Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 216
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ : تم پر فرض کی گئی الْقِتَالُ : جنگ وَھُوَ : اور وہ كُرْهٌ : ناگوار لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تَكْرَھُوْا : تم ناپسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تُحِبُّوْا : تم پسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ شَرٌّ : بری لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
فرض ہوئی تم پو لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو اور شاید کہ بری لگے تم کو ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری تمہارے حق میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے،
خلاصہ تفسیر
تیرہواں حکم فرضیت جہاد
جہاد کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعا) گراں (معلوم ہوتا) ہے اور یہ بات ممکن ہے کہ تم کسی بات کو گراں سمجھو اور (واقع میں) وہ تمہارے حق میں خیر (اور مصلحت) ہو اور یہ (بھی) ممکن ہے کہ تم کسی امر کو مرغوب سمجھو اور (واقع میں) وہ تمہارے حق میں (باعث) خرابی کا ہو اور (ہر شے کی حقیقت حال کو) اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم (پورا پورا) نہیں جانتے (اچھے برے کا فیصلہ اپنی خواہش کی بنیاد نہ کرو جو کچھ اللہ کا حکم ہوجائے اسی کو اجمالا مصلحت سمجھ کر اس پر کار بند رہا کرو)
چودہواں حکم تحقیق قتال در شہر حرام
(حضور ﷺ کے چند صحابہ کرام ؓ اجمعین کا ایک سفر میں اتفاق سے کفار کے ساتھ مقابلہ ہوگیا ایک کافر ان کے ہاتھ سے مارا گیا اور جس روز یہ قصہ ہوا رجب کی پہلی تاریخ تھی مگر صحابہ کرام اس کو جمادی الاخریٰ کی تیس سمجھتے تھے اور رجب اشہر حرم میں سے ہے کفار نے اس واقعہ پر طعن کیا کہ مسلمانوں نے شہر حرام کی حرمت کا بھی خیال نہیں کیا مسلمانوں کو اس کی فکر ہوئی اور حضور ﷺ سے پوچھا اور بعض روایات میں ہے کہ خود بعض کفار قریش نے بھی حاضر ہو کر اعتراضا سوال کیا اس کا جواب ارشاد ہوتا ہے)۔
لوگ آپ سے شہر حرام میں قتال کرنے کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ اس میں خاص طور) یعنی عمدا) قتال کرنا جرم عظیم ہے (مگر مسلمانوں سے یہ فعل بالقصد صادر نہیں ہوا بلکہ تاریخ کی تحقیق نہ ہونے کے سبب غلطی سے ایسا ہوگیا یہ تو تحقیقی جواب ہے) اور (الزامی جواب یہ ہے کہ کفار و مشرکین کا تو کسی طرح منہ ہی نہیں مسلمانوں پر اعتراض کرنے کا، کیونکہ اگرچہ شہر حرام میں لڑنا جرم عظیم لیکن ان کفار کی جو حرکتیں ہیں یعنی) اللہ تعالیٰ کی راہ (دین) سے (لوگوں کو) روک ٹوک کرنا (یعنی مسلمان ہونے پر تکلیفیں پہنچانا کہ ڈر کے مارے لوگ مسلمان نہ ہوں) اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی کعبہ) کے ساتھ کفر کرنا (کہ وہاں بہت سے بت رکھ چھوڑے تھے اور بجائے خدا کی عبادت کے ان کی عبادت اور طواف کرتے تھے) اور جو لوگ مسجد حرام کے اہل تھے (یعنی رسول اللہ ﷺ اور دوسرے مؤ منین) ان کو (تنگ اور پریشان کرکے) اس (مسجد حرام) سے خارج (ہونے پر مجبور) کردینا (جس سے نوبت ہجرت یعنی ترک وطن کی پہنچی سو یہ حرکتیں شہر حرام میں قتال کرنے سے بھی زیادہ) جرم عظیم ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (کیونکہ یہ حرکتیں دین حق کے اندر فتنہ پردازی کرنا) اور (ایسی) فتنہ پردازی کرنا (اس) قتل (خاص) سے (جو مسلمانوں سے صادر ہوا) بدرجہا (قباحت میں) بڑھ کر ہے (کیونکہ اس قتل سے دین حق کو تو کوئی مضرت نہیں پہنچی بہت سے بہت اگر کوئی جان کر کرے خود ہی گنہگار ہوگا اور ان حرکتوں سے تو دین حق کو ضرر پہنچتا ہے کہ اس کی ترقی رکتی ہے) اور یہ کفار تمہارے ساتھ ہمیشہ جنگ (وجدال کا سلسلہ جاری ہی) رکھیں گے اس غرض سے کہ اگر (خدا نہ کرے) قابو پاویں تو تم کو تمہارے دین (اسلام) سے پھیر دیں (ان کے اس فعل سے دین کی مزاحمت ظاہر ہے)
انجام ارتداد
اور جو شخص تم میں سے اپنے دین (اسلام) سے پھر جاوے پھر کافر ہی ہونے کی حالت میں مرجاوے تو ایسے لوگوں کے (نیک) اعمال دنیا اور آخرت میں سب غارت ہوجاتے ہیں (اور) یہ لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
شہر حرام میں قتال کرنے کے بارے میں مسلمانوں کو جواب مذکور سن کر گناہ نہ ہونے کا تو اطمینان ہوگیا تھا مگر اس خیال سے دل شکستہ تھے کہ ثواب تو ہوا ہی نہ ہوگا آگے اس میں تسلی کی گئی۔
وعدہ ثواب پر اخلاص نیت
حقیقۃ جو لوگ ایمان لائے ہوں اور جن لوگوں نے راہ خدا میں ترک وطن کیا ہو اور جہاد کیا ہو ایسے لوگ تو رحمت خداوندی کے امیدوار ہوا کرتے ہیں (اور تم لوگوں میں یہ صفات علی سبیل منع الخلو موجود ہیں، چناچہ ایمان اور ہجرت تو ظاہر ہے رہا اس جہاد خاص میں شبہ ہوسکتا ہے، سو چونکہ تمہاری نیت تو جہاد ہی کی تھی لہذا ہمارے نزدیک وہ بھی جہاد ہی میں شمار ہے پھر ان صفات کے ہوتے ہوئے تم کیوں ناامید ہوتے ہو) اور اللہ تعالیٰ (اس غلطی کو) معاف کردیں گے (اور ایمان و جہاد و ہجرت کی وجہ سے تم پر) رحمت کریں گے۔

معارف و مسائل
بعض احکام جہاد
مسئلہمذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں جہاد کے فرض ہونے کا حکم ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَال یعنی تم پر جہاد فرض کیا گیا ان الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاد ہر مسلمان پر ہر حالت میں فرض ہے، بعض آیات قرآنی اور رسول کریم ﷺ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فریضہ فرض عین کے طور پر ہر ہر مسلم پر عائد نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت اس فرض کو ادا کردے تو باقی مسلمان سبکدوش سمجھے جائیں گے ہاں کسی زمانہ یا کسی ملک میں کوئی جماعت بھی فریضہ جہاد ادا کرنے والی نہ رہے تو سب مسلمان ترک فرض کے گنہگار ہوجائیں گے، حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد الجہاد ماض الیٰ یوم القیامۃ کا یہ مطلب ہے کہ قیامت تک ایسی جماعت کا موجود رہنا ضروری ہے جو فریضہ جہاد ادا کرتی رہے قرآن مجید کی دوسری آیت میں ارشاد ہے
فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ دَرَجَةً ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰي (95: 4) یعنی اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو تارکین جہاد پر فضیلت دی ہے اور اللہ تعالیٰ نے دونوں سے بھلائی کا وعدہ کیا ہے،
اس میں ایسے لوگوں سے جو کسی عذر کے سبب یا کسی دوسری دینی خدمت میں مشغول ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہوں ان سے بھی بھلائی کا وعدہ مذکور ہے ظاہر ہے کہ اگر جہاد ہر فرد مسلم پر فرض عین ہوتا تو اس کے چھوڑنے والوں سے وعدہ حسنیٰ یعنی بھلائی کا وعدہ ہونے کی صورت نہ تھی۔
اسی طرح ایک دوسری آیت میں ہے
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ (122: 9) اور کیوں نہ نکل کھڑی ہوئی تمہاری ہر بڑی جماعت میں سے چھوٹی جماعت اس کام کے لئے کہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں۔
اس میں خود قرآن کریم نے یہ تقسیم عمل پیش فرمائی کہ کچھ مسلمان جہاد کا کام کریں اور کچھ تعلیم دین میں مشغول رہیں اور یہ جبھی ہوسکتا ہے جبکہ جہاد فرض عین نہ ہو بلکہ فرض کفایہ ہو۔
نیز صحیح بخاری ومسلم کی حدیث ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے شرکت جہاد کی اجازت چاہی تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جاؤ ماں باپ کی خدمت کرکے جہاد کا ثواب حاصل کرو اس سے بھی یہ معلوم ہوا کہ جہاد فرض کفایہ ہے جب مسلمانوں کی ایک جماعت فریضہ جہاد کو قائم کئے ہوئے ہو تو باقی مسلمان دوسری خدمتوں اور کاموں میں لگ سکتے ہیں ہاں اگر کسی وقت امام المسلمین ضرورت سمجھ کر نفیر عام کا حکم دے اور سب مسلمانوں کو شرکت جہاد کی دعوت دے تو پھر جہاد سب پر فرض عین ہوجاتا ہے قرآن کریم نے سورة توبہ میں ارشاد فرمایا
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ (38: 9) اے مسلمانو ! تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم بوجھل بن جاتے ہو۔
اس آیت میں اسی نفیر عام کا حکم مذکور ہے اسی طرح اگر خدانخواستہ کسی وقت کفار کسی اسلامی ملک پر حملہ آور ہوں اور مدافعت کرنے والی جماعت ان کی مدافعت پر پوری طرح قادر اور کافی نہ ہو تو اس وقت بھی یہ فریضہ اس جماعت سے متعدی ہو کر پاس والے سب مسلمانوں پر عائد ہوجاتا ہے اور اگر وہ بھی عاجز ہوں تو ان کے پاس والے مسلمانوں پر، یہاں تک کہ پوری دنیا کے ہر ہر فرد مسلم پر ایسے وقت جہاد فرض عین ہوجاتا ہے قرآن مجید کی مذکورہ بالا تمام آیات کے مطالعہ سے جمہور فقہا ومحدثین نے یہ حکم دیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
مسئلہاسی لئے جب تک جہاد فرض کفایہ ہو اولاد کو بغیر ماں باپ کی اجازت کے جہاد میں جانا جائز نہیں۔
مسئلہجس شخص کے ذمہ کسی کا قرض ہو اس کے لئے جب تک قرض ادا نہ کردے اس فرض کفایہ میں حصہ لینا درست نہیں ہاں اگر کسی وقت نفیر عام کے سبب یا کفار کے نرغہ کے باعث جہاد سب پر فرض عین ہوجائے تو اس وقت نہ والدین کی اجازت شرط ہے نہ شوہر کی اور نہ قرض خواہ کی اس آیت کے آخر میں جہاد کی ترغیب کے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ جہاد اگرچہ طبعی طور پر تمہیں بھاری معلوم ہو لیکن خوب یاد رکھو کہ انسانی بصیرت ودانشمندی اور تدبیر و محنت عواقب و نتائج کے بارے میں بکثرت فیل ہوتی ہے کسی مفید کو مضر یا مضر کو مفید سمجھ لینا بڑے سے بڑے ہوشیار عقلمند سے بھی مستبعد نہیں ہر انسان اگر اپنی عمر میں پیش آنے والے وقائع پر نظر ڈالے تو اپنی ہی زندگی میں اس کو بہت سے واقعات ایسے نظر پڑیں گے کہ وہ کسی چیز کو نہایت مفید سمجھ کر حاصل کر رہے تھے اور انجام کار یہ معلوم ہوا کہ وہ انتہائی مضر تھی یا کسی چیز کو نہایت مضر سمجھ کر اس سے اجتناب کر رہے تھے، اور انجام کار یہ معلوم ہوا کہ وہ نہایت مفید تھی، انسانی عقل و تدبیر کی رسوائی اس معاملہ میں بکثرت مشاہدہ میں آتی رہتی ہے۔
خویش را دیدم و رسوائی خویش
اس لئے فرمایا کہ جہاد و قتال میں اگرچہ بظاہر مال اور جان کا نقصان نظر آتا ہے لیکن جب حقائق سامنے آئیں گے تو کھلے گا کہ یہ نقصان ہرگز نقصان نہ تھا بلکہ سراسر نفع اور دائمی راحت کا سامان تھا۔
Top