Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 228
وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًا١ؕ وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَالْمُطَلَّقٰتُ : اور طلاق یافتہ عورتیں يَتَرَبَّصْنَ : انتظار کریں بِاَنْفُسِهِنَّ : اپنے تئیں ثَلٰثَةَ : تین قُرُوْٓءٍ : مدت حیض وَلَا يَحِلُّ : اور جائز نہیں لَهُنَّ : ان کے لیے اَنْ يَّكْتُمْنَ : وہ چھپائیں مَا : جو خَلَقَ : پیدا کیا اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَرْحَامِهِنَّ : ان کے رحم (جمع) اِنْ : اگر كُنَّ يُؤْمِنَّ : ایمان رکھتی ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور الْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت ۭوَبُعُوْلَتُهُنَّ : اور خاوند ان کے اَحَقُّ : زیادہ حقدار بِرَدِّھِنَّ : واپسی ان کی فِيْ ذٰلِكَ : اس میں اِنْ : اگر اَرَادُوْٓا : وہ چاہیں اِصْلَاحًا : بہتری (سلوک) وَلَهُنَّ : اور عورتوں کے لیے مِثْلُ : جیسے الَّذِيْ : جو عَلَيْهِنَّ : عورتوں پر (فرض) بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَلِلرِّجَالِ : اور مردوں کے لیے عَلَيْهِنَّ : ان پر دَرَجَةٌ : ایک درجہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور طلاق والی عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک اور ان کو حلال نہیں کہ چھپا رکھیں جو پیدا کیا اللہ نے ان کے پیٹ میں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں اللہ پر اور پچھلے دن پر اور ان کے خاوند حق رکھتے ہیں ان کے لوٹالینے کا اس مدت میں اگر چاہیں سلوک سے رہنا، اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا ان پر حق ہے دستور کے مواقع اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے، اور اللہ زبردست ہے تدبیر والا۔
خلاصہ تفسیر
حکم نمبر 23، 24 مطلقہ کی عدت اور مدت رجعت کا بیان
وَالْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ (الی قولہ) اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا اور طلاق دی ہوئی عورتیں (جن میں اتنی صفتیں ہوں خاوند نے ان سے صحبت یا خلوت صحیحہ کی ہو ان کو حیض آتا ہو آزاد ہوں یعنی شرعی قاعدہ سے لونڈی نہ ہوں) اپنے آپ کو (نکاح سے) روکے رکھیں تین حیض (ختم ہونے) تک (اور اس کو عدت کہتے ہیں) اور ان عورتوں کو یہ بات حلال نہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ ان کے رحم (بچہ دان) میں پیدا کیا ہو (خواہ حمل ہو یا حیض) اس کو پوشیدہ کریں (کیونکہ اس کے پوشیدہ کرنے سے عدت کا حساب غلط ہوجاوے گا) اگر وہ عورتیں اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتی ہیں (بوجہ اس کے کہ اس یقین کا مقتضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں کہ قیامت میں نافرمانی پر سزا نہ ہوجاوے) اور ان عورتوں کے شوہر (جب کہ ان کو طلاق رجعی ملی ہو جس کا بیان آگے آئے گا) ان کے (بلا تجدید نکاح) پھر لوٹا لینے کا حق رکھتے ہیں اس عدت کے اندر (اور اس لوٹا لینے کو رجعت کہتے ہیں) بشرطیکہ (رجعت کرنے سے) اصلاح کا قصد رکھتے ہوں (ورنہ تنگ کرنے کے لئے رجعت کرنا لاحاصل ہے گو رجعت تو ہو ہی جاوے گی) اور (یہ حکم اصلاح کا اس لئے کیا گیا کہ) عورتوں کے حقوق میں (مردوں پر) جو کہ (نفس وجوب میں) مثل انہی کے حقوق کے ہیں جو ان عورتوں پر ہیں (مردوں کے کہ ان کو) قاعدہ (شرعی) کے موافق (ادا کیا جاوے) اور (اتنی بات ضرور ہے کہ) مردوں کا ان کے مقابلہ میں کچھ درجہ بڑھا ہوا ہے (اس لئے ان کے حقوق کی نوعیت عورتوں کے حقوق کی نوعیت سے بڑھی ہوئی ہے) اور اللہ تعالیٰ زبردست (حاکم) ہیں (اور) حکیم (بھی) ہیں۔
مسائل متعلقہ آیت از بیان القرآن
(1) اگر غلبہ شہوت سے حالت حیض میں صحبت ہوگئی تو خوب توبہ کرنا واجب ہے اور کچھ خیر خیرات بھی دیدے تو زیادہ بہتر ہے۔
(2) یپچھے کے موقع میں اپنی بی بی سے بھی صحبت کرنا حرام ہے۔
(3) لغو قسم کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ کسی گذری ہوئی بات پر جھوٹی قسم بلا ارادہ نکل گئی یا نکلی تو ارادے سے مگر اس کو اپنے گمان میں صحیح سمجھتا ہے جیسے اپنے علم و گمان کے مطابق قسم کھا بیٹھا کہ زید آگیا ہے، اور واقع میں وہ نہ آیا تھا یا آئندہ بات پر اس طرح قسم نکل گئی کہ کہنا چاہتا تھا کچھ اور بےارادہ منہ سے قسم نکل گئی اس میں گناہ نہیں ہوتا اور اس کو اسی واسطے لغو کہتے ہیں، آخرت میں اس پر مواخذہ نہیں ہوگا اور اس کے مقابلہ میں جس پر مؤ اخذہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے یہ وہ قسم ہے جو قصداً جھوٹی سمجھ کر کھائی ہو اس کو غموس کہتے ہیں اس میں گناہ ہوتا ہے، مگر امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک کفارہ نہیں آتا اور لغو بالمعنی المذکور میں بدرجہ اولیٰ کفارہ نہیں اس آیت میں انہی دونوں کا بیان ہے جن میں کفارہ نہیں۔
دوسرے معنی لغو کے یہ ہیں جس پر کفارہ نہ ہو اور اس کو لغو اس لئے کہیں گے کہ مؤ اخذہ دنیوی یعنی کفارہ اس پر نہیں آتا اس معنی کے لحاظ سے لفظ لغو غموس کو بھی شامل ہے کہ اس میں اگرچہ گناہ ہوتا ہے لیکن کفارہ نہیں آتا اس مقابلہ میں وہ قسم جس پر کفارہ بھی آتا ہے منعقدہ کہلاتی ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ قصداً یوں قسم کھائے کہ میں فلاں فعل کروں گا یا فلاں کام نہ کروں گا اس میں خلاف کرنے سے کفارہ لازم آتا ہے۔
(4) اگر قسم کھالے کہ اپنی بیوی سے صبحت نہ کروں گا اس کی چار صورتیں ہیں، ایک یہ کہ کوئی مدت معین نہ کرے دوم یہ کہ چار مہینے کی مدت کی قید لگادے، سوم یہ کہ چار ماہ سے زیادہ کی مدت کی قید لگادے، چہارم یہ کہ چار ماہ سے کم کی مدت کا نام لے، پس صورت اول دوم اور سوم کو شرع میں ایلاء کہتے ہیں اور اس کا حکم یہ ہے کہ اگر چار ماہ کے اندر اپنی قسم توڑ ڈالے اور بیوی کے پاس چلا آوے تو قسم کا کفارہ دے اور نکاح باقی ہے اور اگر چار ماہ گذر گئے اور قسم نہ توڑی تو اس عورت پر قطی طلاق پڑگئی یعنی بلانکاح رجوع کرنا درست نہیں رہا البتہ اگر دونوں رضامندی سے پھر نکاح کرلیں تو درست ہے حلالہ کی ضرورت نہ ہوگی، اور چوتھی صورت کا حکم یہ ہے کہ اگر قسم توڑے تو کفارہ لازم ہوگا اور اگر قسم پوری کرلی جب بھی نکاح باقی ہے (بیان القرآن)

معارف و مسائل
مرد و عورت کے فرق اور میاں بیوی کے باہمی حقوق و درجات پر ایک جامع آیت
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بالْمَعْرُوْفِ (الآیۃ، یہ آیت عورتوں اور مردوں کے باہمی حقوق و فرائض اور ان کے درجات کے بیان میں ایک شرعی ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے اس آیت سے پہلے اور اس کے بعد کئی رکوع تک اسی ضابطہ کی اہم جزئیات کا بیان ہوا ہے۔
اسلام میں عورت کا موقف
اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے عورت کے اس موقف کی کچھ تشریح کردی جائے جو اسلام نے اس کو عطا کیا ہے جس کو سمجھ لینے کے بعد یقینی طور پر اس کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ایک عادلانہ اور معتدلانہ نظام کا مقتضیٰ یہی تھا اور یہی وہ مقام ہے جس سے اونچ نیچ یا انحراف انسان کے دین و دنیا کے لئے عظیم خطرہ بن جاتا ہے۔
غور کیا جائے تو دنیا میں دو چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اس عالم کی بقاء اور تعمیر و ترقی میں عمود کا درجہ رکھتی ہیں ایک عورت، دوسرے دولت، لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو یہی دونوں چیزیں دنیا میں فساد وخوں ریزی اور طرح طرح کے فتنوں کا سبب بھی ہیں اور غور کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچنا کچھ دشوار نہیں کہ یہ دونوں چیزیں اپنی اصل میں دنیا کی تعمیر و ترقی اور اس کی رونق کا ذریعہ ہیں لیکن جب کہیں ان کو اپنے اصلی مقام اور موقف سے ادھر ادھر کردیا جاتا ہے تو یہی چیزیں دنیا میں سب سے بڑا زلزلہ بھی بن جاتی ہیں۔
قرآن نے انسان کو نظام زندگی دیا ہے اس میں ان دونوں چیزوں کو اپنے اپنے صحیح مقام پر ایسا رکھا گیا ہے کہ ان کے فوائد وثمرات زیادہ سے زیادہ حاصل ہوں اور فتنہ و فساد کا نام نہ رہے دولت کا صحیح مقام اس کے حاصل کرنے کے ذرائع اور خرچ کرنے کے طریقے اور تقسیم دولت کا عادلانہ نظام یہ ایک مستقل علم ہے جس کو اسلام کا معاشی نظام کہا جاسکتا ہے اس کا بیان انشاء اللہ کسی اور موقع پر ہوگا احقر کا مطبوعہ رسالہ تقسیم دولت بھی ضروری اشارات کا کام دے سکتا ہے۔
اس وقت عورت اور اس کے حقوق و فرائض کا ذکر ہے اس کے متعلق آیت مذکورہ میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں جن کی ادائیگی ضروری ہے اسی طرح مردوں پر عورتوں کے حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے ہاں اتنا فرق ضروری ہے کہ مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے اور تقریبا یہی مضمون سورة نسآء کی آیت میں اس طرح آیا ہے۔
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ (34: 4) یعنی مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس واسطے کہ بڑائی اللہ نے دی ایک کو ایک پر اور اس واسطے کہ خرچ کئے انہوں نے اپنے مال۔
اسلام سے پہلے معاشرہ میں عورت کا درجہ
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں تمام دنیا کی اقوام میں جاری تھا کہ عورت کی حیثیت گھریلو استعمال کی اشیاء سے زیادہ نہ تھی چوپاؤں کی طرح اس کی خریدو فروخت ہوتی تھی اس کو اپنی شادی بیاہ میں کسی قسم کا کوئی اختیار نہ تھا اس لئے اولیاء جس کے حوالے کردیتے وہاں جانا پڑتا تھا عورت کو اپنے رشتہ داروں کی میراث میں کوئی حصہ نہ ملتا تھا بلکہ وہ خود گھریلو اشیاء کی طرح مال وراثت سمجھی جاتی تھی وہ مردوں کی ملکیت تصور کی جاتی تھی اس کی ملکیت کسی چیز پر نہ تھی اور جو چیزیں عورت کی ملکیت کہلاتی تھیں ان میں اس کو مرد کی اجازت کے بغیر کسی قسم کے تصرف کا کوئی اختیار نہ تھا ہاں اس کے شوہر کو ہر قسم کا اختیار تھا کہ اس کے مال کو جہاں چاہے اور جس طرح چاہے خرچ کر ڈالے اس کو پوچھنے کو بھی کوئی حق نہ تھا یہاں تک کہ یورپ کے وہ ممالک جو آجکل دنیا کے سب سے زیادہ متمدن ملک سمجھے جاتے ہیں ان میں بعض لوگ اس حد کو پہنچے ہوئے تھے کہ عورت کے انسان ہونے کو بھی تسلیم نہ کرتے تھے۔
عورت کے لئے دین و مذہب میں بھی کوئی حصہ نہ تھا نہ اس کو عبادت کے قابل سمجھا جاتا تھا نہ جنت کے روما کی بعض مجلسوں میں باہمی مشورہ سے یہ طے کیا گیا تھا کہ وہ ایک ناپاک جانور ہے جس میں روح نہیں عام طور پر باپ کے لئے لڑکی کا قتل بلکہ زندہ درگور کردینا جائز سمجھا جاتا تھا بلکہ یہ عمل باپ کے لئے عزت کی نشانی اور شرافت کا معیار تصور کیا جاتا تھا بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ عورت کو کوئی بھی قتل کردے نہ تو اس پر قصاص واجب ہے نہ خوں بہا، اور اگر شوہر مرجائے تو بیوی کو بھی اس کی لاش کے ساتھ جلا کر سَتِی کردیا جاتا تھا رسول کریم ﷺ کی ولادت کے بعد اور آپ کی نبوت سے پہلے 586 ء میں فرانس نے عورت پر یہ احسان کیا کہ بہت سے اختلافات کے بعد یہ قرارداد پاس کی کہ عورت ہے تو انسان مگر وہ صرف مرد کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی۔
الغرض پوری دنیا اور اس میں بسنے والے تمام اقوام و مذاہب نے عورت کے ساتھ یہ برتاؤ کیا ہوا تھا کہ جس کو سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس بیچاری مخلوق کے لئے نہ کہیں عقل و دانش سے کام لیا جاتا تھا نہ عدل و انصاف سے۔
قربان جائیے رحمۃ للعالمین ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین حق کے جس نے دنیا کی آنکھیں کھولیں انسان کو انسان کی قدر کرنا سکھلایا، عدل و انصاف کا قانون جاری کیا عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم کئے جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں اس کو آزاد وخودمختار بنایا، وہ اپنی جان ومال کی ایسی ہی مالک قراردی گئی جیسے مرد، کوئی شخص خواہ باپ دادا ہی ہو بالغ عورت کو کسی شخص کے ساتھ نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا اور اگر بلا اس کی اجازت کے نکاح کردیا جائے تو وہ اس کی اجازت پر موقوف رہتا ہے اگر نامنظور کردے تو باطل ہوجاتا ہے اس کے اموال میں کسی مرد کو بغیر اس کی رضا و اجازت کے کسی تصرف کا کوئی حق نہیں شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد وہ مختار ہے کوئی اس پر جبر نہیں کرسکتا اپنے رشتہ داروں کی میراث میں اس کو بھی ایسا ہی حصہ ملتا ہے جیسا لڑکوں کو، اس پر خرچ کرنے اور اس کے راضی رکھنے کو شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام نے ایک عبادت قرار دیا شوہر اس کے حقوق واجبہ ادا نہ کرے تو وہ اسلامی عدالت کے ذریعہ اس کو اداء حقوق پر ورنہ طلاق پر مجبور کرسکتی ہے۔
عورتوں کو مردوں کو سیادت اور نگرانی سے بالکل آزاد کردینا بھی فساد عالم کا بہت بڑا سبب ہے
عورت کو اس کے حقوق مناسبہ نہ دینا ظلم وجور اور قساوت وشقاوت تھی جس کو اسلام نے مٹایا ہے اسی طرح ان کو کھلے مہار چھوڑ دینا اور مردوں کی نگرانی وسیادت سے آزاد کردینا اس کو اپنے گذارے اور معاش کا خود متکفل بنانا بھی اس کی حق تلفی اور بربادی ہے نہ اس کی ساخت اس کی متحمل ہے اور نہ گھریلو کاموں کی ذمہ داری اور اولاد کی تربیت کا عظیم الشان کام جو فطرۃ اس کے سپرد ہے وہ اس کا متحمل ہے۔
علاوہ ازیں مردوں کی سیادت و نگرانی سے نکل کر عورت پورے انسانی معاشرہ کے لئے خطرہ عظیم ہے جس سے دنیا میں فساد وخوں ریزی اور طرح طرح کے فتنے پیدا ہونا لازمی اور روز مرہ کا مشاہدہ ہے اس لئے قرآن کریم نے عورتوں کے حقوق واجبہ کے بیان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ یعنی مردوں کا درجہ عورتوں سے بڑھا ہوا ہے اور دوسرے لفظوں میں یہ کہ مرد ان کے نگران اور ذمہ دار ہیں۔
مگر جس طرح اسلام سے پہلے جاہلیت اولیٰ میں اقوام عالم سب اس غلطی کا شکار تھیں کہ عورتوں کو ایک گھریلو سامان یا چوپایہ کی حیثیت میں رکھا ہوا تھا اسی طرح اسلام کے زمانہ انحطاط میں جاہلیت اخرٰی کا دور شروع ہوا اس میں پہلی غلطی کا رد عمل اس کے بالمقابل دوسری غلطی کی صورت میں کیا جارہا ہے کہ عورتوں پر مردوں کی اتنی سیادت سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے اور کرانے کی سعی مسلسل جارہی ہے جس کے نتیجے میں فحش وبے حیائی عام ہوگئی دنیا جھگڑوں اور فساد کا گھر بن گئی قتل وخوں ریزی کی اتنی کثرت ہوگئی کہ جاہلیت اولیٰ کو مات دے دیاعراب کا مشہور مقولہ ہے۔ الجاھل امامفرط او مفرط (یعنی جاہل آدمی کبھی اعتدال پر نہیں رہتا اگر افراط یعنی حد سے زیادہ کرنے سے باز آجاتا ہے تو کوتاہی اور تقصیر میں مبتلا ہوجاتا ہے)
یہی حال اس وقت ابنائے زمانہ کا ہے کہ یا تو عورت کو انسان کہنے اور سمجھنے کے لئے بھی تیار نہ تھے اور آگے بڑھے تو یہاں تک پہچنے کہ مردوں کی سیادت و نگرانی جو مردوں عورتوں اور پوری دنیا کے لئے عین حکمت و مصلحت ہے اس کا جوا بھی گردن سے اتارا جارہا ہے جس کے نتائج بد روزانہ آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں اور یقین کیجئے کہ جب تک وہ قرآن کے اس ارشاد کے سامنے نہ جھکیں گے ایسے فتنے روز بڑہتے رہیں گے۔
آج کی حکومتیں دنیا میں قیام امن کے لئے روز نئے نئے قانون بناتی ہیں اس کے لئے نئے نئے ادارے قائم کرتی ہیں کروڑوں روپیہ ان پر صرف ہوتا ہے لیکن فتنے جس چشمے سے پھوٹ رہے ہیں اس کی طرف دہیان نہیں دیتیں، اگر آج کوئی کمیشن اس تحقیق کے لئے بٹھایا جائے کہ فساد وخوں ریزی اور باہمی جنگ وجدل کے اسباب کی تحقیق کرے تو خیال یہ ہے کہ پچاس فی صد سے زائد ایسے جرائم کا سبب عورت اور اس کی بےمہار آزادی نکلے گی مگر آج کی دنیا میں نفس پرستی کے غلبہ نے بڑے بڑے حکماء کی آنکھوں کو خیرہ کیا ہوا ہے خواہشات نفسانی کے خلاف کسی مصلحانہ قدغن کو گوارا نہیں کیا جاتا۔
اللہ تعالیٰ ہمارے قلوب کو نور ایمان سے منور فرمائیں اور اپنی کتاب اور اپنے رسول ﷺ کی ہدایات پر پورا عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں کہ وہی دنیا وآخرت میں سرمایہ سعادت ہے۔
مسئلہاس آیت کے ضمن میں یہ معلوم ہوا کہ قرآن حکیم نے زوجین کو ان کے ذمہ عائد ہونے والے فرائض بتلائے کہ مردوں کے ذمہ عورتوں کے حقوق ادا کرنا ایسا ہی فرض ہے جیسے کہ عورتوں پر مردوں کے حقوق کا ادا کرنا فرض ہے اس میں اشارہ ہے کہ ہر فریق کو اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنے فرائض پر نظر رکھنا چاہئے اور اگر وہ ایسا کرلیں تو مطالبہ حقوق کا قضیہ ہی درمیان میں نہیں آئے گا کیونکہ مرد کے فرائض ہی عورت کے حقوق ہیں جب فرائض اداء ہوگئے تو خود بخود حقوق ادا ہوجائیں گے۔ آجکل دنیا کے سارے جھگڑے یہاں سے چلتے ہیں کہ ہر شخص اپنے حقوق کا مطالبہ تو سامنے رکھتا ہے مگر اپنے فرائض کی ادائیگی سے غافل ہے، اس کا نتیجہ مطالبہ حقوق کی جنگ ہوتی ہے جو آج کل عام طور پر حکومتوں اور عوام میں زوجین میں اور دوسرے اہل معاملہ میں چلی ہوئی ہے قرآن کریم کے اس اشارہ نے معاملہ کے رخ کو یوں بدلا ہے کہ ہر شخص کو چاہئے کہ اپنے فرائض پورا کرنے کا اہتمام کرے اور اپنے حقوق کے معاملہ میں مساہلت اور عفو درگذر سے کام لے اگر اس قرآنی تعلیم پر دنیا میں عمل ہونے لگے تو گھروں اور خاندانوں کے بلکہ ملکوں اور حکومتوں کے بیشتر نزاعات ختم ہوجائیں۔
مرد و عورت میں درجہ کا تفوق دنیوں معاملات میں ہے آخرت کی فضلیت میں اس کا کوئی اثر نہیں
دنیا میں نظام عالم اور انسانی فطرت اور خود عورتوں کی مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ مردوں کو عورتوں پر ایک قسم کی حاکمیت اور نگرانی کا نہ صرف دیا جائے بلکہ ان پر لازم کیا جائے اسی کا بیان آیت الرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ میں آیا ہے لیکن اس سے سب مردوں کا سب عورتوں سے افضل ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ فضیلت عنداللہ کا تمام تر مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے وہاں درجات کی ترقی وتنزل ایمان اور عمل کے درجات کے مطابق ہوتا ہے اس لئے امور آخرت میں یہ ضروری نہیں کہ مردوں ہی کا درجہ عورتوں سے بلند رہے یہ بھی ہوسکتا ہے اور حسب تصریح آیات وروایات ایسا ہوگا بھی کہ بعض عورتیں اپنی اطاعت و عبادت کے ذریعہ بہت سے مردوں پر فائق ہوجائیں گی ان کا درجہ بہت سے مردوں سے بڑھ جائے گا۔
قرآن مجید میں احکام شرعیہ اور اعمال کی جزاء وسزا اور ثواب و عذاب کے بیان میں اگرچہ حسب تصریح قرآن کریم عورتیں اور مرد بالکل برابر ہیں اور جن احکام میں کچھ فرق ہے ان کو مستقل طور پر وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے لیکن عام طور پر خطاب مردوں کو کیا گیا اور صیغے مذکر کے استعمال کئے گئے ہیں اور یہ بات صرف قرآن کریم کے ساتھ مخصوص نہیں عام طور پر حکومتوں کے قوانین میں بھی صیغے مذکر کے استعمال کئے جاتے ہیں حالانکہ قانون مرد و عورت کے لئے عام ہوتا ہے، اس کا ایک سبب تو وہی فرق ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی آیات میں مذکور ہوا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر ایک حیثیت سے تفوق حاصل ہے۔
دوسری بات شاید یہ بھی مضمر ہو کہ مستورات کے ذکر کے لئے بھی ستر ہی بہتر ہے لیکن قرآن کریم میں جابجا مردوں کی طرح عورتوں کا ذکر نہ ہونے سے ان کو خیال پیدا ہوا تو ام المؤ منین حضرت ام سلمہ نے آنحضرت ﷺ سے اس کا اظہار کیا تو سورة احزاب کی یہ آیت نازل ہوگئی، اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤ ْمِنِيْنَ وَالْمُؤ ْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ (35: 33) جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا مستقل ذکر واضح کردیا گیا کہ اطاعت و عبادت اور اس کی وجہ سے حق تعالیٰ کے قرب ورضا اور درجات جنت میں عورتوں کا درجہ مردوں سے کچھ کم نہیں (یہ روایت نسائی مسند احمد، اور تفسیر ابن جریر وغیرہ میں مفصل مذکور ہے)
اور تفسیر ابن کثیر میں ایک روایت یہ ہے کہ بعض مسلمان عورتیں ازاوج مطہرات کے پاس آئیں اور کہا کہ قرآن کریم میں جابجا مردوں کا تو ذکر ہے عورتوں میں سے ازواج مطہرات کا بھی مستقل تذکرہ ہے مگر عام مسلمانوں عورتوں کا ذکر نہیں اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ دنیوی نظام میں عورتوں پر مردوں کا ایک گونہ تفوق اور حاکمیت انکی مصلحت اور حکمت کا تقاضا ہے ورنہ نیک و بدعمل کی جزاء وسزا اور درجات کا آخرت میں کوئی فرق نہیں۔
قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ یہی مضمون اور بھی وضاحت سے اس طرح مذکور ہے۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤ ْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً (97: 16) یعنی جو مرد و عورت نیک عمل کرے اور وہ مومن بھی ہو تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی عطا کریں گے، اس تمہید کے بعد اصل آیت کے الفاظ پر غور کیجئے ارشاد فرمایا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ یعنی ان کے حقوق مردوں کے ذمہ ہیں جیسے کہ ان کے ذمہ مردوں کے حقوق ہیں اس میں عورتوں کے حقوق کا ذکر مردوں کے حقوق سے پہلے کیا جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مرد تو اپنی قوت اور خداداد تفوق کی بناء پر عورت سے اپنے حقوق وصول کر ہی لیتا ہے فکر عورتوں کے حقوق کی ہونی چاہئے کہ وہ عادۃ اپنے حقوق زبردستی وصول نہیں کرسکتیں۔
دوسرا اشارہ اس میں یہ بھی ہے کہ مردوں کو عورت کے حقوق ادا کرنے میں مسابقت کرنا چاہئے اور یہاں جو لفظ مثل کے ساتھ دونوں کے حقوق کی مثلیت اور مساوات کا ارشاد ہے اس کا یہ مطلب تو ہو ہی نہیں سکتا کہ جس طرح کے کام مرد کرے اسی طرح کے عورت بھی یا برعکس کیونکہ مرد و عورت میں تقسیم کار اور ہر ایک کے فرائض فطرۃ جدا جدا ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ دنوں کے حقوق کی ادائیگی یکساں طور پر واجب ہے اور اس میں کوتاہی اور تقصیر کی سزا بھی یکساں ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے ایک مختصر سے جملے میں ایک عظیم الشان دفتر حقوق و فرائض کو کیسا سمویا ہے کیونکہ مفہوم آیت میں عورتوں کے تمام حقوق مردوں پر اور مردوں کے تمام حقوق عورتوں پر داخل اور شامل ہیں (بحر محیط) اس جملے کے آخر میں ایک لفظ بالمعروف اور بڑھا کر آپس میں پیش آنے والے جھگڑوں کا خاتمہ فرما دیا کہ حقوق کی ادائیگی معروف طریقے پر کی جائے کیونکہ معروف کے معنی یہ ہیں کہ جو شرعاً بھی منکر و ناجائز نہ ہو اور عام عادات اور عرف کے لحاظ سے بھی اس میں کوئی تشدد اور زیادتی نہ ہو اس کا حاصل یہ ہوا کہ زوجین کے حقوق اور ان کو اذیت سے بچانے کے معاملہ میں دوسرے کو کوئی ایذاء یا ضرر تو نہیں پہنچتا جو چیزیں عرف و عادت کے اعتبار سے ایذاء اور اضرار کی قرار دی جائیں وہ ممنوع و ناجائز ہوں گی مثلاً بےرخی، بےالتفاتی یا ایسے افعال اور حرکات جن سے دوسرے کو ایذاء پہنچے یہ چیزیں قانونی دفعات میں تو نہیں آسکتیں مگر بالعروفِ کے لفظ نے ان کا احاطہ کرلیا اس کے بعد فرمایا وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ اس کا مشہور مطلب و مفہوم تو یہی ہے کہ حقوق طرفین مساوی ہونے کے باوجود حق تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ کا تفوق اور حاکمیت عطا فرمادی ہے اور اس میں بڑی حکمتیں ہیں جس کی طرف آیت کے الفاظ واللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ میں اشارہ فرما دیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس اس جملے کا مطلب یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے حقوق میں کوئی کوتاہی ہو بھی جائے تو ان کا درجہ یہ ہے کہ یہ اس کو برداشت کریں اور صبر سے کام لیں اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں (قرطبی)
Top