Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 138
صِبْغَةَ اللّٰهِ١ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً١٘ وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ
صِبْغَةَ : رنگ اللہِ : اللہ وَمَنْ : اور کس کا اَحْسَنُ : اچھا ہے مِنَ اللہِ : اللہ سے صِبْغَةً : رنگ وَنَحْنُ لَهُ : اور ہم اس کی عَابِدُوْنَ : عبادت کرنے والے
ہم نے قبول کرلیا رنگ اللہ کا اور کس کا رنگ بہتر ہے اللہ کے رنگ سے اور ہم اسی بندگی کی کرتے ہیں۔
دین و ایمان ایک گہرا رنگ ہے جو انسان کے چہرہ بشرہ سے نظر آنا چاہئے
صِبْغَةَ اللّٰهِ اس سے پہلی آیت میں دین اسلام کو حضرت ابراہیم ؑ کی طرف منسوب کیا گیا تھا مِلَّةَ اِبْرٰھٖمَ حَنِيْفًا اس جگہ اس کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے بتلا دیا کہ دین درحقیقت اللہ تعالیٰ کا ہے کسی پیغمبر کی طرف اس کی نسبت مجازی کردی جاتی ہے اور اس جگہ ملت کو صبغت کے لفظ سے تعبیر کرکے دو باتوں کی طرف اشارہ ہوگیا اول تو نصاریٰ کی ایک رسم کی تردید ہوگئی ان کی عادت یہ تھی کہ جو بچہ پیدا ہو اس کو ساتویں روز ایک رنگین پانی میں نہلاتے تھے اور بجائے ختنہ کے اسی نہلانے کو بچہ کی طہارت اور دین نصرانیت کا پختہ رنگ سمجھتے تھے اس آیت نے بتلایا کہ یہ پانی کا رنگ تو دھل کر ختم ہوجاتا ہے اس کا بعد میں کوئی اثر نہیں رہتا نیز ختنہ نہ کرنے کی وجہ سے جو گندگی اور ناپاکی جسم میں رہتی ہے اس سے بھی یہ رنگ نجات نہیں دیتا اصل رنگ دین و ایمان کا رنگ ہے جو ظاہری اور باطنی پاکی کی ضمانت بھی ہے اور باقی رہنے والا بھی،
دوسرے دین و ایمان کو رنگ فرما کر اس کی طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ جس طرح رنگ آنکھوں سے محسوس ہوتا ہے مومن کے ایمان کی علامات اس کے چہرہ بشرہ اور تمام حرکات و سکنات معاملات و عادات میں ظاہر ہونا چاہئیں۔ واللہ اعلم،
Top