Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِھِمْ : اپنے گھر (جمع) وَھُمْ : اور وہ اُلُوْفٌ : ہزاروں حَذَرَ : ڈر الْمَوْتِ : موت فَقَالَ : سو کہا لَهُمُ : انہیں اللّٰهُ : اللہ مُوْتُوْا : تم مرجاؤ ثُمَّ : پھر اَحْيَاھُمْ : انہیں زندہ کیا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر ادا نہیں کرتے
کیا نہیں دیکھا تو نے ان لوگوں کو جو کہ نکلے اپنے گھروں سے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے پھر فرمایا ان کو اللہ نے کہ مرجاؤ پھر انکو زندہ کردیا بیشک اللہ فضل کرنے والا ہے لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے،
خلاصہ تفسیر
(اے مخاطب) کیا تجھ کو ان لوگوں کا قصہ تحقیق نہیں ہوا جو کہ اپنے گھروں سے نکل گئے اور وہ لوگ ہزاروں ہی تھے موت سے بچنے کے لئے سو اللہ نے ان کے لئے (حکم) فرمادیا کہ مرجاؤ (سب مرگئے) پھر ان کو جلا دیا بیشک اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والے ہیں لوگوں (کے حال) پر مگر اکثر شکر نہیں کرتے اور (اس واقعہ پر غور کرکے) اللہ کی راہ میں قتال کرو اور یقین رکھو اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں (جہاد کرنے اور نہ کرنیوالوں کی باتیں سنتے اور ہر ایک کی نیت جانتے ہیں اور سب کو مناسب جزادیں گے)

معارف و مسائل
یہ تین آیتیں جو اوپر مذکورہوئی ہیں ان میں ایک عجیب بلیغ انداز میں اللہ تعالیٰ کہ راہ میں جان ومال کی قربانی پیش کرنے کی ہدایت ہے کہ ان احکام کے بیان کرنے سے پہلے تاریخ کا ایک اہم واقعہ ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ موت وحیات تقدیر الہٰی کے تابع ہے جنگ و جہاد میں جانا موت کا سبب نہیں اور بزدلی سے جان چرانا موت سے بچنے کا ذریعہ نہیں، تفسیر ابن کثیر میں سلف صحابہ کرام ؓ اجمعین اور تابعین کے حوالہ سے اس واقعہ کی تشریح یہ بیان کی ہے کہ بنی اسرائیل کی کوئی جماعت ایک شہر میں بستی تھی اور وہاں کوئی وباء طاعون وغیرہ پھیلا، یہ لوگ جو تقریباً دس ہزار کی تعداد میں تھے گھبرا اٹھے اور موت کے خوف سے اس شہر کو چھوڑ کر سب کے سب دو پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع میدان میں جاکر مقیم ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے ان پر اور دنیا کی دوسری قوموں پر یہ واضح کرنے کے لئے موت سے کوئی شخص بھاگ کر جان نہیں چھڑا سکتا دو فرشتے بھیج دیئے جو میدان کے دونوں سروں پر آکھڑے ہوئے اور کوئی ایسی آواز دی جس سے سب کے سب بیک وقت مرے ہوئے رہ گئے ایک بھی زندہ نہ رہا، آس پاس کے لوگوں کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی یہاں پہنچے دس ہزار انسانوں کے کفن دفن کا انتظام آسان نہ تھا اس لئے ان کے گرد ایک احاطہ کھینچ کر حظیرہ جیسا بنادیا ان کی لاشیں حسب دستور گل سڑ گئیں ہڈیاں پڑی رہ گئیں ایک زمانہ دراز کے بعد بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر جن کا نام حزقیل بتلایا گیا ہے اس مقام پر گذرے اس حظیرہ میں جگہ جگہ انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے بکھرے ہوئے دیکھ کر حیرت میں رہ گئے بذریعہ وحی ان کو ان لوگوں کا پورا واقعہ بتلا دیا گیا۔ حضرت حزقیل ؑ نے دعا کہ یا اللہ ان لوگوں کو پھر زندہ فرمادے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاء قبول فرمائی اور انھیں حکم دیا گیا کہ آپ ان شکستہ ہڈیوں کو اس طرح خطاب فرمائیں۔
ایتہا العظام البالیۃ ان اللہ یأمرک ان تجمتعییعنی اے پرانی ہڈیوں اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ہر جوڑ کی ہڈی اپنی جگہ جمع ہوجائے۔
پیغمبر کی زبان سے خدا تعالیٰ کا حکم ان ہڈیوں نے سنا اور حکم کی تعمیل کی جن کو دنیا بےعقل و بےشعور سمجھتی ہے مگر دنیا کے ہر ذرہ ذرہ کی طرح وہ بھی تابع فرمان اور اپنے وجود کے مناسب عقل و ادراک رکھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مطیع ہیں، قرآن کریم نے آیت اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى (50: 20) میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا پھر اس کو اس کے مناسب حال ہدایت فرمائی۔ مولانا رومی نے ایسے ہی امور کے متعلق فرمایا
خاک وباد وآب وآتش بندہ اند
بامن وتو مردہ باحق زندہ اند
بہرحال ایک آواز پر ہر انسان کی ہڈیاں اپنی اپنی جگہ لگ گئیں پھر حکم ہوا کہ اب ان کو یہ آواز دو ،
ایتہا ان اللہ یأمرک ان تکتسی لحماً وعصباً وجلدا، یعنی اے ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنا گوشت پہن لو اور پٹھے اور کھال درست کرلو۔
یہ کہنا تھا کہ ہڈیوں کا ہر ڈھانچہ ان کے دیکھتے دیکھتے ایک مکمل لاش بن گئی پھر حکم ہوا کہ اب ارواح کو یہ خطاب کیا جائے۔
ایتہا الارواح ان اللہ یأمرک ان ترجع کل روح الی الجسد الذین کانت تعمرہیعنی اے ارواح تمہیں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ اپنے اپنے بدنوں میں لوٹ آئیں جن کی تعمیر وحیات ان سے وابستہ تھی۔
یہ آواز دیتے ہی ان کے سامنے سارے لاشے زندہ ہو کر کھڑے ہوگئے اور حیرت سے چار طرف دیکھنے لگے سب کی زبانوں پر تھا سبحانک لا الہ الا انت۔
یہ واقعہ ہائلہ دنیا کے فلاسفروں اور عقلاء کے لئے دعوت فکر اور منکرین قیامت پر حجت قاطعہ ہونے کے ساتھ اس ہدایت پر بھی مشتمل ہے کہ موت کے خوف سے بھاگنا خواہ جہاد سے ہو یا کسی وباء وطاعون سے اللہ تعالیٰ اور ان کی تقدیر پر ایمان رکھنے والے کے لئے ممکن نہیں جس کا یہ ایمان ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے نہ اس سے ایک سیکنڈ پہلے آسکتی ہے اور نہ ایک سیکنڈ مؤ خر ہوسکتی ہے اس لئے یہ حرکت فضول بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہونے کی وجہ بھی۔
اب اس واقعہ کو قرآن کے الفاظ سے دیکھئے بیان واقعہ کے لئے قرآن نے فرمایا اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ یعنی کیا آپ نے ان لوگوں کے واقعہ کو نہیں دیکھا جو اپنے گھروں سے بخوف موت نکل کھڑے ہوئے تھے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ واقعہ آنحضرت ﷺ کے زمانے سے ہزاروں برس پہلے کا ہے اس کے دیکھنے کا حضور سے سوال ہی نہیں ہوسکتا تو یہاں اَلَمْ تَرَ فرمانے کا کیا منشاء ہے، مفسرین نے فرمایا ہے کہ ایسے تمام مواقع میں جہاں آنحضرت ﷺ کو لفظ اَلَمْ تَرَ کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے حالانکہ واقعہ آپ کے زمانے سے پہلے کا ہے جس کے دیکھنے کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا ان سب مواقع میں رویت سے رویت قلبی مراد ہوتی ہے جس کے معنی ہیں علم و ادراک یعنی اَلَمْ تَرَ ایسے مواقع میں اَلَمْ تَرَ کے معنی میں ہوتا ہے لیکن اس کو لفظ اَلَمْ تَرَ سے تعبیر کرنے میں حکمت اس واقعہ کے مشہور ومشہود ہونے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ یہ واقعہ ایسا یقینی ہے جیسے کوئی آج دیکھ رہا ہو اور دیکھنے کے قابل ہو اَلَمْ تَرَ کے بعد حرف الیٰ بڑھانے سے ازروئے زبان اس کی طرف اشارہ بھی ہوتا ہے۔
اس کے بعد قرآن میں ان کی ایک بڑی تعداد ہونے کا بیان فرمایا گیا وَھُمْ اُلُوْفٌ یعنی وہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے اس تعداد کی تعیین میں روایات مختلفہ ہیں لیکن عربی زبان کے قاعدہ سے یہ لفظ جمع کثرت ہے جس کا اطلاق دس سے کم پر نہیں ہوتا اس سے معلوم ہوا کہ ان کی تعداد دس ہزار سے کم نہ تھی۔
اس کے بعد ارشاد ہے فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا یعنی کہہ دیا ان کو اللہ تعالیٰ نے کہ مرجاؤ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بلاواسطہ بھی ہوسکتا ہے اور بواسطہ کسی فرشتے کے بھی جیسے دوسری آیت میں ارشاد ہے اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ (82: 36)
اس کے بعد فرمایا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاس یعنی اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنے والے ہیں لوگوں پر اس میں وہ فضل بھی داخل ہے جو بنی اسرائیل کی اس قوم کو دوبارہ زندہ کرکے فرمایا اور یہ فضل بھی شامل ہے جو یہ واقعہ امت محمدیہ کو بتلا کر ان کے لئے درس عبرت بنایا۔
آخر میں غفلت شعار انسان کو بیدار کرنے کے لئے فرمایا وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ یعنی اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ہزاروں مظاہر انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں مگر اس کے باوجود اکثر انسان شکر گذار نہیں ہوتے۔
مسائل متعلقہ
اس آیت سے چند مسائل اور احکام مستفاد ہوئے
تدبیر پر تقدیر غالب ہے
اول یہ کہ تقدیر الہٰی کے مقابلے میں کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی اور جہاد سے یا طاعون وغیرہ سے بھاگنا جان بچانے کا ذریعہ نہیں ہوسکتا اور نہ ان میں قائم رہنا موت کا باعث ہوتا ہے بلکہ موت کا ایک وقت معین ہے نہ اس میں کمی ہوسکتی ہے نہ زیادتی۔
جس بستی میں کوئی وباء طوعون وغیرہ ہو اس میں جانا یا وہاں سے بھاگ کر کہیں اور جانا دونوں ناجائز ہیں
دوسرا مسئلہیہ ہے کہ جس شہر میں کوئی وبائی مرض طاعون پھیل جائے وہاں سے بھاگ کر دوسری جگہ جانا جائز نہیں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد میں اس پر اتنا اضافہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو وہاں جانا بھی درست نہیں حدیث میں ہے۔
ان ھذا السقم عذب بہ الامم قبلکم فاذا سمعتم بہ فی الارض فلا تدخلوہا واذا وقع بارض وانتم بہا فلا تخرجوا فراراً (بخاری ومسلم، ابن کثیر) یعنی اس بیماری (طاعون) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی قوموں پر عذاب نازل فرمایا ہے سو جب تم یہ سنو کہ کسی شہر میں طاعون وغیرہ وبائی مرض پھیل رہا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر کسی بستی میں یہ مرض پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو وہاں سے بھاگ کر نہ نکلو۔
تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے ایک مرتبہ ملک شام کے قصد سے سفر کیا سرحد شام پر تبوک کے قریب ایک مقام سَرَغ ہے وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ملک شام میں سخت طاعون ملک شام کی تاریخ میں ایک عظیم سانحہ تھا یہ طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے کیونکہ اول یہ طاعون ایک بستی عمواس نامی میں شروع ہوا جو بیت المقدس کے قریب ہے پھر سارے ملک میں پھیل گیا ہزارہا انسان جن میں بہت سے صحابہ وتابعین بھی تھے اس طاعون میں شہید ہوئے۔
فاروق اعظم نے طاعون کی شدت کی خبر سنی تو اسی مقام پر ٹھہر کر صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ ہمیں ملک شام میں اس وقت جانا چاہیے یا واپس ہونا مناسب ہے اس وقت جتنے حضرات مشورہ میں شریک تھے ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی حکم نہ سنا ہو بعد میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نے اطلاع دی کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد اس معاملے کے متعلق یہ ہے
ان رسول اللہ ﷺ ذکر الوجع فقال رجز وعذابٌ عُذِبَ بہ الامم ثم بقی منہ بقیۃ فیذھب المرۃ ویأتی الاخرٰی فمن سمع بہ بارض فلا یقد من علیہ ومن کان بارض وقع بہا فلا یخرج فراراً منہ رواہ البخاری عن اسامۃ بن زید واخرجہ الائمۃ بمثلہ۔ رسول اللہ ﷺ نے (طاعونی گلٹی کے) درد کا ذکر کیا تو فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جس سے بعض امتوں کو عذاب دیا گیا تھا پھر اس کا کچھ بقیہ رہ گیا اب اس کا یہ حال ہے کہ کبھی چلا جاتا ہے اور پھر آجاتا ہے تو جو شخص یہ سنے کہ فلاں خطہ زمین میں یہ عذاب آیا ہوا ہے تو اس کو چاہئے کہ اس خطہ زمین میں نہ جائے اور جو شخص اس خطہ میں پہلے سے موجود ہے تو طاعون سے بھاگنے کے لئے وہاں سے نہ نکلے (بخاری وغیرہ)
حضرت فاروق اعظم نے جب یہ حدیث سنی تو رفقاء کو واپسی کا حکم دے دیا حضرت ابوعبیدہ ملک شام کے عامل و امیر (گورنر) بھی اس مجلس میں موجود تھے، فاروق اعظم کا یہ حکم سن کر فرمانے لگےافراراً من قدر اللہ یعنی کیا آپ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگنا چاہتے ہیں ؟ فاروق اعظم نے جواب میں فرمایا ا بوعبیدہ کاش یہ بات کوئی اور کہتا یعنی تمہاری زبان سے ایسی بات قابل تعجب ہے اور پھر فرمایا
نعم نفر من قدر اللہ الی قدر اللہ، بیشک ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے حکم کے مطابق کر رہے ہیں جس کو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے۔
دربارہ طاعون ارشاد نبوی کی حکمتیں
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مذکور سے معلوم ہوا کہ جس شہر یا بستی میں طاعون وغیرہ امراض وبائی پھیلے ہوئے ہوں باہر والوں کو وہاں جانا ممنوع ہے اور وہاں کے رہنے والوں کو اس جگہ سے بخوف موت بھاگنا ممنوع ہے۔
اور اس کے ساتھ اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ نہ کسی جگہ جانا موت کا سبب ہے نہ کہیں سے بھاگنا نجات کا سبب، اس اہم عقیدہ کے ہوتے ہوئے حکم مذکور بڑی دور رس حکمتوں پر مبنی ہے باہر والوں کو وہاں جانے سے روکنے کی ایک حکمت تو یہ ہے کہ ممکن ہے وہاں پہنچ کر کسی کی عمر ختم ہوچکی ہو اور اس مرض میں مبتلا ہو کر انتقال ہوگیا تو مرنے والے کو کبھی یہ گمان ہوگا کہ اگر میں یہاں نہ آتا تو زندہ رہتا اور دوسروں کو بھی یہی خیال ہوگا کہ یہاں آنے سے اس کی موت واقع ہوئی حالانکہ جو کچھ ہوا وہ پہلے سے لکھا ہوا تھا اس کی عمر اتنی ہی تھی کہیں بھی رہتا اس وقت اس کی موت لازمی تھی اس حکم میں مسلمانوں کے عقیدہ کو تذبذب سے بچایا گیا کہ وہ غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
دوسری حکمتیہ بھی ہے کہ حق تعالیٰ نے انسان کو یہ ہدایت دی ہے کہ جس جگہ تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہو یا جہاں ہلاکت کا اندیشہ ہو وہاں نہ جائے بلکہ مقدور بھر ایسی چیزوں سے بچنے کی فکر کرے جو اس کے لئے مضر یا ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں اور اپنی جان کی حفاظت ہر انسان کے ذمے پر واجب قرار دی ہے اس قاعدہ کا مقتضی بھی یہی ہے کہ تقدیر الہی پر ایمان کامل رکھتے ہوئے احتیاطی تدبیروں میں کمی نہ کرے اور ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ ایسی جگہ نہ جائے جہاں جان کا خطرہ ہو۔
اسی طرح اس بستی کے رہنے والوں کو بخوف موت وہاں سے بھاگنے کی ممانعت میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں۔
ایک حکمت تو اجتماعی اور عوامی ہے کہ اگر یہ بھاگنے کا سلسلہ چلا تو امیر اور پیسے والے اور قدرت و طاقت والے آدمی تو بھاگ جائیں گے مگر بستی میں ایسے ضعفاء مرد و عورت کا بھی عادۃ ہونا لازمی ہے جو کہیں جانے پر قدرت نہیں رکھتے ان کا حشر کیا ہوگا، اول تو وہ تنہا رہ کر ہیبت ہی سے مرنے لگیں گے پھر ان میں جو بیمار ہیں ان کی خبرگیری کون کرے گا مرجائیں گے تو دفن کفن کا انتظام کیسے ہوگا۔
دوسری حکمت یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ موجود ہیں بعید نہیں کہ ان میں اس مرض کے جراثیم اثر کرچکے ہوں ایسی حالت میں وہ سفر کریں گے تو اور زیادہ مصیبتوں اور مشقتوں کے شکار ہوں گے، سفر کی حالت میں بیمار ہوئے تو ظاہر ہے کہ ان پر کیا گذرے گی، ابن المدینی نے علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مافر احد من الوباء فسلم (قرطبی) یعنی جو شخص وباء سے بھاگتا ہے وہ کبھی سالم نہیں رہتا۔
تیسری حکمت یہ بھی ہے کہ اگر ان میں مرض کے جراثیم سرایت کرچکے ہیں تو یہ مختلف بستیوں میں پہنچیں گے تو وہاں جراثیم پھیلیں گے اور اگر اپنی جگہ صبر و توکل کے ساتھ ٹھہرے رہے تو بہت ممکن ہے کہ مرض سے نجات حاصل ہوجائے اور بالفرض اسی مرض میں موت مقدر تھی تو ان کو اپنے صبر وثبات کی وجہ سے درجہ شہادت کا ملے گا جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے
روی البخاری عن یحییٰ بن یعمر عن عائشۃ انھا اخبرتہ انھا سألت رسول اللہ ﷺ عن الطاعون فاخبرہا النبی ﷺ انہ کان عذاباً یبعثہ اللہ علی من یشاء فجعلہ اللہ رحمۃ للمؤ منین فلیس من عبد یقع الطاعون فیمکث فی بلدہ صابراً یعلم انہ لن یصیبہ الا ماکتب اللہ لہ الا کان لہ مثل اجر شہید وھذا تفسیر لقولہ ﷺ الطاعون شہادۃ والمطعون شہید (قرطبی ص 235 ج 3)
امام بخاری نے یحییٰ بن یعمر کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے ان کو خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق سوال کیا تھا، تو آپ نے ان کو بتلایا کہ یہ بیماری اصل میں عذاب کی حیثیت سے نازل ہوئی تھی اور جس قوم کو عذاب دینا منظور ہوتا تھا اس پر بھیج دی جاتی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو مؤمنین کے لئے رحمت بنادیا تو جو اللہ کا بندہ طاعون پھیلنے کے بعد اپنی بستی میں صبر و سکون کے ساتھ ٹھرا رہے اور یہ اعتقاد رکھے کہ اس کو صرف وہی مصیبت پہنچ سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دی ہے تو ایسے شخص کو شہید کے برابر ثواب ملے گا۔
اور یہی تشریح ہے اس حدیث کی جس میں ارشاد ہے کہ طاعون زدہ شخص شہید ہے۔
بعض خاص صورتوں کا استثناء
حدیث کے الفاظ میں فلا تخرجوا فرارا منہ آیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص موت سے فرار کے لئے نہیں بلکہ اپنی کسی دوسری ضرورت سے دوسری جگہ چلا جائے تو وہ اس ممانعت میں داخل نہیں اسی طرح اگر کسی کا عقیدہ اپنی جگہ پختہ ہو کہ یہاں سے دوسری جگہ چلا جانا مجھے موت سے نجات نہیں دے سکتا اگر میرا وقت آگیا ہے تو جہاں جاؤں گا موت لازمی ہے اور وقت نہیں آیا تو یہاں رہنے سے بھی موت نہیں آئے گی یہ عقیدہ پختہ رکھتے ہوئے محض آب وہوا کی تبدیلی کے لئے یہاں سے چلا جائے تو وہ بھی ممانعت سے مستثنے ہے۔
اسی طرح کوئی آدمی کسی ضرورت سے اس جگہ میں داخل ہو جہاں وباء پھیلی ہوئی ہے اور عقیدہ اس کا پختہ ہو کہ یہاں آنے سے موت نہیں آئے گی وہ اللہ کی مشیت کے تابع ہے تو ایسی حالت میں اس کے لئے وہاں جانا بھی جائز ہوگا۔
تیسرا مسئلہاس آیت سے یہ مستفاد ہوا کہ بخوف موت جہاد سے بھاگنا بھی حرام ہے، قرآن کریم میں یہ مسئلہ دوسری جگہ زیادہ تفصیل اور وضاحت سے آیا ہے جس میں بعض خاص صورتوں کو مستثنے ٰ بھی فرمایا گیا ہے، جو مضمون اس آیت کا ہے تقریباً یہی مضمون دوسری آیت میں جہاد سے بھاگنے والوں یا اس میں شامل نہ ہونے والوں کے بارے میں آیا ہے ارشاد یہ ہے
اَلَّذِيْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْ آ قُلْ فَادْرَءُوْا عَنْ اَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (168: 3) یعنی کچھ لوگ خود بھی جہاد میں شریک نہ ہوئے اور جہاد میں شریک ہو کر شہید ہوجانے والوں کے متعلق لوگوں سے کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے ہماری بات نہ سنی اس لئے مارے گئے اگر یہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے (آنحضرت ﷺ کو حکم ہوا کہ) آپ ان سے فرما دیں کہ اگر موت سے بچنا تمہارے اختیار میں ہے تو اوروں کی کیا فکر کرتے ہو تم خود اپنی فکر کرو اور اپنے آپ کو موت سے بچالو یعنی جہاد میں جانے پر موقوف نہیں تمہیں گھر بیٹھے ہوئے بھی آخر موت آئے گی،
عجائب قدرت سے ہے کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین کے سب سے بڑے جنگی جرنیل سیف اللہ حضرت خالد بن ولید جن کی اسلامی عمر ساری جہاد ہی میں گذری ہے وہ کسی جہاد میں شہید نہیں ہوئے بیمار ہو کر گھر میں وفات پائی وفات کے قریب اپنے بستر پر مرنے کا افسوس کرتے ہوئے گھر والوں کو خطاب کرکے فرمایا کہ میں فلاں فلاں عظیم الشان جنگوں اور جہادوں میں شریک ہوا اور میرا کوئی عضو ایسا نہیں جس میں تیر یا نیزے یا چوٹ کے زخم کا اثر ونشان نہ ہو مگر افسوس ہے کہ میں اب گدھے کی طرح بستر پر مر رہا ہوں خدا تعالیٰ بزدلوں کو آرام نہ دے ان کو میری نصیحت پہنچاؤ، اس آیت میں بنی اسرائیل کا یہ واقعہ بطور تمہید لایا گیا تھا اگلی آیت میں جہاد و قتال کا حکم دیا گیا جو اس قصہ کے ذکر کرنے سے اصل مقصود تھا کہ جہاد میں جانے کو موت یا بھاگنے کو نجات نہ سمجھو بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرکے فلاح دارین حاصل کرو اللہ تعالیٰ تمہاری سب باتیں سننے والے اور جاننے والے ہیں۔
تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی فضیلت کا ذکر ہے۔
Top