Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 240
وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا١ۖۚ وَّصِیَّةً لِّاَزْوَاجِهِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ١ۚ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُتَوَفَّوْنَ : وفات پاجائیں مِنْكُمْ : تم میں سے وَيَذَرُوْنَ : اور چھوڑ جائیں اَزْوَاجًا : بیویاں وَّصِيَّةً : وصیت لِّاَزْوَاجِهِمْ : اپنی بیویوں کے لیے مَّتَاعًا : نان نفقہ اِلَى : تک الْحَوْلِ : ایک سال غَيْرَ : بغیر اِخْرَاجٍ : نکالے فَاِنْ : پھر اگر خَرَجْنَ : وہ نکل جائیں فَلَا : تو نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْ : میں مَا فَعَلْنَ : جو وہ کریں فِيْٓ : میں اَنْفُسِهِنَّ : اپنے تئیں مِنْ : سے مَّعْرُوْفٍ : دستور وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور جو لوگ تم میں سے مرجاویں اور چھوڑ جاویں اپنی عورتیں تو وہ وصیت کردیں اپنی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ایک برس تک بغیر نکالنے کے گھر سے پھر اگر وہ عورتیں آپ نکل جاویں تو کچھ گناہ نہیں تم پر اس میں کہ کریں وہ عورتیں اپنے حق میں بھلی بات اور اللہ زبردست ہے حکمت والا،
خلاصہ تفسیر
حکم نمبر 35 بیوہ عورت کی سکونت اور متاع کی بعض اقسام کا بیان
وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ (الی قولہ) وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ اور جو لوگ وفات پاجاتے ہیں تم میں سے اور چھوڑ جاتے ہیں بیبیوں کو (ان کے ذمہ لازم ہے کہ) وہ وصیت کرجایا کریں اپنی بیبیوں کے واسطے ایک سال تک (نان ونفقہ اور گھر میں سکونت رکھنے سے) منتفع ہونے کی اس طور پر کہ وہ گھر سے نکالی نہ جاویں ہاں اگر (چار مہینے دس دن کے بعد یا وضع حمل کے بعد عدت گذار کر) خود نکل جاویں تو تم کو کوئی گناہ نہیں، اس قاعدہ کی بات میں جس کو اپنے بارے میں (تجویز) کریں (جیسے نکاح وغیرہ) اور اللہ تعالیٰ زبردست ہیں (ان کے خلاف حکم مت کرو) اور حکمت والے ہیں (کہ تمام احکام میں تمہاری مصلحتیں ملحوظ رکھی ہیں گو تمہاری فہم میں نہ آسکیں) وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ (الیٰ قولہ) لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ اور سب طلاق دی ہوئی عورتوں کے لئے کچھ کچھ فائدہ پہنچانا (کسی درجہ میں مقرر ہے) قاعدہ کے موافق (اور یہ) مقرر ہوا ہے ان پر جو (شرک و کفر سے) پرہیز کرتے ہیں (یعنی مسلمانوں پر خواہ یہ مقرر ہونا وجوب کے درجہ میں ہو یا استحباب کے مرتبہ میں) اسی طرح حق تعالیٰ تمہارے (عمل کرنے کے) لئے اپنے احکام بیان فرماتے ہیں اس توقع پر کہ تم (ان کو) سمجھو (اور عمل کرو)

معارف و مسائل
(1) وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ (الی قولہ) وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ زمانہ جاہلیت میں وفات زوج کی عدت ایک سال تھی اور اسلام میں بجائے ایک سال کے چار مہینے دس دن مقرر ہوئے جیسا کہ ماقبل میں آیت يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا سے معلوم ہوچکا ہے مگر اس میں عورت کی اتنی رعایت رکھی گئی تھی کہ چونکہ اس وقت تک میراث کا حکم نازل نہ ہوا تھا، اور بیوی کا کوئی حصہ میراث میں مقرر نہ ہوا تھا بلکہ اوروں کے حق کا مدار محض مردے کی وصیت پر تھا جیسا کہ آیت كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ (180: 2) کی تفسیر میں معلوم ہوچکا ہے اسلئے یہ حکم ہوگیا تھا کہ اگر عورت اپنی مصلحت سے خاوند کے ترکہ کے گھر میں رہنا چاہے تو سال بھر تک اس کو رہنے کا حق حاصل ہے اور اسی کے ترکہ سے اس مدت میں اس کو نان نفقہ بھی دیا جاوے اس آیت میں اسی کا بیان ہے اور خاوندوں کو حکم ہے کہ اس طرح کی وصیت کرجایا کریں، اور چونکہ یہ حق عورت کا تھا اس کو اس کے وصول کرنے نہ کرنے کا اختیار حاصل تھا اس لئے وارثوں کو تو گھر سے نکالنا جائز نہ تھا لیکن خود اس کو جائز تھا کہ خود اس کے گھر نہ رہے اور اپنا حق ورثہ کو چھوڑدے بشرطیکہ عدت پوری ہوچکے اور نکاح کرنا وغیرہ سب درست تھا اور یہی مراد ہے قاعدہ کی بات سے۔ البتہ عدت کے اندر نکلنا اور نکاح کرنا وغیرہ سب گناہ تھا عورت کے لئے بھی اور جو منع کرسکے اور نہ روکے اس کے لئے بھی پھر جب آیت میراث کی نازل ہوئی گھر بار سب ترکہ میں سے عورت کا حق مل گیا سو اپنے حصہ میں رہے اور اپنے حصہ سے خرچ کرے یہ آیت منسوخ ہوگئی۔
Top