا درجہ رکھتے تھے اس لئے حکم فریقین کے علاوہ کوئی اور ثالث ہونا مناسب تھا،
دوسرے اس کام کی تکمیل بغیر جادو کے الفاظ کی نقل وحکایت کے عادۃ ہو نہ سکتی تھی، اگرچہ نقل کفر کفر نباشد کے عقلی ونقلی مسلمہ قاعدہ کے مطابق ایسا ہوسکتا تھا مگر چونکہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) مظہر ہدایت ہوتے تھے اس لئے ان سے یہ کام لینا مناسب نہ سمجھا گیا لہذا فرشتوں کو اس کام کے لئے تجویز کیا گیا کیونکہ کارخانہ تکوین میں جو خیر وشر سب پر مشتمل ہوتا ہے ان فرشتوں سے ایسے کام بھی لئے جاتے ہیں جو مجموعہ عالم کے اعتبار سے تو بوجہ مصالح عامہ خیر ہوں، لیکن لزوم مفسدہ کے سبب فی ذاتہ شر ہوں جیسے کسی ظالم و جابر یا موذی جانور وغیرہ کی نشوونما اور غور وپرداخت کہ تکوینی اعتبار سے تو درست و محمود ہے اور تشریعی لحاظ سے نادرست و مذموم بخلاف انبیاء (علیہم السلام) کے کہ ان سے خاص تشریعیات کا کام ہی لیا جاتا ہے جو خصوصاً و عموماً خیر ہی خیر ہوتا ہے اور گو کہ یہ نقل وحکایت مذکورہ غرض کے لحاظ سے ایک تشریعی کام ہی تھا لیکن پھر بھی بوجہ احتمال قریب اس امر کے کہ کہیں یہ نقل وحکایت بھی جادو پر عمل کا سبب نہ بن جائے جیسا کہ واقع میں ہوا تو حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو اس کا سبب بواسطہ نقل بنانا بھی پسند نہیں کیا گیا،
البتہ کلیات شرعیہ سے انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ بھی اس مقصود کی تکمیل کردی گئی ان کلیات کے جزئیات کے تفصیلات بوجہ احتمال فتنہ انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعہ بیان نہیں کی گئیں اس کی مثال ایسی ہے کہ مثلاً انبیاء نے یہ بھی بتایا ہے کہ رشوت لینا حرام ہے اور اس کی حقیقت بھی بتلادی لیکن یہ جزئیات نہیں بتلائے کہ ایک طریقہ رشوت کا یہ ہے کہ صاحب معاملہ سے یوں چال کرکے فلاں بات کہے وغیرہ وغیرہ،
کیونکہ اس طرح کی تفصیلات بیان کرنے سے تو لوگ اور ترکیبیں سیکھ سکتے ہیں یا مثلا اقسام سحر ہی میں مثال فرض کیجئے کہ قواعد کلیہ سے یہ بتلا دیا گیا ہے کہ دست غیب کا عمل جس میں تکیہ کے نیچے یا جیب میں رکھے ہوئے روپے مل جائیں ناجائز ہے لیکن یہ نہیں بتلایا کہ فلاں عمل پڑھنے سے اس طرح روپیہ ملنے لگتے ہیں،
حاصل کلام یہ کہ فرشتوں نے بابل میں آکر اپنا کام شروع کردیا کہ سحر کے اصول و فروع ظاہر کرکے لوگوں کو اس کے عمل بد سے بچنے کی اور ساحرین سے نفرت ودوری رکھنے کی تنبیہ اور تائید کی جیسے کوئی عالم دیکھے کہ جاہل لوگ اکثر نادانی سے کفریہ کلمات بک جاتے ہیں اس لئے وہ تقرراً یا تحریراً ان کلمات کو جو اس وقت شائع ہیں جمع کرکے عوام کو مطلع کردے کہ دیکھو یہ کلمات بچنے کے لائق ہیں ان سے احتیاط رکھنا،
جب فرشتوں نے کام شروع کیا تو وقتا فوقتا مختلف لوگوں کی آمد ورفت ان کے پاس شروع ہوئی اور وہ درخواست کرنے لگے کہ ہم کو بھی ان اصول و فروع سے مطلع کردیجئے تاکہ ناواقفی سے کسی اعتقادی یا عملی فساد میں مبتلا نہ ہوجائیں اس وقت فرشتوں نے بطور احتیاط و تبلیغ اور بنظر اصلاح یہ التزام کیا کہ اصول و فروع بتانے سے قبل یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ دیکھو ہمارے یہ بتانے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی آزمائش بھی مقصود ہے کہ دیکھیں ان چیزوں پر مطلع ہو کر کون شخص اپنے دین کی حفاظت و اصلاح کرتا ہے کہ شر سے آگاہ ہو کر اس سے بچے اور کون اپنا دین خراب کرتا ہے کہ اس شر پر مطلع ہو کر وہی شر خود اختیار کرلے جس کا انجام کفر ہے خواہ کفر عملی ہو یا اعتقادی دیکھو ہم تم کو نصیحت کئے دیتے ہیں کہ اچھی نیت سے اطلاع حاصل کرنا اور پھر اسی نیت پر ثابت قدم رہنا ایسا نہ ہو کہ ہم سے تو یہ کہہ کر سیکھ لو کہ میں بچنے کے لئے پوچھ رہا ہوں اور پھر اس کی خرابی میں خود ہی مبتلا ہوجاؤ اور ایمان برباد کرلو،
اب ظاہر ہے کہ وہ اس سے زیادہ خیر خواہی اور کیا کرسکتے تھے غرض جو کوئی ان سے اس طرح عہد و پیمان کرلیتا وہ اس کے رو برو جادو کے سب اصول و فروع بیان کردیتے تھے کیونکہ ان کا کام ہی یہ تھا اب اگر کوئی عہد شکنی کرکے اپنے ارادہ واختیار سے کافر وفاجر بنے وہ جانے چناچہ بعضے اس عہد پر قائم نہ رہے اور اس جادو کو مخلوق کی ایذا رسانی کا ذریعہ بنالیا جو فسق تو یقیناً ہے اور بعضے طریقے اس کے استعمال کے کفر بھی ہیں اس طرح سے فاجر کافر بن گئے،
اس ارشاد اصلاحی اور پھر مخاطب کے خلاف کرنے کی مثال اس طرح ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص کسی جامع معقول و منقول عالم باعمل کے پاس جائے کہ مجھ کو قدیم یا جدید فلسفہ پڑھا دیجئے تاکہ خود بھی ان شبہات سے محفوظ رہوں جو فلسفہ میں اسلام کے خلاف بیان کئے جاتے ہیں اور مخالفین کو بھی جواب دے سکوں اور اس عالم کو یہ احتمال ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ کو دھوکہ دے کر پڑھ لے اور پھر خود ہی خلاف شرع عقائد باطلہ کو تقویت دینے میں اس کو استعمال کرنے لگے اس احتمال کی وجہ سے اس کو نصیحت کرے کہ ایسا مت کرنا اور وہ وعدہ کرلے اور اس لئے اس کو پڑھا دیا جاوے لیکن وہ شخص فلسفہ کے خلاف اسلام نظریات و عقائد ہی کو صحیح سمجھنے لگے تو ظاہر ہے کہ اس کی اس حرکت سے اس معلم پر کوئی ملامت یا برائی عائد نہیں ہوسکتی اس طرح اس اطلاع سحر سے ان فرشتوں پر بھی نہ کسی شبہ کی گنجائش ہے نہ وسوسہ کی،
اور اس فرض کی تکمیل کے بعد غالباً وہ فرشتے آسمان پر بلا لئے گئے ہوں گے، واللہ اعلم بحقیقۃ الحال (بیان القرآن)
سحر کی حقیقت
سحر بالکسر لغت میں ہر ایسے اثر کو کہتے ہیں جس کا سبب ظاہر نہ ہو (قاموس) خواہ وہ سبب معنوی ہو جیسے خاص خاص کلمات کا اثر یا غیر محسوس چیزوں کا ہو، جیسے جنات و شیاطین کا اثر یا مسمریزم میں قوت خیالیہ کا اثر یا محسوسات کا ہو مگر وہ محسوسات مخفی ہوں جیسے مقناطیس کی کشش لوہے کے لئے جبکہ مقناطیس نظروں سے پوشیدہ ہو، یا دواؤں کا اثر جبکہ وہ دوائیں مخفی ہوں یا نجوم وسیارات کا اثر،
اسی لئے جادو کی اقسام بہت ہیں مگر عرف عام میں عموماً جادو ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جن میں جنات و شیاطین کے عمل کا دخل ہو یا قوت خیالیہ مسمریزم کا یا کچھ الفاظ و کلمات کا کیونکہ یہ بات عقلاً بھی ثابت ہے اور تجربہ و مشاہدہ سے بھی اور قدیم وجدید فلاسفہ بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ حروف و کلمات میں بھی بالخاصہ کچھ تاثرات ہوتے ہیں کسی خاص حرف یا کلمہ کو کسی خاص تعداد میں پڑھنے یا لکھنے وغیرہ سے خاص خاص تاثرات کا مشاہدہ ہوتا ہے یا ایسے تاثرات جو کسی انسانی بالوں یا ناخنوں وغیرہ اعضاء یا اس کے استعمالی کپڑوں کے ساتھ کچھ دوسری چیزیں شامل کرکے پیدا کی جاتی ہیں جن کو عرف عام میں ٹونہ ٹوٹکا کہا جاتا ہے اور جادو میں شامل سمجھا جاتا ہے،
اور اصطلاح قرآن وسنت میں سحر ہر ایسے امر عجیب کو کہا جاتا ہے جس میں شیاطین کی مدح کی گئی ہو یا کواکب ونجوم کی عبادت اختیار کی گئی ہو جس سے شیطان خوش ہوتا ہے ،
کبھی ایسے اعمال اختیار کئے جاتے ہیں جو شیطان کو پسند ہیں مثلاً کسی کو ناحق قتل کرکے اس کا خون استعمال کرنا یا جنابت ونجاست کی حالت میں رہنا طہارت سے اجتناب کرنا وغیرہ،
جس طرح اللہ تعالیٰ کے پاک فرشتوں کی مدد، ان اقوال و افعال سے حاصل کی جاتی ہے جن کو فرشتے پسند کرتے ہیں مثلا تقویٰ ، طہارت، اور پاکیزگی، بدبو اور نجاست سے اجتناب، ذکر اللہ اور اعمال خیر،
اسی طرح شیاطین کی امداد ایسے اقوال و افعال سے حاصل ہوتی ہے جو شیطان کو پسند ہیں اسی لئے سحر صرف ایسے کاموں کے عادی ہوں عورتیں بھی ایام حیض میں یہ کام کرتی ہیں تو مؤ ثر ہوتا ہے باقی شعبدے اور ٹوٹکے یا ہاتھ چالاکی کے کام یا مسمریزم وغیرہ ان کو مجازاً سحر کہہ دیا جاتا ہے (روح المعانی)
سحر کے اقسام
امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ سحر کی مختلف قسمیں ہیں ایک قسم تو محض نظر بندی اور تحنیل ہوتی ہے جس کی کوئی حقیقت واقعیہ نہیں جیسے بعض شعبدہ باز اپنی ہاتھ چالاکی سے ایسے کام کرلیتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظریں اس کو دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں یا قوت خیالیہ مسمریزم وغیرہ کے ذریعہ کسی کے دماغ پر ایسا اثر ڈالا جائے کہ وہ ایک چیز کو آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے مگر اس کی کوئی حقیقت واقعیہ نہیں ہوتی کبھی یہ کام شیاطین کے اثر سے بھی ہوسکتا ہے کہ مسحور کی آنکھوں اور دماغ پر ایسا اثر ڈالا جائے جس سے وہ ایک غیر واقعی چیز کو حقیقت سمجھنے لگے قرآن مجید میں فرعونی ساحروں کے جس سحر کا ذکر ہے وہ پہلی قسم کا سحر تھا جیسا کہ ارشاد ہے
سَحَرُوْٓا اَعْيُنَ النَّاسِ (116: 7) انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔
اور ارشاد ہے
فَاَلْقٰىهَا فَاِذَا هِىَ حَيَّةٌ تَسْعٰي (66: 20) ان کے سحر سے موسیٰ ؑ کے خیال میں یہ آنے لگا کہ یہ رسیوں کے سانپ دوڑ رہے ہیں،
اس میں یخیل کے لفظ سے یہ بتلا دیا گیا کہ یہ رسیاں اور لاٹھیاں جو ساحروں نے ڈالی تھیں نہ درحقیقت سانپ بنی اور نہ انہوں نے کوئی حرکت کی بلکہ حضرت موسیٰ ؑ کی قوت متخیلہ متاثر ہو کر ان کو دوڑنے والے سانپ سمجھنے لگی،
دوسری قسم اس طرح کی تخییل اور نظر بندی ہے جو بعض اوقات شیاطین کے اثر سے ہوتی ہے جو قرآن کریم کے اس ارشاد سے معلوم ہوئی
هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ تَنَزَّلُ عَلٰي كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِـيْمٍ (222: 221: 26) میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ کن لوگوں پر شیطان اترتے ہیں ہر بہتان باندھنے والے گناہگار پر اترتے ہیں،
نیز دوسری جگہ ارشاد ہے
وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ (102: 2) یعنی شیاطین نے کفر اختیار کیا لوگوں کو جادو سکھانے لگے،
تیسری قسم یہ ہے کہ سحر کے ذریعے ایک شے کی حقیقت ہی بدل جائے جیسے کسی انسان یا جاندار کو پتھر یا کوئی جانور بنادیں امام راغب اصفہانی ابوبکر جصاص وغیرہ حضرات نے اس سے انکار کیا ہے کہ سحر کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت بدل جائے بلکہ سحر کا اثر صرف تخییل اور نظر بندی ہی تک ہوسکتا ہے معتزلہ کا بھی یہی قول ہے مگر جمہور علماء کی تحقیق یہ ہے کہ انقلاب اعیان میں نہ کوئی عقلی امتناع ہے نہ شرعی، مثلاً کوئی جسم پتھر بن جائے یا ایک نوع سے دوسری نوع کی طرف منقلب ہوجائے،
اور فلاسفہ کا جو یہ قول مشہور ہے کہ انقلاب حقائق ممکن نہیں ان کی مراد حقائق سے محال ممکن واجب کی حقیقتیں ہیں کہ ان میں انقلاب عقلاً ممکن نہیں کہ کوئی محال ممکن بن جائے یا کوئی ممکن محال بن جائے۔ اور قرآن عزیز میں فرعونی ساحروں کے سحر کو جو تخییل قرار دیا ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر سحر تخییل ہی ہو اس سے زائد اور کچھ نہ ہو اور بعض حضرات نے سحر کے ذریعہ انقلاب حقیقت کے جواز پر حضرت کعب احبار کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو مؤ طاء امام مالک میں بروایت قعقاع بن حکیم منقول ہے،
لولا کلمات اقولہن لجعلتنی الیہود حمارا اگر یہ چند کلمات نہ ہوتے جن کو میں پابندی سے پڑہتا ہوں تو یہودی مجھے گدھا بنا دیتے،
گدھا بنا دینے کا لفظ مجازی طور پر بیوقوف بنانے کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے مگر بلاضرورت حقیقت کو چھوڑ کر مجاز مراد لینا صحیح نہیں اس لئے حقیقی اور ظاہری مفہوم اس کا یہی ہے کہ اگر میں یہ کلمات روزانہ پابندی سے نہ پڑہتا تو یہودی جادوگر مجھے گدھا بنادیتے،
اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں اول یہ کہ سحر کے ذریعے انسان کو گدھا بنا دینے کا امکان ہے دوسرے یہ کہ جو کلمات وہ پڑھا کرتے تھے ان کی تاثیر یہ ہے کہ کوئی جادو اثر نہیں کرتا حضرت کعب احبار سے جب لوگوں نے پوچھا کہ وہ کلمات کیا تھے جو آپ نے یہ کلمات بتلائے
اعوذ بوجہ اللہ العظیم الذی لیس شیءٌ اعظم منہ وبکلمات اللہ التامات التی لا یج اور زھن بر ولا فاجر وباسماء اللہ الحسنیٰ کلہا ما علمت منہا وما لم اعلم من شر ما خلق وبرأ وذرأ (اخرجہ فی المؤ طاء باب التعوذ عند النوم
میں اللہ کی عظیم کی پناہ پکڑتا ہوں جس سے بڑا کوئی نہیں اور پناہ پکڑتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کی جن سے کوئی نیک وبد انسان آگے نہیں نکل سکتا اور پناہ پکڑتا ہوں اللہ کے تمام اسماء حسنیٰ کی جن کو میں جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا ہر اس چیز کے شر سے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور وجود دیا اور پھیلایا ہے
خلاصہ یہ ہے کہ سحر کی یہ تینوں قسمیں ممکن الوقوع ہیں،
سحر اور معجزے میں فرق
جس طرح انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات یا اولیاء کرام کی کرامات سے ایسے واقعات مشاہدے میں آتے ہیں جو عادۃ نہیں ہوسکتے اسی لئے ان کو خرق عادت کہا جاتا ہے بظاہر سحر اور جادو بھی ایسے ہی آثار مشاہدے میں آتے ہیں اس لئے بعض جاہلوں کو ان دونوں میں التباس بھی ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ جادوگروں کی تعظیم و تکریم کرنے لگتے ہیں اس لئے دونوں کا فرق بیان کرنا ضروری ہے،
سو یہ فرق ایک تو اصل حقیقت کے اعتبار سے ہے اور ایک ظاہری آثار کے اعتبار سے حقیقت کا فرق تو یہ ہے کہ سحر اور جادو سے جو چیزیں مشاہدے میں آتی ہیں یہ دائرہ اسباب سے الگ کوئی چیز نہیں فرق صرف اسباب کے ظہور وخفاء کا ہے جہاں اسباب ظاہر ہوتے ہیں وہ آثار ان اسباب کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں اور کوئی تعجب کی چیز نہیں سمجھی جاتی لیکن جہاں اسباب مخفی ہوں تو وہ تعجب کی چیز ہوتی ہے اور عوام اسباب کے نہ جاننے کی وجہ سے اس کو خرق عادت سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ وہ درحقیقت تمام عادی امور کی طرح کسی جن شیطان کے اثر سے ہوتی ہے ایک مشرق بعید سے آج کا لکھا ہوا اچانک سامنے آکر گرگیا تو دیکھنے والے اس کو خرق عادت کہیں گے حالانکہ جنات و شیاطین کو ایسے اعمال و افعال کی قوت دی گئی ہے ان کا ذریعہ معلوم ہو تو پھر کوئی خرق عادت نہیں رہتا خلاصہ یہ ہے کہ سحر سے ظاہر ہونے والے تمام آثار اسباب طبعیہ کے ماتحت ہوتے ہیں مگر اسباب کے مخفی ہونے کے سبب لوگوں کو مغالطہ خرق عادت کا ہوجاتا ہے بخلاف معجزہ کے کہ وہ بلا واسطہ فعل حق تعالیٰ کا ہوتا ہے اس میں اسباب طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا حضرت ابراہیم ؑ کے لئے نمرود کی آگ کو حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم ؑ کے لئے ٹھنڈی ہوجائے مگر ٹھنڈک بھی اتنی نہ ہو جس سے تکلیف پہنچے بلکہ جس سے سلامتی ہو اس حکم الہی سے آگ ٹھنڈی ہوگئی،
آج بھی بعض لوگ بدن پر کچھ دوائیں استعمال کرکے آگ کے اندر چلے جاتے ہیں وہ معجزہ نہیں بلکہ دواؤں کا اثر ہے دوائیں مخفی ہونے سے لوگوں کو دھوکا خرق عادت کا ہوجاتا ہے، یہ بات کہ معجزہ براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے خود قرآن عزیز کی تصریح سے ثابت ہے ارشاد فرمایا، وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى (17: 8) کنکریوں کی مٹھی جو آپ نے پھینکی درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی ہے،
مراد یہ ہے کہ ایک مٹھی خاک اور کنکر کی سارے مجمع کی آنکھوں تک پہنچ جانا اس میں آپ کے عمل کو کوئی دخل نہیں یہ خالص حق تعالیٰ کا فعل ہے یہ معجزہ غزوہ بدر میں پیش آیا تھا کہ آپ نے ایک مٹھی خاک اور سنگریزوں کی کفار کے لشکر پر پھینکی (جوسب کی آنکھوں میں پڑگئی،)
معجزہ اور سحر کی حقیقتوں کا یہ فرق کہ معجزہ بلاواسطہ اسباب طبعیہ کے براہ راست حق تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے اور جادو و اسباب طبعیہ مخفیہ کا اثر ہوتا ہے حقیقت سمجھنے کے لئے تو کافی وافی ہے مگر یہاں ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ عوام الناس اس فرق کو کیسے پہچانیں کیونکہ ظاہری صورت دونوں کی ایک سی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ عوام کے پہچاننے کے لئے حق تعالیٰ نے کئی فرق ظاہر کردئیے ہیں۔
اول یہ کہ معجزہ یا کرامت ایسے حضرات سے ظاہر ہوتی ہے جن کا تقویٰ طہارت و پاکیزگی اخلاق و اعمال کا سب مشاہدہ کرتے ہیں اس کے برعکس جادو کا اثر صرف ایسے لوگوں سے ظہور پذیر ہوتا ہے جو گندے ناپاک اللہ کے نام سے اور اس کی عبادت سے دور رہتے ہیں یہ چیز ہر انسان آنکھوں سے دیکھ کر معجزہ اور سحر میں فرق پہچان سکتا ہے،
دوسرے یہ کہ عادۃ اللہ یہ بھی جاری ہے کہ جو شخص معجزے اور نبوت کا دعویٰ کرکے کوئی جادو کرنا چاہے اس کا جادو نہیں چلتا ہاں نبوت کے دعوے کے بغیر کرے تو چل جاتا ہے،
کیا انبیاء پر بھی جادو کا اثر ہوسکتا ہے ؟
جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے وجہ وہی ہے جو اوپر بتلائی گئی کہ سحر درحقیقت اسباب طبعیہ ہی کا اثر ہوتا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اسباب طبعیہ کے اثرات سے متاثر ہوتے ہیں یہ تأثر شان نبوت کے خلاف نہیں جیسے ان کا بھوک پیاس سے متاثر ہونا بیماری میں مبتلا ہونا اور شفاء پانا ظاہری اسباب سے سب جانتے ہیں اسی طرح جادو کے باطنی اسباب سے بھی انبیاء (علیہم السلام) متأثر ہوسکتے ہیں اور تأثر شان نبوت کے منافی نہیں،
رسول اللہ ﷺ پر یہودیوں کا سحر کرنا اور اس کی وجہ سے آپ پر بعض آثار کا ظاہر ہونا اور بذریعہ وحی اس جادو کا پتہ لگنا اور اس کا ازالہ کرنا احادیث صحیحہ میں ثابت ہے اور حضرت موسیٰ ؑ کا سحر سے متاثر ہونا خود قرآن میں مذکور ہے آیات، يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰي اور، فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى
(67، 66: 20) موسیٰ ؑ پر خوف طاری ہونا اسی جادو ہی کا اثر تھا،
سحر کے احکام شرعیہ
جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے قرآن و حدیث کی اصطلاح میں سحر صرف ایسے عمل کو کہا گیا ہے جس میں کفر و شرک اور فسق و فجور اختیار کرکے جنات و شیاطین کو راضی کیا گیا ہو اور ان سے مدد لی گئی ہو ان کی امداد سے کچھ عجیب واقعات ظاہر ہوگئے ہوں سحر بابل جس کا قرآن میں ذکر ہے وہ یہی تھا (جصاص) اور اسی سحر کو قرآن میں کفر قرار دیا ہے ابو منصور نے فرمایا کہ صحیح یہی ہے کہ مطلقاً سحر کی سب اقسام کفر نہیں بلکہ صرف وہ سحر کفر ہے جس میں ایمان کے خلاف اقوال و اعمال اختیار کئے گئے ہوں (روح المعانی)
اور یہ ظاہر ہے کہ شیاطین پر لعنت کرنے اور ان سے عداوت و مخالفت کرنے کے احکام قرآن و حدیث میں بار بار آئے ہیں اس کے خلاف ان سے دوستی اور ان کو راضی کرنے کی فکر خود ہی ایک گناہ ہے پھر وہ راضی جب ہی ہوتے ہیں جب انسان کفر و شرک میں مبتلا ہو جس سے ایمان ہی سلب ہوجائے یا کم از کم فسق و فجور میں مبتلا ہو اور اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی مرضیات کے خلاف گندہ اور نجس رہے یہ مزید گناہ ہے اور اگر جادو کے ذریعے کسی کو ناحق نقصان پہنچایا تو یہ اور گناہ ہے،
غرض اصطلاح قرآن وسنت میں جس کو سحر کہا گیا ہے وہ کفر اعتقادی یا کم از کم کفر عملی سے خالی نہیں ہوتا اگر شیاطین کو راضی کرنے کے کچھ اقوال یا اعمال کفر و شرک کے اختیار کئے تو کفر حقیقی اعتقادی ہوگا اور اگر کفر و شرک کے اقوال و افعال سے بچ بھی گیا مگر دوسرے گناہوں کا ارتکاب کیا تو کفر عملی سے خالی نہ رہا قرآن عزیز کی آیات مذکورہ میں جو سحر کو کفر کہا گیا ہے وہ اسی اعتبار سے ہے کہ یہ سحر کفر حقیقی اعتقادی یا کفر عملی سے خالی نہیں ہوتا،
خلاصہ یہ ہے کہ جس سحر میں کوئی عمل کفر اختیار کیا گیا ہو جیسے شیاطین سے استغاثہ واستمداد یا کواکب کی تاثیر کو مستقل ماننا یا سحر کو معجزہ قرار دے کر اپنی نبوت کا دعویٰ کرنا وغیرہ تو یہ سحر باجماع کفر ہے اور جس میں یہ افعال کفر نہ ہوں مگر معاصی کا ارتکاب ہو وہ گناہ کبیرہ ہے۔
مسئلہجب یہ معلوم ہوگیا کہ یہ کفر اعتقادی یا عملی سے خالی نہیں تو اس کا سیکھنا اور سکھانا بھی حرام ہوا اس پر عمل کرنا بھی حرام ہوا البتہ اگر مسلمانوں سے دفع ضرر کیلئے بقدر ضرورت سیکھا جائے تو بعض فقہاء نے اجازت دی ہے (شامی عالمگیری)
مسئلہتعویذ گنڈے وغیرہ جو عامل کرتے ہیں ان میں بھی اگر جنات و شیاطین سے استمداد ہو تو بحکم سحر ہیں اور حرام ہے۔
مسئلہقرآن وسنت کے اصطلاحی سحر بابل کے علاوہ باقی قسمیں سحر کی ان میں بھی اگر کفر و شرک کا ارتکاب کیا جائے تو وہ بھی حرام ہے۔
مسئلہاور خالی مباح اور جائز امور سے کام لیا جاتا ہو تو اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اس کو کسی ناجائز مقصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔
مسئلہاگر قرآن و حدیث کے کلمات ہی سے کام لیا جائے مگر ناجائز مقصد کے لئے استعمال کریں تو وہ بھی جائز نہیں مثلاً کسی کو ناحق ضرر پہنچانے کے لئے کوئی تعویذ کیا جائے یاو ظیفہ پڑھا جائے اگرچہ وظیفہ اسماء الہیہ یا آیات قرآنیہ ہی کا ہو وہ بھی حرام ہے (فتاویٰ قاضی خاں وشامی)
Top