Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 125
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ : اور جب جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الْبَيْتَ : خانہ کعبہ مَثَابَةً : اجتماع کی جگہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لئے وَاَمْنًا : اور امن کی جگہ وَاتَّخِذُوْا : اور تم بناؤ مِنْ : سے مَقَامِ : مقام اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم مُصَلًّى : نماز کی جگہ وَعَهِدْنَا : اور ہم نے حکم دیا اِلٰى : کو اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيلَ : اور اسماعیل اَنْ طَهِّرَا : کہ پاک رکھیں بَيْتِيَ : وہ میرا گھر لِلطَّائِفِينَ : طواف کرنے والوں کیلئے وَالْعَاكِفِينَ : اور اعتکاف کرنے والے وَالرُّکَعِ : اور رکوع کرنے والے السُّجُوْدِ : اور سجدہ کرنے والے
اور جب مقرر کیا ہم نے خانہ کعبہ کو اجتماع کی جگہ لوگوں کے واسطے اور جگہ امن کی، اور بناؤ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ اور حکم کیا ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو کہ پاک رکھو میرے گھر کو واسطے طواف کرنیوالوں کے اور اعتکاف کرنیوالوں کے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے۔
حل لغات مثابۃ یہ لفظ ثاب یثوب ثوباً ومثاباً سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹنے کے ہیں اس لئے مثابہ کے مرجع کے ہوگئے جہاں آدمی بار بار لوٹ کرجائے
خلاصہ تفسیر
(اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ) جس وقت ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا معبد اور (مقام) امن (ہمیشہ سے) مقرر رکھا اور (آخر میں امت محمدیہ کو حکم دیا کہ برکت حاصل کرنے کے لئے) مقام ابراہیم کو (کبھی کبھی) نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیا کرو اور ہم نے (بناء کعبہ کے وقت) ابراہیم و (حضرت) اسمعٰیل (علیہما السلام) کی طرف حکم بھیجا کہ میرے (اس) گھر کو خوب پاک (صاف) رکھا کرو بیرونی اور مقامی لوگوں (کی عبادت) کے واسطے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے واسطے۔
معارف و مسائل
حضرت خلیل اللہ ؑ کی ہجرت مکہ اور بناء بیت اللہ کا تفصیلی واقعہ
اس آیت میں بیت اللہ کعبہ کی تاریخ کی طرف اشارہ ہے اور حضرت خلیل اللہ ؑ اور اسمعٰیل (علیہما السلام) کے ہاتھوں اس کی تعمیر جدید نیز بیت اللہ اور مکہ مکرمہ کی چند خصوصیات کا ذکر اور بیت اللہ اور مکہ مکرمہ کی چند خصوصیات کا ذکر اور بیت اللہ کے احترام سے متعلقہ احکام مذکور ہیں یہ مضمون قرآن کی بہت سی آیات میں مختلف سورتوں میں پھیلا ہوا ہے اس جگہ مختصر طور پر اس کو بیان کیا جاتا ہے جس سے مذکورہ آیات کا پورا مضمون واضح ہوجائے گا یہ مضمون سورة حج کی آیت نمبر 26 میں اس طرح مذکور ہے،
وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ للطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ وَاَذِّنْ فِي النَّاس بالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ یعنی وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ ہم نے ابراہیم کو خانہ کعبہ کی جگہ بتلادی کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرنا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے اور قیام و رکوع وسجود کرنے والوں کے واسطے پاک رکھنا اور لوگوں میں حج کا اعلان کرو لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیادہ بھی اور دبلی اونٹنیوں پر بھی جو دور دراز کے راستوں سے پہنچی ہوں گی،
تفسیر ابن کثیر میں ائمہ تفسیر حضرت مجاہد وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ ملک شام میں مقیم تھے اور حضرت اسماعیل ؑ شیر خوار بچے تھے جس وقت حق تعالیٰ کا ان کو یہ حکم ملا کہ ہم خانہ کعبہ کی جگہ آپ کو بتلاتے ہیں آپ اس کو پاک صاف کرکے طواف و نماز سے آباد رکھیں اس حکم کی تعمیل کے لئے جبریل امین براق لے کر حاضر ہوئے اور حضرت ابراہیم ؑ کو اور اسماعیل کو مع ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کے ساتھ لے کر سفر کیا راستے میں جب کسی بستی پر نظر پڑتی اور حضرت ابراہیم ؑ جبریل امین سے دریافت کرتے کہ کیا ہمیں یہاں اترنے کا حکم ملا ہے تو حضرت جبریل ؑ فرماتے کہ نہیں آپ کی منزل آگے ہے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کی جگہ سامنے آئی جس میں کانٹے دار جھاڑیاں اور ببول کے درختوں کے سوا کچھ نہ تھا اس خطہ زمین کے آس پاس کچھ آس پاس کچھ لوگ بستے تھے جن کو عمالین کہا جاتا تھا بیت اللہ اس وقت ایک ٹیلہ کی شکل میں تھا حضرت خلیل اللہ ؑ نے اس جگہ پہنچ کر جبریل امین سے دریافت کیا کہ کیا ہماری منزل یہ ہے تو فرمایا کہ ہاں،
حضرت ابراہیم ؑ مع اپنے صاحبزادے اور حضرت ہاجرہ کے یہاں اتر گئے اور بیت اللہ کے پاس ایک معمولی چھپر ڈال کر حضرت اسماعیل اور ہاجرہ (علیہما السلام) کو یہاں ٹھہرا دیا ان کے پاس ایک توشہ دان میں کچھ کھجوریں اور ایک مشکیزہ میں پانی رکھ دیا اور ابراہیم ؑ کو اس وقت یہاں ٹھہرنے کا حکم نہ تھا وہ اس شیر خوار بچہ اور ان کی والدہ کو حوالہ بخدا کرکے واپس ہونے لگے جانے کی تیاری دیکھ کر حضرت ہاجرہ نے عرض کیا کہ ہمیں اس لق ودق میدان میں چھوڑ کر آپ کہاں جاتے ہیں جس میں نہ کوئی مونس ومدد گار ہے نہ زندگی کی ضروریات،
حضرت خلیل اللہ ؑ نے کوئی جواب نہ دیا اور چلنے لگے حضرت ہاجرہ ساتھ اٹھیں پھر بار بار یہی سوال دہرایا حضرت خلیل اللہ ؑ کی طرف سے کوئی جواب نہ تھا یہاں تک کہ خود ان کے دل میں بات پڑی اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہاں چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دیا ہے تب حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ملا ہے، اس کو سن کر حضرت ہاجرہ نے فرمایا کہ پھر آپ شوق سے جائیں جس نے آپ کو یہ حکم دیا ہے وہ ہمیں بھی ضائع نہ کرے گا ابراہیم ؑ حکم خداوندی کی تعمیل میں یہاں سے چل کھڑے ہوئے مگر شیرخوار بچہ اور اس کی والدہ کا خیال لگا ہوا تھا جب راستہ کے موڑ پر پہنچے جہاں سے حضرت ہاجرہ نہ دیکھ سکیں تو ٹھہر گئے اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرمائی جو سورة ابراہیم کی آیت نمبر 35، 37 میں اس طرح مذکور ہے،
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ (سورة ابراہیم 35: 14) اے میرے پروردگار اس شہر کو امن والا بنا دیجئے اور مجھ کو اور میرے خاص فرزندوں کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھئے،
پھر دعاء میں عرض کیا
رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ (37: 14) یعنی اے ہمارے رب میں اپنی اولاد کو آپ کے محترم گھر کے قریب ایک میدان میں جو زراعت کے قابل نہیں آباد کرتا ہوں اے ہمارے رب تاکہ وہ نماز کا اہتمام رکھیں تو آپ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کردیجئے اور ان کو پھل کھانے کو دیجئے تاکہ یہ لوگ شکر کریں،
سابقہ حکم جس کی بناء پر شام سے ہجرت کرا کر حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی والدہ کو یہاں لایا گیا تھا اس میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ میرے گھر کو پاک رکھنا حضرت خلیل اللہ ؑ جانتے تھے کہ پاک رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اس کو ظاہری نجاسات اور گندگی سے بھی پاک رکھا جائے اور باطنی نجاست کفر و شرک سے پاکی بھی فرمان الہی میں مقصود ہے اس لئے یہاں ٹھہر کر جو دعائیں فرمائیں ان میں اول تو اس بستی کے محفوظ ومامون رہنے اور جائے امن ہونے کی دعاء فرمائی پھر یہ دعا کی کہ مجھے اور میری اولاد کو شرک وبت پرستی سے بچائیے کیونکہ حضرت خلیل اللہ ؑ کو معرفتِ حق تعالیٰ کا وہ مقام حاصل تھا جس میں انسان کو اپنا وجود ہی نابود نظر آتا ہے،
اپنے تمام افعال و اعمال اور ارادوں کو یہ محسوس کرتا ہے کہ سب کچھ حق تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اسی کی مشیت و ارادہ سے سب کام ہوتے ہیں اس لئے کفر و شرک سے بیت اللہ کو پاک رکھنے کا جو حکم ملا تھا اس میں حق تعالیٰ ہی سے امداد طلب کی اس دعاء کے اندر کفرو شرک سے محفوظ رہنے کی التجاء میں ایک خاص راز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب بیت اللہ کی تعظیم و تکریم کا حکم ہوا تو یہ احتمال بھی تھا کہ آئندہ چل کر کوئی ناواقف اس بیت اللہ ہی کو معبود نہ بنالے اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوجائے اس لئے یہ دعاء فرمائی کہ مجھ کو اور میری اولاد کو شرک سے محفوظ رکھا جائے،
اس کے بعد شیرخوار بچہ اور اس کی والدہ پر شفقت کے پیش نظر یہ دعاء فرمائی کہ میں نے ان کو آپ کے حکم کے مطابق آپ کے محترم گھر کے پاس ٹھہرا تو دیا ہے لیکن یہ جگہ زراعت کے قابل بھی نہیں جہاں کوئی اپنی محنت سے ضروریات زندگی حاصل کرسکے اس لئے آپ ہی اپنے فضل سے ان کو پھلوں کا رزق عطا فرمادیں،
یہ دعا کرکے حضرت خلیل اللہ ؑ تو اپنے وطن شام کی طرف روانہ ہوگئے ادھر حضرت ہاجرہ کا کچھ وقت تو اس توشہ کھجور اور پانی کے ساتھ کٹ گیا جو حضرت خلیل اللہ ؑ چھوڑ گئے تھے پانی ختم ہونے کے بعد خود بھی پیاس سے بےچین اور شیرخوار بچہ بھی اس وقت پانی کی تلاش میں ان کا نکلنا اور کبھی کوہ صفا پر کبھی کوہ مروہ پر چڑھنا اور ان دونوں کے درمیان دوڑ دوڑ کر راستہ طے کرنا تاکہ حضرت اسماعیل آنکھوں کے سامنے آجائیں عام مسلمانوں میں معروف ہے اور حج میں صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا آج تک اسی کی یادگار ہے،
اس قصہ کے آخر میں حضرت جبریل امین کا بحکم خداوندی وہاں پہنچنا اور چشمہ زمزم کا جاری کرنا اور پھر قبیلہ جرہم کے کچھ لوگوں کو یہاں آکر مقیم ہوجانا اور حضرت اسماعیل ؑ کے جوان ہونے کے بعد قبیلہ جرہم کی ایک بی بی سے شادی ہوجانا یہ صحیح بخاری کی روایت میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے روایت حدیث کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سورة حج کی آیت میں جو بیت اللہ کو آباد کرنے اور پاک صاف رکھنے کا حکم حضرت خلیل اللہ ؑ کو ملا تھا اس وقت اتنا ہی عمل مقصود تھا کہ اس جگہ کو حضرت اسمعٰیل اور ہاجرہ (علیہما السلام) کے ذریعہ آباد کردیا جائے اس کے مخاطب صرف حضرت ابراہیم ؑ تھے کیونکہ اسماعیل ؑ ابھی شیرخواری کے عالم میں تھے اس وقت بیت اللہ کی تعمیر جدید کا حکم نہ ملا تھا، سورة بقرہ کی یہ آیت جو اس وقت زیر نظر ہے، وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ اس میں حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ حضرت اسماعیل ؑ کو بھی شریک کرلیا گیا ہے یہ حکم اس وقت کا ہے جب کہ حضرت اسماعیل ؑ جوان اور متاہل ہوچکے تھے اس وقت دونوں کو بناء بیت اللہ کا حکم دیا گیا،
صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک روز حضرت ابراہیم ؑ حسب عادت حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کی ملاقات کے لئے مکہ مکرمہ پہنچے تو دیکھا کہ اسماعیل ؑ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تیر بنا رہے ہیں والد ماجد کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے ملاقات کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک کام کا حکم دیا ہے کیا تم اس میں میری مدد کرو گے ؟ لائق فرزند نے عرض کیا کہ بسر وچشم کروں گا اس پر حضرت ابراہیم ؑ نے اس ٹیلہ کی طرف اشارہ کیا جہاں بیت اللہ تھا کہ مجھے اس کی تعمیر کا حکم ہوا ہے بیت اللہ کے حدود اربعہ حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو بتلا دئیے تھے دونوں بزرگوار اس کام میں لگے تو بیت اللہ کی قدیم بنیادیں نکل آئیں انہی پر دونوں نے تعمیر شروع کردی اگلی آیت میں اسی کا بیان ہے، وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ بانی بیت اللہ اصل میں حضرت خلیل اللہ ؑ ہیں اور اسماعیل ؑ مددگار کی حیثیت سے شریک ہیں،
ان تمام آیات پر غور کرنے سے وہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے جو بعض روایات حدیث اور تاریخ میں مذکور
ہے کہ بیت اللہ پہلے سے دنیا میں موجود تھا کیونکہ تمام آیات میں کہیں بیت اللہ کی جگہ بتلا دینے کا ذکر ہے کہیں اس کو پاک صاف رکھنے کا ذکر ہے یہ کہیں مذکور نہیں کہ آج کوئی نیا گھر تعمیر کرانا ہے اس کی تعمیر کریں اس سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ کا وجود اس واقعہ سے پہلے موجود تھا پھر طوفان نوح کے وقت منہدم ہوگیا یا اٹھا لیا گیا تھا صرف بنیادیں موجود تھیں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کعبہ کے پہلے بانی نہیں بلکہ بناء سابق کی بنیادوں پر جدید تعمیر ان کے ہاتھوں ہوئی ہے،
اب رہا یہ معاملہ کہ پہلی تعمیر کس نے اور کس وقت کی ؟ اس میں کوئی صحیح اور قوی روایت حدیث کی منقول نہیں اہل کتاب کی روایات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اس کی تعمیر آدم ؑ کے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی فرشتوں نے کی تھی پھر آدم ؑ نے اس کی تجدید فرمائی یہ تعمیر طوفان نوح تک باقی رہی طوفان نوح میں منہدم ہوجانے کے بعد سے ابراہیم ؑ کے زمانے تک یہ ایک ٹیلہ کی صورت میں باقی رہی حضرت ابراہیم ؑ و حضرت اسماعیل ؑ نے ازسرنو تعمیر فرمائی اس کے بعد اس تعمیر میں شکست وریخت تو ہمیشہ ہوتی رہی مگر منہدم نہیں ہوئی آنحضرت ﷺ کی بعثت سے قبل قریش مکہ نے اس کو منہدم کرکے ازسرنو تعمیر کیا جس کی تعمیر میں آنحضرت ﷺ نے بھی خاص شرکت فرمائی،
احکام و مسائل متعلقہ حرم محترم
1۔ لفظ مثابہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو یہ خاص فضیلت بخشی ہے کہ وہ ہمیشہ مرجع خلائق بنا رہے گا اور لوگ بار بار اس کی طرف جانے اور لوٹنے کے آرزو مند رہیں گے امام تفسیر حضرت مجاہد نے فرمایا لا یقضی احد منہا وطراً (قرطبی) یعنی کوئی آدمی اس کی زیارت سے کبھی سیر نہیں ہوتا بلکہ ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ زیارت و طواف کا شوق لے کر لوٹتا ہے اور بعض علماء نے فرمایا کہ قبول حج کی علامات میں سے ہے کہ وہاں سے لوٹنے کے بعد پھر وہاں جانے کا شوق دل میں پائے چناچہ عام طور پر اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ پہلی مرتبہ جتنا شوق زیارت بیت اللہ کا ہوتا دوسری مرتبہ کے لئے اس شوق میں اضافہ ہوجاتا ہے اور جوں جوں بار بار زیارت کرتا رہتا ہے یہ شوق اور بڑہتا جاتا ہے،
یہ معجزہ بیت اللہ ہی کی خصوصیت ہوسکتی ہے ورنہ دنیا کے بہتر سے بہتر مناظر کو انسان ایک دو مرتبہ دیکھ لینے کے بعد سیر ہوجاتا ہے اور پانچ سات مرتبہ دیکھنے کے بعد تو دیکھنے کا دھیان بھی نہیں آتا اور یہاں تو نہ کوئی خوش منظر سینری نہ وہاں پہنچنا کچھ آسان ہے نہ وہاں دنیا کے کاروبار ہی کی کوئی اہمیت ہے اس کے باوجود لوگوں کے دل میں اس کی تڑپ ہمیشہ موجزن رہتی ہے ہزاروں روپیہ خرچ کرکے سینکڑوں مشقتیں جھیل کر وہاں پہنچنے کے مشتاق رہتے ہیں،
2۔ لفظ امناً اس جگہ مامن یعنی جائے امن کے معنی میں ہے اور لفظ بیت سے مراد صرف بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ نہیں بلکہ پورا حرم مراد ہے قرآن کریم میں بیت اللہ اور کعبہ کا لفظ بول کر پورا حرم مراد لینے کے اور بھی شواہد موجود ہیں جیسے ارشاد ہے، هَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ (95: 5) اس میں لفظ کعبہ بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے کیونکہ اس میں ذکر قربانی کا ہے اور بیت کعبہ کے اندر تو قربانی نہیں ہوتی اور نہ وہاں قربانی جائز ہے اس لئے معنی آیت کے یہ ہوئے کہ ہم نے حرم مکہ کو جائے امن بنادیا ہے اور جائے امن بنا دینے سے مراد لوگوں کو یہ حکم دینا ہے کہ حرم محترم کو عام قتل و قتال اور انتقام سے بالاتر رکھیں (ابن عربی)
چنانچہ زمانہ جاہلیت میں بھی عربوں کے ہاتھ میں ملت ابراہیمی کے جو کچھ آثار باقی رہ گئے تھے، ان میں یہ بھی تھا کہ حرم میں اپنے باپ اور بھائی کا قاتل بھی کسی کو ملتا تو انتقام نہیں لیتے تھے اور عام جنگ و قتال کو بھی حرم میں حرام سمجھتے تھے شریعت اسلام میں بھی یہ حکم اسی طرح باقی رکھا گیا فتح مکہ کے وقت صرف چند گھنٹوں کے لئے رسول اللہ ﷺ کے واسطے ارض حرم میں قتال کو جائز کیا گیا تھا مگر اسی وقت پھر ہمیشہ کے لئے حرام کردیا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے خطبہ میں اس کا اعلان فرمادیا (صحیح بخاری)
اب رہا یہ مسئلہ کہ کوئی شخص حرم کے اندر ہی کوئی ایسا جرم کرے جس پر حد وقصاص اسلامی شریعت کی رو سے عائد ہوتا ہے تو حرم اس کو امن نہیں دے گا بلکہ اس پر باجماع امت حدود وقصاص جاری کئے جائیں گے (احکام القرآن جصاص و قرطبی) کیونکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے، فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ (191: 2) یعنی اگر تم سے لوگ حرم میں قتال کرنے لگیں تو تم بھی وہیں ان کو قتل کردو،
البتہ یہاں ایک مسئلہ ائمہ مجتہدین میں مختلف فیہ ہے وہ یہ کہ کوئی شخص باہر سے جرم کرکے حرم میں پناہ لے لے تو اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اس میں بعض ائمہ اس پر بھی حرم میں حدود قصاص کی سزائیں جاری کرنے کا حکم دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس کو سزا سے چھوڑنا تو نہیں کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو جرائم کرکے سزا سے بچنے کا راستہ کھل جائے گا اور عالم میں فساد برپا ہوجائے گا اور حرم مجرموں کا ٹھکانا بن جائے گا لیکن احترام حرم کے سبب حرم کے اندر سزا نہ دی جائیگی بلکہ اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ حرم سے باہر نکلے وہاں سے نکلنے کے بعد سزا جاری کی جائے گی،
3۔ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى اس میں مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم ؑ کے قدم مبارک کا بطور معجزہ نشان پڑگیا تھا اور جس کو تعمیر بیت اللہ کے وقت آپ نے استعمال کیا تھا (صحیح بخاری)
حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ میں نے اس پتھر میں حضرت ابراہیم ؑ کے قدم مبارک کا نقش دیکھا ہے مگر لوگوں کے بکثرت چھونے اور ہاتھ لگانے سے اب وہ نشان ہلکا پڑگیا ہے (قرطبی) اور حضرت عبداللہ بن عباس سے مقام ابراہیم کی تفسیر میں یہ بھی منقول ہے کہ پورا حرم مقام ابراہیم ہے ممکن ہے کہ اس مراد یہ ہو کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں جن کو مقام ابراہیم پر پڑھنے کا حکم اس آیت میں ہے اس حکم کی تعمیل پورے حرم میں کسی جگہ بھی یہ رکعتیں پڑھنے سے ہوجائے گی اس پر اکثر فقہا امت متفق ہیں۔
4۔ آیت مذکورہ میں مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنانے کا حکم ہے اس کی وضاحت خود رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنے قول وعمل سے اس طرح فرما دی کہ آپ طواف کے بعد مقام ابراہیم کے پاس پہنچے جو بیت اللہ کے سامنے تھوڑے فاصلہ سے رکھا ہوا ہے وہاں پہنچ کر یہ آیت تلاوت فرمائی وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى اور پھر مقام ابراہیم کے پیچھے اس طرح دو رکعت نماز پڑھی کہ مقام ابراہیم کو درمیان میں رکھتے ہوئے بیت اللہ کا استقبال ہوجائے (صحیح مسلم) اسی لئے فقہاء امت نے فرمایا ہے کہ جس شخص کو مقام ابراہیم کے پیچھے متصلاً جگہ نہ ملے وہ کتنے ہی فاصلہ پر بھی جب اس طرح کھڑا ہو کہ مقام ابراہیم بھی اس کے سامنے رہے اور بیت اللہ بھی تو اس حکم کی پوری تعمیل ہوجائے گی،
5۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ طواف کے بعد کی دو رکعتیں واجب ہیں (جصاص ومناسک ملاعلی قاری)
البتہ ان دو رکعتوں کا خاص مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کرنا سنت ہے اور حرم میں کسی دوسری جگہ بھی ادا کرے تو کافی ہوگا کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ان رکعتوں کا بیت اللہ کے دروازہ متصل پڑھنا بھی ثابت ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس جگہ پڑھنا منقول ہے (جصاص)
اور ملا علی قاری نے کتاب مناسک میں فرمایا ہے کہ دو رکعت طواف تو واجب ہیں اور سنت یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کی جائیں لیکن اگر کسی وجہ سے وہاں ادا نہ کرسکا تو پھر حرم میں یا حرم سے باہر جہاں کہیں ممکن ہو ادا کرنے سے واجب ادا ہوجائے گا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں حضرت ام سلمہ کو ایسا ہی اتفاق ہوا کہ ان کو واجب طواف نماز پڑھنے کا وہاں موقع نہ ملا تو مسجد حرام بلکہ مکہ مکرمہ سے نکلنے کے بعد ادا کی اور بضرورت حرم سے باہر ادا کرنے پر جمہور علماء کے نزدیک کوئی دم بھی واجب نہیں ہوتا صرف امام مالک وجوب دم کے قائل ہیں (مناسک ملا علی قاری)
6۔ طَهِّرَا بَيْتِىَ اس میں بیت اللہ کو پاک کرنے کا حکم ہے جس میں ظاہری نجاسات اور گندگی سے طہارت بھی داخل ہے اور باطنی نجاسات کفر و شرک اور اخلاق رذیلہ بغض وحسد، حرص وہوا تکبر و غرور ریا ونام ونمود سے پاکی بھی شامل ہے اور اس حکم طہارت کیلئے لفظ بیتی میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ حکم تمام مساجد کے لئے عام ہے کیونکہ ساری مساجد بیوت اللہ ہیں،
جیسا کہ ارشاد ہے، فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ (36: 24)
حضرت فاروق اعظم نے مسجد میں ایک شخص کی آواز سنی تو فرمایا تمہیں خبر نہیں کہ تم کہاں کھڑے ہو (قرطبی) یعنی مسجد کا ادب و احترام چاہے اس میں غیر مشروع آواز بلند نہیں کرنا چاہئے، حاصل یہ ہے کہ اس آیت سے جس طرح بیت اللہ کا تمام ظاہری اور باطنی نجاسات سے پاک رکھنا ضروری ہے اسی طرح تمام مساجد کو بھی پاک رکھنا واجب ہے یعنی مساجد میں داخل ہونے والوں پر لازم ہے کہ اپنے بدن اور کپڑوں کو بھی نجاسات اور بدبو کی چیزوں سے پاک صاف رکھیں اور اپنے دلوں کو شرک ونفاق اور تمام اخلاق رذیلہ، تکبر حسد، بغض، حرص وریاء وغیرہ کی نجاسات سے پاک کرکے داخل ہوں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کوئی شخص پیاز، لہسن وغیرہ بدبودار چیز کھا کر مسجد میں نہ جائے اور چھوٹے بچوں اور دیوانوں کو مسجدوں میں داخل ہونے سے منع فرمایا ہے کہ ان سے نجاست کا خطرہ رہتا ہے،
7۔ لِلطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْعٰكِفِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ آیت کے ان کلمات سے چند احکام و فوائد حاصل ہوئے اول یہ کہ بناء بیت اللہ کا مقصد طواف، اعتکاف اور نماز ہے دوسرے یہ کہ طواف نماز سے مقدم ہے (کما روی عن ابن عباس) تیسرے یہ کہ اطراف عالم سے جانے والے حجاج کے لئے طواف بہ نسبت نماز کے افضل ہے چوتھے یہ کہ بیت کے اندر نماز علی الاطلاق جائز ہے فرض ہو یا نفل (جصاص)
Top