Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں بنایا اُمَّةً : امت وَّسَطًا : معتدل لِّتَكُوْنُوْا : تاکہ تم ہو شُهَدَآءَ : گواہ عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ وَيَكُوْنَ : اور ہو الرَّسُوْلُ : رسول عَلَيْكُمْ : تم پر شَهِيْدًا : گواہ وَمَا جَعَلْنَا : اور نہیں مقرر کیا ہم نے الْقِبْلَةَ : قبلہ الَّتِىْ : وہ کس كُنْتَ : آپ تھے عَلَيْهَآ : اس پر اِلَّا : مگر لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم معلوم کرلیں مَنْ : کون يَّتَّبِعُ : پیروی کرتا ہے الرَّسُوْلَ : رسول مِمَّنْ : اس سے جو يَّنْقَلِبُ : پھرجاتا ہے عَلٰي : پر عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیاں وَاِنْ : اور بیشک كَانَتْ : یہ تھی لَكَبِيْرَةً : بھاری بات اِلَّا : مگر عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جنہیں ھَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمَا كَانَ : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ لِيُضِيْعَ : کہ وہ ضائع کرے اِيْمَانَكُمْ : تمہارا ایمان اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِالنَّاسِ : لوگوں کے ساتھ لَرَءُوْفٌ : بڑا شفیق رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو امت معتدل تاکہ ہو تم گواہ لوگوں پر اور ہو رسول ﷺ تم پر گواہی دینے ولا۔ اور نہیں مقرر کیا تھا ہم نے وہ قبلہ کہ جس پر تو پہلے تھا مگر اس واسطے کہ معلوم کریں کہ کون تابع رہے گا رسول کا اور کون پھرجائے گا الٹے پاؤں اور بیشک یہ بات بھاری ہوئی مگر ان پر جن کی راہ دکھائی اللہ نے اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کرے تمہارا ایمان بیشک اللہ لوگوں پر بہت شفیق، نہایت مہربان ہے۔
خلاصہ تفسیر
اور (اے متبعان محمد ﷺ اسی طرح ہم نے تم کو ایسی ہی ایک جماعت بنادی ہے جو (ہر پہلو سے) نہایت اعتدال پر ہے تاکہ (دنیا میں شرف و امتیاز حاصل ہونے کے علاوہ آخرت میں بھی تمہارا بڑا شرف ظاہر ہو کہ) تم (ایک بڑے مقدمہ میں جس میں ایک فریق حضرات انبیاء (علیہم السلام) ہوں گے اور فریق ثانی ان کی مخالف قومیں ہوں گی ان مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ (تجویز) ہو اور (شرف بالائے شرف یہ ہوا کہ) تمہارے (قابل شہادت اور معتبر ہونے کے) لئے رسول اللہ ﷺ گواہ ہوں (اور اس شہادت سے تمہاری شہادت معتبر ہونے کی تصدیق ہو پھر تمہاری شہادت سے اس مقدمہ کا حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے حق میں فیصلہ ہو اور مخالفین مجرم قرار پاکر سزا یاب ہوں اور اس امر کا اعلیٰ درجہ کی عزت ہونا ظاہر ہے)
معارف و مسائل
امت محمدیہ کا خاص اعتدال
لفظ وَسَطَ بفتح السین بمعنی اوسط ہے اور خیر الامور اور افضل اشیاء کو وسط کہا جاتا ہے،
ترمذی میں بروایت ابو سعید خدری آنحضرت ﷺ سے لفظ وسط کی تفسیر عدل سے کی گئی ہے جو بہترین کے معنی میں آیا ہے (قرطبی) اس آیت میں امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی ایک امتیازی فضیلت وخصوصیت کا ذکر ہے کہ وہ ایک معتدل امت بنائی گئی اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح ہم نے مسلمانوں کو وہ قبلہ عطا کیا جو سب سے اشرف و افضل ہے اسی طرح ہم نے امت اسلامیہ کو ایک خاص امتیازی فضیلت یہ عطا کی ہے کہ اس کو ایک معتدل امت بنایا ہے جس کے نتیجہ میں ان کو میدان حشر میں یہ امتیاز حاصل ہوگا کہ سارے انبیاء (علیہم السلام) کی امتیں جب اپنے انبیاء کی ہدایت و تبلیغ سے مکر جائیں گی اور ان کو جھٹلا کر یہ کہیں گی کہ ہمارے پاس نہ کوئی کتاب آئی نہ کسی نبی نے ہمیں کوئی ہدایت کی اس وقت امت محمدیہ انبیاء (علیہم السلام) کی طرف سے گواہی میں پیش ہوگی اور یہ شہادت دے گی کہ انبیاء (علیہم السلام) نے ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائی ہوئی ہدایت ان کو پہنچائیں اور ان کو صحیح راستہ پر لانے کی مقدور بھر پوری کوشش کی مدعیٰ علیہم امتیں امت محمدیہ کی گواہی پر یہ جرح کریں گی کہ اس امت محمدیہ کا تو ہمارے زمانے میں وجود بھی نہ تھا اس کو ہمارے معاملات کی کیا خبر اس کی گواہی ہمارے مقابلہ میں کیسے قبول کی جاسکتی ہے،
امت محمدیہ اس جرح کا یہ جواب دے گی کہ بیشک ہم اس وقت موجود نہ تھے مگر ان کے واقعات و حالات کی خبر ہمیں ایک صادق مصدوق رسول نے اور اللہ کی کتاب نے دی ہے جس پر ہم ایمان لائے اور ان کی خبر کو اپنے معائنہ سے زیادہ وقیع اور سچا جانتے ہیں اس لئے ہم اپنی شہادت میں حق بجانب اور سچے ہیں اس وقت رسول اللہ ﷺ پیش ہوں گے اور ان گواہوں کا تزکیہ و توثیق کریں گے کہ بیشک انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ صحیح ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور میری تعلیم کے ذریعہ ان کو یہ صحیح حالات معلوم ہوئے،
محشر کے اس واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری، ترمذی، نسائی، اور مسند احمد کی متعدد احادیث میں مجملا اور مفصلا مذکور ہے،
الغرض آیت مذکورہ میں امت محمدیہ کی اعلیٰ فضلیت وشرف کا راز یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ امت معتدل امت بنائی گئی ہے اس لئے یہاں چند باتیں قابل غور ہیں،
اعتدال امت کی حقیقت، اہمیت اور اس کی کچھ تفصیل
(1) اعتدال کے معنی اور حقیقت کیا ہیں، (2) وصف اعتدال کی یہ اہمیت کیوں ہے کہ اس پر مدار فضیلت رکھا گیا، (3) اس امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے معتدل ہونے کا واقعات کی رو سے کیا ثبوت ہے ترتیب وار ان تینوں سوالوں کا جواب یہ ہے،
1۔ اعتدال کے لفظی معنی ہیں برابر ہونا یہ لفظ عدل سے مشتق ہے اس کے معنی بھی برابر کرنے کے ہیں 2۔ وصف اعتدال کی یہ اہمیت کہ اس کو انسانی شرف و فضیلت کا معیار قرار دیا گیا، ذرا تفصیل طلب ہے، اس کو پہلے ایک محسوس مثال سے دیکھئے، دنیا کے جتنے نئے اور پرانے طریقے جسمانی صحت وعلاج کے لئے جاری ہیں طب یونانی، ویدک، ایلوپیتھک، ہومیو پیتھک وغیرہ سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ بدن انسانی کی صحت اعتدال مزاج سے ہے اور جہاں یہ اعتدال کسی جانب سے خلل پذیر ہو وہی بدن انسانی کا مرض ہے خصوصاً طب یونانی کا تو بنیادی اصول ہی مزاج کی پہچان پر موقوف ہے انسان کا بدن چار خلط خون، بلغم، سودا، صفرا، سے مرکب اور انہی چاروں اخلاط سے پیدا شدہ چار کیفیات انسان کے بدن میں ضروری ہیں گرمی، ٹھنڈک، خشکی اور تری، جس وقت تک یہ چاروں کیفیات مزاج انسانی کے مناسب حدود کے اندار معتدل رہتی ہیں وہ بدن انسانی کی صحت و تندرستی کہلاتی ہے اور جہاں ان میں سے کوئی کیفیت مزاج انسانی کی حد سے زیادہ ہوجائے یا گھٹ جائے وہی مرض ہے اور اگر اس کی اصلاح وعلاج نہ کیا جائے تو ایک حد میں پہنچ کر وہی موت کا پیام ہوجاتا ہے،
اس محسوس مثال کے بعد اب روحانیت اور اخلاقیات کی طرف آئیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں بھی اعتدال اور بےاعتدالی کا یہی طریقہ جاری ہے اس کے اعتدال کا نام روحانی صحت اور بےاعتدالی کا نام روحانی اور اخلاقی مرض ہے اور اس مرض کا اگر علاج کرکے اعتدال پر نہ لایا جائے تو اس کا نتیجہ روحانی موت ہے اور یہ بھی کسی صاحب بصیرت انسان پر مخفی نہیں کہ جوہر انسانیت جس کی وجہ سے انسان ساری مخلوقات کا حاکم اور مخدوم قرار دیا گیا ہے وہ اس کا بدن یا بدن کے اجزاء واخلاط یا ان کی کیفیات حرارت وبرودت نہیں کیونکہ ان اجزاء و کیفیات میں تو دنیا کے سارے جانور بھی انسانیت کے ساتھ شریک بلکہ انسانیت سے زیادہ حصہ رکھنے والے ہیں،
جوہر انسانیت جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات اور آقائے کائنات مانا گیا ہے وہ اس کے گوشت پوست اور حرارت وبرودت وغیرہ سے بالاتر کوئی چیز ہے جو انسان میں کامل اور اکمل طور پر موجود ہے دوسری مخلوقات کو اس کا وہ درجہ حاصل نہیں اور اس کا معین کرلینا بھی کوئی باریک اور مشکل کام نہیں کہ وہ انسان کا روحانی اور اخلاقی کمال ہے جس نے اس کو مخدوم کائنات بنایا ہے مولانا رومی نے خوب فرمایا ہے ،
آدمیت لحم وشحم و پوست نیست
آدمیت جز رضائے دوست نیست
اور اسی وجہ سے وہ انسان جو اپنے جوہر شرافت و فضیلت کی بےقدری کرکے اس کو ضائع کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمایا،
اینکہ می بینی خلاف آدم اند
نیستند آدم غلاف آدم اند
اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ انسان کا جوہر شرافت اور مدار فضیلت اس کے روحانی اور اخلاقی کمالات ہیں اور یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ بدن انسانی کی طرح روح انسانی بھی اعتدال وبے اعتدالی کا شکار ہوتی ہے اور جس طرح بدن انسانی کی صحت اس کے مزاج اور اخلاط کا اعتدال ہے اسی طرح روح کی صحت روح اور اس کے اخلاق کا اعتدال ہے، اس لئے انسان کامل کہلانے کا مستحق صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو جسمانی اعتدال کے ساتھ روحانی اور اخلاقی اعتدال بھی رکھتا ہو یہ کمال تمام انبیاء (علیہم السلام) کو خصوصیت کے ساتھ عطا ہوتا ہے اور ہمارے رسول کریم ﷺ کو انبیاء (علیہم السلام) میں بھی سب سے زیادہ یہ کمال حاصل تھا اس لئے انسان کامل کے اولین مصداق آپ ہی ہیں اور جس طرح جسمانی علاج معالجہ کے لئے ہر زمانہ اور ہر جگہ ہر بستی میں طبیب اور ڈاکٹر اور دواؤں اور آلات کا ایک محکم نظام حق تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے اسی طرح روحانی علاج اور قوموں میں اخلاقی اعتدال پیدا کرنے کے لئے انبیاء (علیہم السلام) بھیجے گئے ان کے ساتھ آسمانی ہدایات بھیجی گئیں اور بقدر ضرورت مادی طاقتیں بھی عطا کی گئیں جن کے ذریعہ وہ یہ قانون اعتدال دنیا میں نافذ کرسکیں اسی مضمون کو قرآن کریم میں سورة حدید میں اس طرح بیان فرمایا ہے ،
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاس بالْقِسْطِ ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِ (25: 57) یعنی ہم نے بھیجے ہیں اپنے رسول نشانیاں دے کر اور اتاری ان کے ساتھ کتاب اور ترازو تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوجائیں اور ہم نے اتارا لوہا اس میں سخت لڑائی ہے اور لوگوں کے کام چلتے ہیں،
اس میں انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے اور ان پر کتابیں نازل کرنے کی حکمت یہی بتلائی ہے کہ وہ ان کے ذریعہ لوگوں میں اخلاقی اور عملی اعتدال پیدا کریں، کتاب، اخلاق، اور روحانی اعتدال پیدا کرنے کے لئے نازل کی گئی اور ترازو معاملات لین دین میں عملی اعتدال پیدا کرنے کے لئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ترازو سے مراد ہر پیغمبر کی شریعت ہو جس کے ذریعہ اعتدال حقیقی معلوم ہوتا ہے اور عدل و انصاف قائم کیا جاسکتا ہے۔
اس تفصیل سے آپ نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے اور ان پر کتابیں نازل کرنے کی اصلی غرض و حکمت یہی ہے کہ قوموں کو اخلاقی اور عملی اعتدال پر قائم کیا جائے اور یہی قوموں کی صحت مندی اور تندرستی ہے،
امت محمدیہ میں ہر قسم کا اعتدال
اس بیان سے آپ نے یہ بھی معلوم کرلیا ہوگا کہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی جو فضلیت آیت مذکورہ میں بتلائی گئی وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا یعنی ہم نے تمہیں ایک معتدل امت بنایا ہے یہ بولنے اور لکھنے میں تو ایک لفظ ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے کسی قوم یا شخص میں جتنے کمالات اس دنیا میں ہو سکتے ہیں ان سب کے لئے حاوی اور جامع ہے،
اس میں امت محمدیہ کو امت وسط یعنی معتدل امت فرما کر یہ بتلا دیا کہ انسان کا جوہر شرافت و فضیلت ان میں بدرجہ کمال موجود ہے اور جس غرض کیلئے یہ آسمان و زمین کا سارا نظام ہے اور جس کے لئے انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں بھیجی گئی ہیں یہ امت اس میں ساری امتوں سے ممتاز اور افضل ہے،
قرآن کریم نے اس امت کے متعلق اس خاص وصف فضیلت کا بیان مختلف آیات میں مختلف عنوانات سے کیا ہے سورة اعراف کے آخر میں امت محمدی کے لئے ارشاد ہوا،
وممن خلقنا امۃ یھدون بالحق وبہ یعدلون (181: 7) یعنی ان لوگوں میں جن کو ہم نے پیدا کیا ہے ایک ایسی امت ہے جو سچی راہ بتلاتے ہیں اور اس کے موافق انصاف کرتے ہیں،
اس میں امت محمدیہ کے اعتدال روحانی و اخلاقی کو واضح فرمایا ہے کہ وہ اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کو چھوڑ کر آسمانی ہدایت کے مطابق خود بھی چلتے ہیں اور دوسروں کو بھی چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی معاملہ میں نزاع واختلاف ہوجائے تو اس کا فیصلہ بھی اسی لیے لاگ آسمانی قانون کے ذریعہ کرتے ہیں جس میں کسی قوم یا شخص کے ناجائز مفاد کا کوئی خطرہ نہیں،
اور سورة آل عمران میں امت محمدیہ کے اسی اعتدال مزاج اور اعتدال روحانی کے آثار کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے،
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤ ْمِنُوْنَ باللّٰهِ ۭ (110: 3) یعنی تم سب امتوں میں بہتر ہو جو عالم میں بھیجی گئی ہو، حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور اللہ پر ایمان لاتے ہو،
یعنی جس طرح ان کو سب رسولوں میں افضل نصیب ہوئے کتاب سب کتابوں میں جامع اور اکمل نصیب ہوئی، اسی طرح ان کو قوموں کا صحت مندانہ مزاج اور اعتدال بھی اس اعلیٰ پیمانے پر نصیب ہوا کہ وہ سب امتوں میں بہتر قرار پائی اس پر علوم و معارف کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں، ایمان وعمل وتقویٰ کی تمام شاخیں ان کی قربانیوں سے سرسبز و شاداب ہوں گی وہ کسی مخصوص ملک و اقلیم میں محصور نہ ہوگی بلکہ اس کا دائرہ عمل سارے عالم اور انسانی زندگی کے سارے شعبوں کو محیط ہوگا گویا اس کا وجود ہی اس لئے ہوگا کہ دوسروں کی خیر خواہی کرے اور جس طرح ممکن ہو انھیں جنت کے دروازوں پر لاکھڑا کردے، اُخْرِجَتْ للنَّاس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ یہ امت دوسروں کی خیر خواہی اور فائدہ کے لئے بنائی گئی ہے اس کا فرض منصبی اور قومی نشان یہ ہے کہ لوگوں کو نیک کاموں کی ہدایت کرے برے کاموں سے روکے،
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد الدین النصیحۃ کا یہی مطلب ہے کہ دین اس کا نام ہے کہ سب مسلمانوں کی خیر خواہی کرے پھر برے کاموں میں کفر، شرک، بدعات، رسوم قبیحہ فسق و فجور اور ہر قسم کی بداخلاقی اور نامعقول باتیں شامل ہیں ان سے روکنا بھی کئی طرح ہوگا کبھی زبان سے کبھی ہاتھ سے کبھی قلم سے، کبھی تلوار سے، غرض ہر قسم کا جہاد اس میں داخل ہوگیا یہ صفت جس قدر عموم و اہتمام سے امت محمدیہ میں پائی گئی پہلی امتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی،
3۔ اب تیسری بات غور طلب یہ رہ گئی کہ اس امت کے توسط و اعتدال کا واقعات سے ثبوت کیا ہے اس کی تفصیل طویل اور تمام امتوں کے اعتقادات، اعمال و اخلاق اور کارناموں کا موازنہ کرکے بتلانے پر موقوف ہے اس میں سے چند چیزیں بطور مثال ذکر کی جاتی ہیں،
اعتقادی اعتدال
سب سے پہلے اعتقادی اور نظری اعتدال کو لے لیجئے تو پچھلی امتوں میں ایک طرف تو یہ نظر آئے گا کہ اللہ کے رسولوں کو اس کا بیٹا بنا لیا اور ان کی عبادت اور پرستش کرنے لگے؛ وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ (30: 9) اور دوسری طرف انہی قوموں کے دوسرے افراد کا یہ عالم بھی مشاہدہ میں آئے گا کہ رسول کے مسلسل معجزات دیکھنے اور برتنے کے باوجود جب ان کا رسول ان کو کسی جنگ و جہاد کی دعوت دیتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں،
فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ (24: 5) یعنی جائیے آپ اور آپ کا پروردگار وہی مخالفین سے قتال کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں کہیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ اپنے انبیاء کو خود ان کے ماننے والے طرح طرح کی ایذائیں پہنچاتے ہیں۔
بخلاف امت محمدیہ کے کہ وہ ہر قرن ہر زمانے میں ایک طرف تو اپنے رسول ﷺ سے وہ عشق و محبت رکھتے ہیں کہ اس کے آگے اپنی جان ومال اور اولاد وآبرو سب کو قربان کردیتے ہیں،
سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں
اور دوسری طرف یہ اعتدال کہ رسول کو رسول اور خدا کو خدا سمجھتے ہیں رسول اللہ ﷺ کو باایں ہمہ کمالات و فضائل عبداللہ و رسولہ مانتے اور کہتے ہیں وہ آپ کے مدائح ومناقب میں بھی یہ پیمانہ رکھتے ہیں جو قصیدہ بردہ میں فرمایا،
دع ما ادعتہ النصاریٰ فی نبیھم
واحکم بما شئت مدحاً فیہ واحتکم
یعنی اس کلمہ کفر کو چھوڑ دو جو انصاریٰ نے اپنے نبی کے بارے میں کہہ دیا (کہ وہ معاذ اللہ خود خدا یا خدا کے بیٹے ہیں) اس کے سوا آپ کی مدح وثنا میں جو کچھ کہو وہ سب حق و صحیح ہے،
جس کا خلاصہ کسی نے ایک مصرع میں اس طرح بیان کردیا،
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔
عمل اور عبادت میں اعتدال
اعتقاد کے بعد عمل اور عبادت کا نمبر ہے اس میں ملاحظہ فرمائیے پچھلی امتوں میں ایک طرف تو یہ نظر آئے گا کہ اپنی شریعت کے احکام کو چند ٹکوں کے بدلے فروخت کیا جاتا ہے رشوتیں لے کر آسمانی کتاب میں ترمیم کی جاتی ہے یا غلط فتوے دئیے جاتے ہیں اور طرح طرح کے حیلے بہانے کرکے شرعی احکام کو بدلا جاتا ہے عبادت سے پیچھا چھڑایا جاتا ہے اور دوسری طرف عبادت خانوں میں آپ کو ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جنہوں نے ترک دنیا کرکے رہبانیت اختیار کرلی وہ خدا کی دی ہوئی حلال نعمتوں سے بھی اپنے آپ کو محروم رکھتے اور سختیاں جھیلنے ہی کو عبادت وثواب سمجھتے ہیں ؛
امت محمدیہ نے اس کے خلاف ایک طرف رہبانیت کو انسانیت پر ظلم قرار دیا اور دوسری طرف احکام خدا و رسول پر مر مٹنے کا جذبہ پیدا کیا اور قیصر وکسریٰ کے تخت وتاج کے مالک بن کر دنیا کو یہ دکھلا دیا کہ دیانت وسیاست میں یا دین و دنیا میں بیر نہیں مذہب صرف مسجدوں یا خانقاہوں کے گوشوں کے لئے نہیں آیا بلکہ اس کی حکمرانی بازاروں اور دفتروں پر بھی ہے اور وزارتوں اور امارتوں پر بھی اس نے بادشاہی میں فقیری اور فقیری میں بادشاہی سکھلائی۔
چو فقر اندر لباس شاہی آمد
زتدبیر عبید اللہی آمد
معاشرتی اور تمدنی اعتدال
اس کے بعد معاشرت اور تمدن کو دیکھئے تو پچھلی امتوں میں آپ ایک طرف یہ بےاعتدالی دیکھیں گے کہ انسانی حقوق کی کوئی پرواہ نہیں حق ناحق کی کوئی بحث نہیں اپنی اغراض کے خلاف جس کو دیکھا اس کو کچل ڈالنا، قتل کردینا، لوٹ لینا سب سے بڑا کمال ہے ایک رئیس کی چراگاہ میں کسی دوسرے کا اونٹ گھس گیا اور وہاں کچھ نقصان کردیا تو عرب کی مشہور جنگ حرب بسوس مسلسل سو برس جاری رہی ہزاروں انسانوں کا خون ہوا عورتوں کو انسانی حقوق دینا تو کجا زندہ رہنے کی اجازت نہیں دی جاتی کہیں بچپن ہی میں ان کو زندہ درگور کردینے کی رسم تھی کہیں مردہ شوہروں کے ساتھ ستی کرکے جلا ڈالنے کا رواج تھا اس کے بالمقابل دوسری طرف یہ سفیہانہ رحم دلی کہ کیڑے مکوڑوں کی ہتھیا کو حرام سمجھیں جانوروں کے ذبیحہ کو حرام قرار دیں خدا کے حلال کئے ہوئے جانوروں کے گوشت و پوست سے نفع اٹھانے کو ظلم سمجھیں امت محمدیہ اور اس کی شریعت نے ان سب بےاعتدالیوں کا خاتمہ کیا ایک طرف انسان کو انسان کے حقوق کی حفاظت سکھلائی عورتوں کو مردوں کی طرح حقوق عطا فرمائے اور دوسری طرف ہر چیز کی حد مقرر فرمائی جس سے آگے بڑہنے اور پیچھے رہنے کو جرم قرار دیا اور اپنے حقوق کے معاملہ میں درگذر اور عفو وچشم پوشی کا سبق سکھلایا دوسروں کے حقوق کا پورا اہتمام کرنے کے آداب سکھلائے،
اقتصادی اور مالی اعتدالی
اس کے بعد دنیا کی ہر قوم وملت میں سب سے اہم مسئلہ معاشیات اور اقتصادیات کا ہے اس میں بھی دوسری قوموں اور امتوں میں طرح طرح کی بےاعتدالیاں نظر آئیں ایک طرف نظام سرمایہ داری ہے جس میں حلال و حرام کی قیود سے اور دوسرے لوگوں کی خوش حالی یا بدحالی سے آنکھیں بند کرکے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرلینا سب سے بڑی انسانی فضیلت سمجھی جاتی ہے تو دوسری طرف شخصی اور انفرادی ملکیت ہی کو سرے سے جرم قرار دیا جاتا ہے اور غور کرنے سے دونوں اقتصادی نظاموں کا حاصل مال و دولت کی پرستش اور اس کو مقصد زندگی سمجھنا اور اس کے لئے دوڑ دھوپ ہے،
امت محمدیہ اور اس کی شریعت نے اس میں بھی اعتدال کی عجیب و غریب صورت پیدا کی کہ ایک طرف تو دولت کو مقصد زندگی بنانے سے منع فرمایا اور انسانی عزت و شرافت یا کسی منصب عہدہ کا مدار اس پر نہیں رکھا اور دوسری طرف تقسیم دولت کے ایسے پاکیزہ اصول مقرر کئے جن سے کوئی انسان ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے اور کوئی فرد ساری دولت کو نہ سمیٹ لے قابل اشتراک چیزوں کو مشترک اور وقف عام رکھا مخصوص چیزوں میں انفرادی ملکیت کا مکمل احترام کیا حلال مال کی فضیلت اس کے رکھنے اور استعمال کرنے کے صحیح طریقے بتلائے اس کی تفصیل اس قدر طویل ہے کہ ایک مستقل بیان کو چاہتی ہے اس وقت بطور مثال چند نمونے اعتدال اور بےاعتدالی کے پیش کرنے تھے اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے جس سے آیت مذکورہ کا مضمون واضح ہوگیا کہ امت محمدیہ کو ایک معتدل اور بہترین امت بنایا گیا ہے،
شہادت کے لئے عدل وثقہ ہونا شرط ہے
لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاس یعنی امت محمدیہ کو وسط اور عدل وثقۃ اس لئے بنایا گیا کہ یہ شہادت دینے کے قابل ہوجائیں اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص عدل نہیں وہ قابل شہادت نہیں، عدل کا ترجمہ ثقہ یعنی قابل اعتماد کیا جاتا ہے اس کی پوری شرائط کتب فقہ میں مذکور ہیں،
اجماع کا حجت ہونا
قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت اجماع امت کے حجت ہونے پر ایک دلیل ہے کیونکہ جب اس امت کو اللہ تعالیٰ نے شہداء قرار دے کر دوسری امتوں کے بالمقابل انکی بات کو حجت بنادیا تو ثابت ہوا کہ اس امت کا اجماع حجت ہے اور عمل اس پر واجب ہے اس طرح کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین کا اجماع تابعین پر اور تابعین کا اجماع تبع تابعین پر حجت ہے،
اور تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اس امت کے جو افعال و اعمال متفق علیہ ہیں وہ سب محمود و مقبول ہیں کیونکہ اگر سب کا اتفاق کسی خطا پر تسلیم کیا جائے تو پھر یہ کہنے کے کوئی معنی نہیں رہتے کہ یہ امت وسط اور عدل ہے۔
اور امام جصاص نے فرمایا کہ اس آیت میں اس کی دلیل ہے کہ ہر زمانے کے مسلمانوں کا اجماع معتبر ہے اجماع کا حجت ہونا صرف قرن اول یا کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں کیونکہ آیت میں پوری امت کو خطاب ہے اور امت رسول اللہ ﷺ کی صرف وہ نہ تھے جو اس زمانے میں موجود تھے بلکہ قیامت تک آنے والی نسلیں جو مسلمان ہیں وہ سب آپ کی امت ہیں تو ہر زمانے کے مسلمان شہداء اللہ ہوگئے جن کا قول حجت ہے وہ سب کسی خطاء اور غلط پر متفق نہیں ہوسکتے،
(وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ)
خلاصہ تفسیر
(اور اصل میں تو شریعت محمدیہ کے لئے ہم نے کعبہ ہی قبلہ تجویز کر رکھا تھا) اور جس سمت قبلہ پر آپ (چند روز قائم) رہ چکے ہیں (یعنی بیت المقدس) وہ تو محض اس (مصلحت کے) لئے تھا کہ ہم کو (ظاہری طور پر بھی) معلوم ہوجاوے کہ (اس کے مقرر ہونے سے یا بدلنے سے یہود اور غیر یہود میں سے) کون تو رسول اللہ ﷺ کا اتباع اختیار کرتا ہے اور کون پیچھے کو ہٹتا جاتا ہے (اور نفرت اور مخالفت کرتا ہے اس امتحان کے لئے اس عارضی قبلہ کو مقرر کیا تھا پھر اصلی قبلہ سے اس کو منسوخ کردیا) اور یہ قبلہ کا بدلنا (منحرف لوگوں پر) ہوا بڑا ثقیل (ہاں) مگر جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے (سیدھے طریق کی) ہدایت فرمائی ہے (جس کا بیان اوپر آچکا ہے کہ احکام الہیہ کو بےچون وچرا قبول کرلینا ان کو کچھ بھی گراں نہیں ہوا جیسا پہلے اس کو خدا کا حکم سمجھتے تھے اب اس کو سمجھنے لگے) اور (ہم نے جو کہا ہے کہ بیت المقدس قبلہ غیر اصلی تھا اس سے کوئی شخص یہ وسوسہ نہ لاوے بس تو جتنی نمازیں ادھر پڑھی ہیں ان میں ثواب بھی کم ملا ہوگا کیونکہ اصلی قبلہ کی طرف نہ تھیں سو اس وسوسہ کو دل میں نہ لانا کیونکہ) اللہ تعالیٰ ایسے نہیں کہ تمہارے ایمان (کے متعلق اعمال مثلاً نماز کے ثواب) کو ضائع (اور ناقص) کردیں (اور) واقعی اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں پر بہت ہی شفیق (اور) مہربان ہیں (تو ایسے شفیق مہربان پر یہ گمان کب ہوسکتا ہے کیونکہ کسی قبلہ کا اصلی یا غیر اصلی ہونا تو ہم ہی جانتے ہیں تم نے تو دونوں کو ہمارا حکم سمجھ کر قبول کیا اس لئے ثواب بھی کسی کا کم نہ ہوگا)
معارف و مسائل
کعبہ کے قبلہ نماز ہونے کی ابتداء کب ہوئی
اس میں صحابہ کرام ؓ اجمعین وتابعین کا اختلاف ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں جب نماز فرض ہوئی اس وقت قبلہ بیت اللہ تھا یا بیت المقدس۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا قول یہ ہے کہ اول ہی سے قبلہ بیت المقدس تھا جو ہجرت کے بعد بھی سولہ سترہ مہینہ تک باقی رہا اس کے بعد بیت اللہ کو قبلہ بنانے کے احکام نازل ہوگئے البتہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مکہ مکرمہ میں یہ رہا کہ آپ حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان نماز پڑہتے تھے تاکہ بیت اللہ بھی سامنے رہے اور بیت المقدس کا بھی استقبال ہوجائے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد یہ ممکن نہ رہا اس لئے تحویل قبلہ کا اشتیاق پیدا ہوا (ابن کثیر)
اور دوسرے حضرات نے فرمایا کہ جب نماز فرض ہوئی مکہ مکرمہ میں تو مسلمانوں کا ابتدائی قبلہ بیت اللہ ہی تھا کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی رہا تھا اور آنحضرت ﷺ جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے بیت اللہ ہی کی طرف نماز پڑھتے رہے پھر ہجرت کے بعد آپ کا قبلہ بیت المقدس قرار دے دیا گیا اور مدینہ منورہ میں سترہ مہینے آپ نے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی اس کے بعد پھر آپ کا جو پہلا قبلہ تھا یعنی بیت اللہ اسی کی طرف نماز میں توجہ کرنے کا حکم آگیا تفسیر قرطبی میں بحوالہ ابو عمرو اسی کو اصح القولین قرار دیا ہے اور حکمت اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد چونکہ قبائل یہود سے سابقہ پڑا تو آنحضرت ﷺ نے ان کو مانوس کرنے کے لئے انہی کا قبلہ باذن خداوندی اختیار کرلیا مگر پھر تجربہ سے ثابت ہوا کہ یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنے والے نہیں تو پھر آپ کو اپنے اصلی قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا، جو آپ کو اپنے آباء ابراہیم واسماعیل کا قبلہ ہونے کی وجہ سے طبعاً محبوب تھا،
اور قرطبی نے ابوالعالیہ ریاحی سے نقل کیا ہے کہ حضرت صالح ؑ کی مسجد کا قبلہ بھی بیت اللہ کی طرف تھا اور پھر ابوالعالیہ نے نقل کیا ہے کہ ان کا ایک یہودی سے مناظرہ ہوگیا یہودی نے کہا کہ موسیٰ ؑ کا قبلہ صخرہ بیت المقدس تھا ابوالعالیہ نے کہا کہ نہیں موسیٰ ؑ بیت المقدس کے پاس نماز پڑہتے تھے مگر آپ کا رخ بیت اللہ ہی کی طرف ہوتا تھا یہودی نے انکار کیا تو ابوالعالیہ نے کہا کہ اچھا میرے تمہارے جھگڑے کا فیصلہ حضرت صالح ؑ کی مسجد کردے گی جو بیت المقدس کے نیچے ایک پہاڑ پر ہے دیکھا گیا تو اس کا قبلہ بیت اللہ کی طرف تھا،
اور جن حضرات نے پہلا قول اختیار کیا ہے ان کے نزدیک حکمت یہ تھی کہ مکہ مکرمہ میں تو مشرکین سے امتیاز اور ان سے مخالفت کا اظہار کرنا تھا اس لئے ان کا قبلہ چھوڑ کر بیت المقدس کو قبلہ بنادیا گیا پھر ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں یہود و نصاریٰ سے امتیاز اور ان کی مخالفت کا اظہار مقصود ہوا تو ان کا قبلہ بدل کر بیت اللہ کو قبلہ بنادیا گیا اسی اختلاف اقوال کی بناء پر آیت مذکورہ کی تفسیر میں بھی اختلاف ہوگیا کہ الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ سے کیا مراد ہے قول اول کی بناء پر اس سے مراد بیت المقدس ہے جو آپ کا قبلہ اولیٰ تھا اور قول ثانی کی بناء پر اس سے مراد کعبہ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ وہی آپ کا پہلا قبلہ تھا،
اور مفہوم آیت کا دونوں صورتوں میں یہ ہے کہ ہم نے تحویل قبلہ کو آپ کا اتباع کرنے والے مسلمانوں کے لئے ایک امتحان قرار دیا ہے تاکہ ظاہر طور پر بھی معلوم ہوجائے کہ کون آپ کا صحیح فرمانبردار ہے اور کون اپنی رائے کے پیچھے چلتا ہے چناچہ تحویل قبلہ کا حکم نازل ہونے کے بعد بعض ضعیف الایمان یا وہ جن کے دلوں میں کچھ نفاق تھا اسلام سے پھرگئے اور رسول اللہ ﷺ پر یہ الزام لگایا کہ یہ تو اپنی قوم کے دین کی طرف پھرگئے،
بعض احکام متعلقہ
کبھی سنت کو قرآن کے ذریعہ بھی منسوخ کیا جاتا ہے
جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ قرآن کریم میں کہیں اس کی تصریح نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو قبل از ہجرت یا بعد ہجرت بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تھا بلکہ اس کا ثبوت صرف احادیث اور سنت نبویہ ہی سے ہے تو جو چیز سنت کے ذریعہ ثابت ہوئی تھی اس آیت قرآن نے اس کو منسوخ کرکے آپ کا قبلہ بیت اللہ کو بنادیا،
اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ حدیث رسول بھی ایک حیثیت سے قرآن ہی ہے اور یہ کہ کچھ احکام وہ بھی ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں صرف حدیث سے ثابت ہیں اور قرآن ان کی شرعی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ اسی آیت کے اخیر میں یہ بھی مذکور ہے کہ جو نماریں بامر رسول اللہ ﷺ بیت المقدس کی طرف پڑھی گئیں وہ بھی معتبر اور مقبول عنداللہ ہیں،
خبر واحد جبکہ قرائن قویہ اس کے ثبوت پر موجود ہوں اس سے قرآنی حکم منسوخ سمجھا جاسکتا ہے
بخاری ومسلم اور تمام معتبر کتب حدیث میں متعدد صحابہ کرام ؓ اجمعین کی روایت سے منقول ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ پر تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا اور آپ نے عصر کی نماز جانب بیت اللہ پڑھی (اور بعض روایات میں اس جگہ عصر کے بجائے ظہر مذکور ہے) (ابن کثیر) تو بعض صحابہ کرام ؓ اجمعین یہاں سے نماز پڑھ کر باہر گئے اور دیکھا کہ قبیلہ بنی سلمہ کے لوگ اپنی مسجد میں حسب سابق بیت المقدس کی طرف نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے آواز دے کر کہا کہ اب قبلہ بیت اللہ کی طرف ہوگیا ہے ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بجانب بیت اللہ نماز پڑھ کر آئے ہیں ان لوگوں نے درمیان نماز ہی اپنا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف پھیرلیا، نویلہ بنت مسلم کی روایت میں ہے کہ اس وقت عورتیں جو پچھلی صفوں میں تھیں آگے آگئیں اور مرد جو اگلی صفوں میں تھے پیچھے آگئے اور جب رخ بیت اللہ کی طرف بدلا گیا تو مردوں کی صفیں آگے اور عورتوں کی پیچھے ہوگئیں (ابن کثیر)
بنو سلمہ کے لوگوں نے تو ظہر یا عصر ہی سے تحویل قبلہ کے حکم پر عمل کرلیا مگر قباء میں یہ خبر اگلے دن صبح کی نماز میں پہنچی جیسا کہ بخاری ومسلم میں بروایت ابن عمر مذکور ہے اہل قباء نے بھی نماز ہی کے اندر اپنا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف پھیرلیا (ابن کثیر وجصاص)
امام جصاص نے یہ متعدد روایات حدیث نقل کرکے فرمایا
ھذا خبر صحیح مستفیض فی ایدی اہل العلم قد تلقوہ بالقبول فصار فی حیز التواتر الموجب للعلم،
یعنی یہ حدیث اگرچہ اصل سے خبر واحد ہے مگر قرائن قویہ کی وجہ سے اس نے درجہ تواتر کا حاصل کرلیا ہے جو علم یقین کا موجب ہوتا ہے ،
مگر حنفیہ اور ان کے متفق فقہا جن کا ضابطہ یہ ہے کہ خبر واحد سے کوئی قطعی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا ان پر یہ سوال اب بھی باقی رہتا ہے کہ اس حدیث کی شہرت اور تلقی بالقبول تو بعد میں ہوئی بنو سلمہ اور اہل قباء کو تو اچانک ایک ہی آدمی نے خبر دی تھی اس وقت اس حدیث کو درجہ شہرت وتواتر حاصل نہیں تھا انہوں نے اس پر کیسے عمل کرلیا۔ جصاص نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ ان حضرات اور سب صحابہ کرام ؓ اجمعین کو پہلے سے یہ معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی رغبت یہ ہے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کردیا جائے اور آپ اس کے لئے دعا بھی کررہے ہیں اس رغبت ودعا کی وجہ سے ان حضرات کی نظر میں استقبال بیت المقدس کا حکم آئندہ باقی نہ رہنے کا احتمال ضرور پیدا ہوگیا تھا اس احتمال کی وجہ سے بقاء قبلہ بیت المقدس ظنی ہوگیا تھا اس کے منسوخ کرنے کے لئے یہ خبر واحد کافی ہوگئی ورنہ محض خبر واحد سے کوئی قرآنی قطعی فیصلہ منسوخ ہوجانا معقول نہیں،
آلہ مکبر الصوت کی آواز پر نماز میں نقل و حرکت کے مفسد نماز نہ ہونے پر استدلال
صحیح بخاری باب ما جاء فی القبلۃ میں حضرت عبداللہ بن عمر کی حدیث میں جو قباء میں تحویل قبلہ کا حکم پہنچنے اور ان لوگوں کے بحالت نماز بیت اللہ کی طرف پھرجانے کا واقعہ ذکر کیا اس پر علامہ عینی حنفی نے تحریر فرمایا ہے ،
فیہ جواز تعلیم من لیس فی الصلوٰۃ من ھو فیہا (عمدۃ القاری ص 148 ج 4)
" یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص نماز میں شریک نہیں وہ کسی نماز پڑھنے والے کو تعلیم و تلقین کرسکتا ہے "۔
نیز علامہ عینی نے دوسری جگہ اس حدیث کے ذیل میں یہ الفاظ لکھے ہیں وفیہ استماع المصلی الکلام من لیس فی الصلوٰۃ فلا یضر صلو تہ (الی) ہکذا استنبطہ الطحاوی (عمدۃ القاری ص 242 ج 1)
اور عام فقہاء حنفیہ نے جو خارج صلوۃ کسی شخص کی اقتداء اور اتباع کی مفسد نماز کہا ہے جو عام متون وشروح حنفیہ میں منقول ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ نماز میں غیر اللہ کے امر کا اتباء موجب فساد نماز ہے لیکن اگر کوئی شخص اتباع امر الہی کا کرے مگر اس اتباع میں کوئی دوسرا شخص واسطہ بن جائے وہ موجب فساد نہیں،
فقہاء نے جہاں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ کوئی شخص جماعت میں شریک ہونے کے لئے ایسے وقت پہنچے کہ اگلی صف پوری ہوچکی ہے اب پچھلی صف میں تنہا رہ جاتا ہے تو اس کو چاہئے کہ اگلی صف میں سے کسی آدمی کو پیچھے کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے اس میں بھی یہی سوال آتا ہے کہ اس کے کہنے سے جو پیچھے آجائے گا وہ نماز میں اتباع امر غیر اللہ کا کرے گا اس لئے اس کی نماز فاسد ہوجانی چاہئے لیکن درمختار باب الامامۃ میں اس مسئلہ کے متعلق تحریر فرمایا ثم نقل تصحیح عدم الفساد فی مسئلۃ من جذب من الصف فتأخر فہل ثم فرق فلیحرر اس پر علامہ طحطاوی نے تحریر فرمایا لانہ امتثل امر اللہ یعنی اس صورت میں نماز فاسد نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت اس شخص نے آنیوالے کے حکم کا اتباع نہیں کیا بلکہ امر الہٰی کا اتباع کیا جو رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اس کو پہنچا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو اگلی صف والے کو پیچھے آجانا چاہئے،
اسی طرح شربنلالی نے شرح وہبانیہ میں اس مسئلہ کا ذکر کرکے پہلے فساد نماز کا قول نقل کیا پھر اس کی تردید کی اس کے الفاظ یہ ہیں۔
اذا قیل لمصل تقدم فتقدم (الی) فسدت صلوتہ لانہ امتثل امر غیر اللہ فی الصلوٰۃ لان امتثالہ انما ہو لامر رسول اللہ ﷺ فلا یضرا،
ان تمام روایات سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی نمازی ایسے شخص کی آواز پر عمل کرے جو اس کے ساتھ نماز میں شریک نہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ خود اس شخص کی دلداری اور اتباع مقصود ہو یہ تو مفسد نماز ہے لیکن اگر اس نے کوئی حکم شرعی بتلایا اور اس کا اتباع نمازی نے کرلیا تو وہ درحقیقت امر الہی کا اتباع ہے اس لئے مفسد نماز نہیں ہوگا اسی لئے طحطاوی نے فیصلہ یہی کیا ہے کہ اقول لو قیل بالتفصیل بین کونہ امتثل امر الشارع فلا تفسد وبین کونہ امتثل امر الداخل مراعاۃ لخاطرہ من غیر نظر لامر الشارع فتفسد لکان حسناً (طحطاوی علی الدر، ص 246 ج 1)
اب مسئلہ زیر بحث یعنی آلہ مکبر الصوت کا فیصلہ کرلینا آسان ہوگیا کیونکہ وہاں اس آلے کے اتباع کا دور دور بھی وہم نہیں ہوسکتا ظاہر ہے کہ اتباع رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کا ہوتا ہے کہ جب امام رکوع کرے تو رکوع کرو جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اس آلہ سے صرف یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اب امام رکوع میں گیا یا سجدہ میں جارہا ہے اس علم کے بعد اتباع امام کا کرتا ہے نہ کہ اس آلے کے حکم کا اور اتباع امام ایک حکم الہی ہے اور یہ کلام اس بنیاد پر ہے کہ آلہ مکبر الصوت کی آواز کو عین امام کی آواز نہ مانی جائے بلکہ اس کی نقل وحکایت قرار دیا جائے اور اہل فن اس کی آواز کو عین آواز امام کہتے ہیں ان کی تحقیق پر تو کوئی اشکال جواز صلوۃ میں نہیں ہے اس مسئلہ کی تحقیق پر احقر کا ایک مستقل مفصل رسالہ بھی شائع شدہ ہے اس کو دیکھ لیا جائے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم،
وَمَا كَان اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُ یہاں اگر ایمان سے مراد اس کے معروف معنی لئے جائیں تو مطلب آیت کا یہ ہے کہ تحویل قبلہ پر جو بعض بیوقوف لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ دین سے منحرف ہوگئے اور ان کا ایمان ہی ضائع ہوگیا اس کا جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والے نہیں بیوقوف لوگوں کے کہنے پر کان نہ دھریں،
اور بعض روایات حدیث اور اقوال سلف میں اس جگہ ایمان کی تفسیر نماز سے کی گئی ہے اور معنی یہ ہیں کہ جو نمازیں سابق قبلہ بیت المقدس کی طرف پڑھی گئی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ضائع کرنے والا نہیں وہ تو صحیح و مقبول ہوچکیں تحویل قبلہ کے حکم کا پچھلی نمازوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا،
صحیح بخاری میں بروایت ابن عازب اور ترمذی میں بروایت ابن عباس منقول ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا قبلہ بیت اللہ کو بنادیا گیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ جو مسلمان اس عرصہ میں انتقال کرگئے جب کہ نماز بیت المقدس کی طرف ہوا کرتی تھی اور بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنا ان کو نصیب نہیں ہوا ان کا کیا حال ہوگا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں نماز کو ایمان کے لفظ سے تعبیر کرکے واضح کردیا کہ ان کی نمازیں سب صحیح و مقبول ہوچکی ہیں ان کے معاملہ میں تحویل قبلہ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا،
Top