Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلَى
: طرف
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
خَرَجُوْا
: نکلے
مِنْ
: سے
دِيَارِھِمْ
: اپنے گھر (جمع)
وَھُمْ
: اور وہ
اُلُوْفٌ
: ہزاروں
حَذَرَ
: ڈر
الْمَوْتِ
: موت
فَقَالَ
: سو کہا
لَهُمُ
: انہیں
اللّٰهُ
: اللہ
مُوْتُوْا
: تم مرجاؤ
ثُمَّ
: پھر
اَحْيَاھُمْ
: انہیں زندہ کیا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
لَذُوْ فَضْلٍ
: فضل والا
عَلَي النَّاسِ
: لوگوں پر
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اَكْثَرَ
: اکثر
النَّاسِ
: لوگ
لَا يَشْكُرُوْنَ
: شکر ادا نہیں کرتے
کیا نہیں دیکھا تو نے ان لوگوں کو جو کہ نکلے اپنے گھروں سے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے پھر فرمایا ان کو اللہ نے کہ مرجاؤ پھر انکو زندہ کردیا بیشک اللہ فضل کرنے والا ہے لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے،
خلاصہ تفسیر
(اے مخاطب) کیا تجھ کو ان لوگوں کا قصہ تحقیق نہیں ہوا جو کہ اپنے گھروں سے نکل گئے اور وہ لوگ ہزاروں ہی تھے موت سے بچنے کے لئے سو اللہ نے ان کے لئے (حکم) فرمادیا کہ مرجاؤ (سب مرگئے) پھر ان کو جلا دیا بیشک اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والے ہیں لوگوں (کے حال) پر مگر اکثر شکر نہیں کرتے اور (اس واقعہ پر غور کرکے) اللہ کی راہ میں قتال کرو اور یقین رکھو اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں (جہاد کرنے اور نہ کرنیوالوں کی باتیں سنتے اور ہر ایک کی نیت جانتے ہیں اور سب کو مناسب جزادیں گے)
معارف و مسائل
یہ تین آیتیں جو اوپر مذکورہوئی ہیں ان میں ایک عجیب بلیغ انداز میں اللہ تعالیٰ کہ راہ میں جان ومال کی قربانی پیش کرنے کی ہدایت ہے کہ ان احکام کے بیان کرنے سے پہلے تاریخ کا ایک اہم واقعہ ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ موت وحیات تقدیر الہٰی کے تابع ہے جنگ و جہاد میں جانا موت کا سبب نہیں اور بزدلی سے جان چرانا موت سے بچنے کا ذریعہ نہیں، تفسیر ابن کثیر میں سلف صحابہ کرام ؓ اجمعین اور تابعین کے حوالہ سے اس واقعہ کی تشریح یہ بیان کی ہے کہ بنی اسرائیل کی کوئی جماعت ایک شہر میں بستی تھی اور وہاں کوئی وباء طاعون وغیرہ پھیلا، یہ لوگ جو تقریباً دس ہزار کی تعداد میں تھے گھبرا اٹھے اور موت کے خوف سے اس شہر کو چھوڑ کر سب کے سب دو پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع میدان میں جاکر مقیم ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے ان پر اور دنیا کی دوسری قوموں پر یہ واضح کرنے کے لئے موت سے کوئی شخص بھاگ کر جان نہیں چھڑا سکتا دو فرشتے بھیج دیئے جو میدان کے دونوں سروں پر آکھڑے ہوئے اور کوئی ایسی آواز دی جس سے سب کے سب بیک وقت مرے ہوئے رہ گئے ایک بھی زندہ نہ رہا، آس پاس کے لوگوں کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی یہاں پہنچے دس ہزار انسانوں کے کفن دفن کا انتظام آسان نہ تھا اس لئے ان کے گرد ایک احاطہ کھینچ کر حظیرہ جیسا بنادیا ان کی لاشیں حسب دستور گل سڑ گئیں ہڈیاں پڑی رہ گئیں ایک زمانہ دراز کے بعد بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر جن کا نام حزقیل بتلایا گیا ہے اس مقام پر گذرے اس حظیرہ میں جگہ جگہ انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے بکھرے ہوئے دیکھ کر حیرت میں رہ گئے بذریعہ وحی ان کو ان لوگوں کا پورا واقعہ بتلا دیا گیا۔ حضرت حزقیل ؑ نے دعا کہ یا اللہ ان لوگوں کو پھر زندہ فرمادے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاء قبول فرمائی اور انھیں حکم دیا گیا کہ آپ ان شکستہ ہڈیوں کو اس طرح خطاب فرمائیں۔
ایتہا العظام البالیۃ ان اللہ یأمرک ان تجمتعییعنی اے پرانی ہڈیوں اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ہر جوڑ کی ہڈی اپنی جگہ جمع ہوجائے۔
پیغمبر کی زبان سے خدا تعالیٰ کا حکم ان ہڈیوں نے سنا اور حکم کی تعمیل کی جن کو دنیا بےعقل و بےشعور سمجھتی ہے مگر دنیا کے ہر ذرہ ذرہ کی طرح وہ بھی تابع فرمان اور اپنے وجود کے مناسب عقل و ادراک رکھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مطیع ہیں، قرآن کریم نے آیت اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى (50: 20) میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا پھر اس کو اس کے مناسب حال ہدایت فرمائی۔ مولانا رومی نے ایسے ہی امور کے متعلق فرمایا
خاک وباد وآب وآتش بندہ اند
بامن وتو مردہ باحق زندہ اند
بہرحال ایک آواز پر ہر انسان کی ہڈیاں اپنی اپنی جگہ لگ گئیں پھر حکم ہوا کہ اب ان کو یہ آواز دو ،
ایتہا ان اللہ یأمرک ان تکتسی لحماً وعصباً وجلدا، یعنی اے ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنا گوشت پہن لو اور پٹھے اور کھال درست کرلو۔
یہ کہنا تھا کہ ہڈیوں کا ہر ڈھانچہ ان کے دیکھتے دیکھتے ایک مکمل لاش بن گئی پھر حکم ہوا کہ اب ارواح کو یہ خطاب کیا جائے۔
ایتہا الارواح ان اللہ یأمرک ان ترجع کل روح الی الجسد الذین کانت تعمرہیعنی اے ارواح تمہیں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اپنے اپنے بدنوں میں لوٹ آئیں جن کی تعمیر وحیات ان سے وابستہ تھی۔
یہ آواز دیتے ہی ان کے سامنے سارے لاشے زندہ ہو کر کھڑے ہوگئے اور حیرت سے چار طرف دیکھنے لگے سب کی زبانوں پر تھا سبحانک لا الہ الا انت۔
یہ واقعہ ہائلہ دنیا کے فلاسفروں اور عقلاء کے لئے دعوت فکر اور منکرین قیامت پر حجت قاطعہ ہونے کے ساتھ اس ہدایت پر بھی مشتمل ہے کہ موت کے خوف سے بھاگنا خواہ جہاد سے ہو یا کسی وباء وطاعون سے اللہ تعالیٰ اور ان کی تقدیر پر ایمان رکھنے والے کے لئے ممکن نہیں جس کا یہ ایمان ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے نہ اس سے ایک سیکنڈ پہلے آسکتی ہے اور نہ ایک سیکنڈ مؤ خر ہوسکتی ہے اس لئے یہ حرکت فضول بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہونے کی وجہ بھی۔
اب اس واقعہ کو قرآن کے الفاظ سے دیکھئے بیان واقعہ کے لئے قرآن نے فرمایا اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ یعنی کیا آپ نے ان لوگوں کے واقعہ کو نہیں دیکھا جو اپنے گھروں سے بخوف موت نکل کھڑے ہوئے تھے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ واقعہ آنحضرت ﷺ کے زمانے سے ہزاروں برس پہلے کا ہے اس کے دیکھنے کا حضور سے سوال ہی نہیں ہوسکتا تو یہاں اَلَمْ تَرَ فرمانے کا کیا منشاء ہے، مفسرین نے فرمایا ہے کہ ایسے تمام مواقع میں جہاں آنحضرت ﷺ کو لفظ اَلَمْ تَرَ کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے حالانکہ واقعہ آپ کے زمانے سے پہلے کا ہے جس کے دیکھنے کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ان سب مواقع میں رویت سے رویت قلبی مراد ہوتی ہے جس کے معنی ہیں علم و ادراک یعنی اَلَمْ تَرَ ایسے مواقع میں اَلَمْ تَرَ کے معنی میں ہوتا ہے لیکن اس کو لفظ اَلَمْ تَرَ سے تعبیر کرنے میں حکمت اس واقعہ کے مشہور ومشہود ہونے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ واقعہ ایسا یقینی ہے جیسے کوئی آج دیکھ رہا ہو اور دیکھنے کے قابل ہو اَلَمْ تَرَ کے بعد حرف الیٰ بڑھانے سے ازروئے زبان اس کی طرف اشارہ بھی ہوتا ہے۔
اس کے بعد قرآن میں ان کی ایک بڑی تعداد ہونے کا بیان فرمایا گیا وَھُمْ اُلُوْفٌ یعنی وہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے اس تعداد کی تعیین میں روایات مختلفہ ہیں لیکن عربی زبان کے قاعدہ سے یہ لفظ جمع کثرت ہے جس کا اطلاق دس سے کم پر نہیں ہوتا اس سے معلوم ہوا کہ ان کی تعداد دس ہزار سے کم نہ تھی۔
اس کے بعد ارشاد ہے فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا یعنی کہہ دیا ان کو اللہ تعالیٰ نے کہ مرجاؤ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بلاواسطہ بھی ہوسکتا ہے اور بواسطہ کسی فرشتے کے بھی جیسے دوسری آیت میں ارشاد ہے اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ (82: 36)
اس کے بعد فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاس یعنی اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والے ہیں لوگوں پر اس میں وہ فضل بھی داخل ہے جو بنی اسرائیل کی اس قوم کو دوبارہ زندہ کرکے فرمایا اور یہ فضل بھی شامل ہے جو یہ واقعہ امت محمدیہ کو بتلا کر ان کے لئے درس عبرت بنایا۔
آخر میں غفلت شعار انسان کو بیدار کرنے کے لئے فرمایا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ہزاروں مظاہر انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں مگر اس کے باوجود اکثر انسان شکر گذار نہیں ہوتے۔
مسائل متعلقہ
اس آیت سے چند مسائل اور احکام مستفاد ہوئے
تدبیر پر تقدیر غالب ہے
اول یہ کہ تقدیر الہٰی کے مقابلے میں کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی اور جہاد سے یا طاعون وغیرہ سے بھاگنا جان بچانے کا ذریعہ نہیں ہوسکتا اور نہ ان میں قائم رہنا موت کا باعث ہوتا ہے بلکہ موت کا ایک وقت معین ہے نہ اس میں کمی ہوسکتی ہے نہ زیادتی۔
جس بستی میں کوئی وباء طوعون وغیرہ ہو اس میں جانا یا وہاں سے بھاگ کر کہیں اور جانا دونوں ناجائز ہیں
دوسرا مسئلہیہ ہے کہ جس شہر میں کوئی وبائی مرض طاعون پھیل جائے وہاں سے بھاگ کر دوسری جگہ جانا جائز نہیں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد میں اس پر اتنا اضافہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو وہاں جانا بھی درست نہیں حدیث میں ہے۔
ان ھذا السقم عذب بہ الامم قبلکم فاذا سمعتم بہ فی الارض فلا تدخلوہا واذا وقع بارض وانتم بہا فلا تخرجوا فراراً (بخاری ومسلم، ابن کثیر) یعنی اس بیماری (طاعون) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی قوموں پر عذاب نازل فرمایا ہے سو جب تم یہ سنو کہ کسی شہر میں طاعون وغیرہ وبائی مرض پھیل رہا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر کسی بستی میں یہ مرض پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ نکلو۔
تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ ملک شام کے قصد سے سفر کیا سرحد شام پر تبوک کے قریب ایک مقام سَرَغ ہے وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ملک شام میں سخت طاعون ملک شام کی تاریخ میں ایک عظیم سانحہ تھا یہ طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اول یہ طاعون ایک بستی عمواس نامی میں شروع ہوا جو بیت المقدس کے قریب ہے پھر سارے ملک میں پھیل گیا ہزارہا انسان جن میں بہت سے صحابہ وتابعین بھی تھے اس طاعون میں شہید ہوئے۔
فاروق اعظم نے طاعون کی شدت کی خبر سنی تو اسی مقام پر ٹھہر کر صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ ہمیں ملک شام میں اس وقت جانا چاہیے یا واپس ہونا مناسب ہے اس وقت جتنے حضرات مشورہ میں شریک تھے ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی حکم نہ سنا ہو بعد میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے اطلاع دی کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد اس معاملے کے متعلق یہ ہے
ان رسول اللہ ﷺ ذکر الوجع فقال رجز وعذابٌ عُذِبَ بہ الامم ثم بقی منہ بقیۃ فیذھب المرۃ ویأتی الاخرٰی فمن سمع بہ بارض فلا یقد من علیہ ومن کان بارض وقع بہا فلا یخرج فراراً منہ رواہ البخاری عن اسامۃ بن زید واخرجہ الائمۃ بمثلہ۔ رسول اللہ ﷺ نے (طاعونی گلٹی کے) درد کا ذکر کیا تو فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس سے بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا پھر اس کا کچھ بقیہ رہ گیا اب اس کا یہ حال ہے کہ کبھی چلا جاتا ہے اور پھر آجاتا ہے تو جو شخص یہ سنے کہ فلاں خطہ زمین میں یہ عذاب آیا ہوا ہے تو اس کو چاہئے کہ اس خطہ زمین میں نہ جائے اور جو شخص اس خطہ میں پہلے سے موجود ہے تو طاعون سے بھاگنے کے لئے وہاں سے نہ نکلے (بخاری وغیرہ)
حضرت فاروق اعظم نے جب یہ حدیث سنی تو رفقاء کو واپسی کا حکم دے دیا حضرت ابوعبیدہ ملک شام کے عامل و امیر (گورنر) بھی اس مجلس میں موجود تھے، فاروق اعظم کا یہ حکم سن کر فرمانے لگےافراراً من قدر اللہ یعنی کیا آپ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگنا چاہتے ہیں ؟ فاروق اعظم نے جواب میں فرمایا ا بوعبیدہ کاش یہ بات کوئی اور کہتا یعنی تمہاری زبان سے ایسی بات قابل تعجب ہے اور پھر فرمایا
نعم نفر من قدر اللہ الی قدر اللہ، بیشک ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے حکم کے مطابق کر رہے ہیں جس کو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے۔
دربارہ طاعون ارشاد نبوی کی حکمتیں
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مذکور سے معلوم ہوا کہ جس شہر یا بستی میں طاعون وغیرہ امراض وبائی پھیلے ہوئے ہوں باہر والوں کو وہاں جانا ممنوع ہے اور وہاں کے رہنے والوں کو اس جگہ سے بخوف موت بھاگنا ممنوع ہے۔
اور اس کے ساتھ اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ نہ کسی جگہ جانا موت کا سبب ہے نہ کہیں سے بھاگنا نجات کا سبب، اس اہم عقیدہ کے ہوتے ہوئے حکم مذکور بڑی دور رس حکمتوں پر مبنی ہے باہر والوں کو وہاں جانے سے روکنے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ ممکن ہے وہاں پہنچ کر کسی کی عمر ختم ہوچکی ہو اور اس مرض میں مبتلا ہو کر انتقال ہوگیا تو مرنے والے کو کبھی یہ گمان ہوگا کہ اگر میں یہاں نہ آتا تو زندہ رہتا اور دوسروں کو بھی یہی خیال ہوگا کہ یہاں آنے سے اس کی موت واقع ہوئی حالانکہ جو کچھ ہوا وہ پہلے سے لکھا ہوا تھا اس کی عمر اتنی ہی تھی کہیں بھی رہتا اس وقت اس کی موت لازمی تھی اس حکم میں مسلمانوں کے عقیدہ کو تذبذب سے بچایا گیا کہ وہ غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
دوسری حکمتیہ بھی ہے کہ حق تعالیٰ نے انسان کو یہ ہدایت دی ہے کہ جس جگہ تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہو یا جہاں ہلاکت کا اندیشہ ہو وہاں نہ جائے بلکہ مقدور بھر ایسی چیزوں سے بچنے کی فکر کرے جو اس کے لئے مضر یا ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں اور اپنی جان کی حفاظت ہر انسان کے ذمے پر واجب قرار دی ہے اس قاعدہ کا مقتضی بھی یہی ہے کہ تقدیر الہی پر ایمان کامل رکھتے ہوئے احتیاطی تدبیروں میں کمی نہ کرے اور ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ ایسی جگہ نہ جائے جہاں جان کا خطرہ ہو۔
اسی طرح اس بستی کے رہنے والوں کو بخوف موت وہاں سے بھاگنے کی ممانعت میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں۔
ایک حکمت تو اجتماعی اور عوامی ہے کہ اگر یہ بھاگنے کا سلسلہ چلا تو امیر اور پیسے والے اور قدرت و طاقت والے آدمی تو بھاگ جائیں گے مگر بستی میں ایسے ضعفاء مرد و عورت کا بھی عادۃ ہونا لازمی ہے جو کہیں جانے پر قدرت نہیں رکھتے ان کا حشر کیا ہوگا، اول تو وہ تنہا رہ کر ہیبت ہی سے مرنے لگیں گے پھر ان میں جو بیمار ہیں ان کی خبرگیری کون کرے گا مرجائیں گے تو دفن کفن کا انتظام کیسے ہوگا۔
دوسری حکمت یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ موجود ہیں بعید نہیں کہ ان میں اس مرض کے جراثیم اثر کرچکے ہوں ایسی حالت میں وہ سفر کریں گے تو اور زیادہ مصیبتوں اور مشقتوں کے شکار ہوں گے، سفر کی حالت میں بیمار ہوئے تو ظاہر ہے کہ ان پر کیا گذرے گی، ابن المدینی نے علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مافر احد من الوباء فسلم (قرطبی) یعنی جو شخص وباء سے بھاگتا ہے وہ کبھی سالم نہیں رہتا۔
تیسری حکمت یہ بھی ہے کہ اگر ان میں مرض کے جراثیم سرایت کرچکے ہیں تو یہ مختلف بستیوں میں پہنچیں گے تو وہاں جراثیم پھیلیں گے اور اگر اپنی جگہ صبر و توکل کے ساتھ ٹھہرے رہے تو بہت ممکن ہے کہ مرض سے نجات حاصل ہوجائے اور بالفرض اسی مرض میں موت مقدر تھی تو ان کو اپنے صبر وثبات کی وجہ سے درجہ شہادت کا ملے گا جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے
روی البخاری عن یحییٰ بن یعمر عن عائشۃ انھا اخبرتہ انھا سألت رسول اللہ ﷺ عن الطاعون فاخبرہا النبی ﷺ انہ کان عذاباً یبعثہ اللہ علی من یشاء فجعلہ اللہ رحمۃ للمؤ منین فلیس من عبد یقع الطاعون فیمکث فی بلدہ صابراً یعلم انہ لن یصیبہ الا ماکتب اللہ لہ الا کان لہ مثل اجر شہید وھذا تفسیر لقولہ ﷺ الطاعون شہادۃ والمطعون شہید (قرطبی ص 235 ج 3)
امام بخاری نے یحییٰ بن یعمر کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے ان کو خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق سوال کیا تھا، تو آپ نے ان کو بتلایا کہ یہ بیماری اصل میں عذاب کی حیثیت سے نازل ہوئی تھی اور جس قوم کو عذاب دینا منظور ہوتا تھا اس پر بھیج دی جاتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو مؤمنین کے لئے رحمت بنادیا تو جو اللہ کا بندہ طاعون پھیلنے کے بعد اپنی بستی میں صبر و سکون کے ساتھ ٹھرا رہے اور یہ اعتقاد رکھے کہ اس کو صرف وہی مصیبت پہنچ سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دی ہے تو ایسے شخص کو شہید کے برابر ثواب ملے گا۔
اور یہی تشریح ہے اس حدیث کی جس میں ارشاد ہے کہ طاعون زدہ شخص شہید ہے۔
بعض خاص صورتوں کا استثناء
حدیث کے الفاظ میں فلا تخرجوا فرارا منہ آیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص موت سے فرار کے لئے نہیں بلکہ اپنی کسی دوسری ضرورت سے دوسری جگہ چلا جائے تو وہ اس ممانعت میں داخل نہیں اسی طرح اگر کسی کا عقیدہ اپنی جگہ پختہ ہو کہ یہاں سے دوسری جگہ چلا جانا مجھے موت سے نجات نہیں دے سکتا اگر میرا وقت آگیا ہے تو جہاں جاؤں گا موت لازمی ہے اور وقت نہیں آیا تو یہاں رہنے سے بھی موت نہیں آئے گی یہ عقیدہ پختہ رکھتے ہوئے محض آب وہوا کی تبدیلی کے لئے یہاں سے چلا جائے تو وہ بھی ممانعت سے مستثنے ہے۔
اسی طرح کوئی آدمی کسی ضرورت سے اس جگہ میں داخل ہو جہاں وباء پھیلی ہوئی ہے اور عقیدہ اس کا پختہ ہو کہ یہاں آنے سے موت نہیں آئے گی وہ اللہ کی مشیت کے تابع ہے تو ایسی حالت میں اس کے لئے وہاں جانا بھی جائز ہوگا۔
تیسرا مسئلہاس آیت سے یہ مستفاد ہوا کہ بخوف موت جہاد سے بھاگنا بھی حرام ہے، قرآن کریم میں یہ مسئلہ دوسری جگہ زیادہ تفصیل اور وضاحت سے آیا ہے جس میں بعض خاص صورتوں کو مستثنے ٰ بھی فرمایا گیا ہے، جو مضمون اس آیت کا ہے تقریباً یہی مضمون دوسری آیت میں جہاد سے بھاگنے والوں یا اس میں شامل نہ ہونے والوں کے بارے میں آیا ہے ارشاد یہ ہے
اَلَّذِيْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْ آ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (168: 3) یعنی کچھ لوگ خود بھی جہاد میں شریک نہ ہوئے اور جہاد میں شریک ہو کر شہید ہوجانے والوں کے متعلق لوگوں سے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ہماری بات نہ سنی اس لئے مارے گئے اگر یہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے (آنحضرت ﷺ کو حکم ہوا کہ) آپ ان سے فرما دیں کہ اگر موت سے بچنا تمہارے اختیار میں ہے تو اوروں کی کیا فکر کرتے ہو تم خود اپنی فکر کرو اور اپنے آپ کو موت سے بچالو یعنی جہاد میں جانے پر موقوف نہیں تمہیں گھر بیٹھے ہوئے بھی آخر موت آئے گی،
عجائب قدرت سے ہے کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین کے سب سے بڑے جنگی جرنیل سیف اللہ حضرت خالد بن ولید جن کی اسلامی عمر ساری جہاد ہی میں گذری ہے وہ کسی جہاد میں شہید نہیں ہوئے بیمار ہو کر گھر میں وفات پائی وفات کے قریب اپنے بستر پر مرنے کا افسوس کرتے ہوئے گھر والوں کو خطاب کرکے فرمایا کہ میں فلاں فلاں عظیم الشان جنگوں اور جہادوں میں شریک ہوا اور میرا کوئی عضو ایسا نہیں جس میں تیر یا نیزے یا چوٹ کے زخم کا اثر ونشان نہ ہو مگر افسوس ہے کہ میں اب گدھے کی طرح بستر پر مر رہا ہوں خدا تعالیٰ بزدلوں کو آرام نہ دے ان کو میری نصیحت پہنچاؤ، اس آیت میں بنی اسرائیل کا یہ واقعہ بطور تمہید لایا گیا تھا اگلی آیت میں جہاد و قتال کا حکم دیا گیا جو اس قصہ کے ذکر کرنے سے اصل مقصود تھا کہ جہاد میں جانے کو موت یا بھاگنے کو نجات نہ سمجھو بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرکے فلاح دارین حاصل کرو اللہ تعالیٰ تمہاری سب باتیں سننے والے اور جاننے والے ہیں۔
تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت کا ذکر ہے۔
Top