Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 15
وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا وَّ ظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ۩  ۞
وَلِلّٰهِ : اور اللہ ہی کو يَسْجُدُ : سجدہ کرتا ہے مَنْ : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین طَوْعًا : خوشی سے وَّكَرْهًا : یا ناخوشی سے وَّظِلٰلُهُمْ : اور ان کے سائے بِالْغُدُوِّ : صبح وَالْاٰصَالِ : اور شام
اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سجدہ ریز ہوتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے خوشی سے یا ناخوشی سے ، اور ان کے سائے بھی صبح اور پچھلے پہر ۔
(ربط آیات) گذشتہ آیات میں اللہ نے شرک اور مشرک کی تردید اور توحید کے دلائل بیان کیے تھے ، آج کی آیات میں بھی سابقہ مضمون کے تسلسل میں ہی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اس سورة مبارکہ میں قرآن کی حقانیت ، وصداقت ، نبوت و رسالت اور قیامت کا ذکر ہی زیادہ تر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا پکارنا ہی برحق ہے ، جو لوگ دوسروں کو بھی پکارتے ہیں ، وہ ان کا کوئی جواب نہیں دے سکتے ، اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص دریا یا کنویں پر کھڑا ہو کر پکارے کہ پانی اس کے منہ میں خود بخود چلا جائے یا وہ پانی کو اپنی مٹھی میں بند کرنا چاہے ، فرمایا جس طرح یہ دونوں چیزیں ممکن نہیں اسی طرح غیر اللہ کو مافوق الاسباب پکارنا بھی بےسود ہے ، وہ ان کو کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے ۔ (ہر چیز سجدہ کرتی ہے ) سورة حج اور بعض دیگر سورتوں میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ انسانوں میں دو گروہ پائے جاتے ہیں ، ایک وہ جو اپنے اختیار اور ارادے سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں ، اور دوسرا گروہ وہ ہے جو اپنے اختیار اور ارادے سے توحید الہی کو نہیں مانتے اور ان پر عذاب الہی ثابت ہوچکا ہے ، اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انسانوں کے علاوہ باقی تمام چیزیں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہیں ۔ (آیت) ” وللہ یسجد من فی السموت والارض “۔ اور اللہ ہی کے لیے سجدہ ریز ہوتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے آسمانی مخلوق اللہ کے فرشتے ہیں اور فضا میں دوسری چیزیں بھی ہیں ، اسی طرح زمین پر مختلف قسم کی چیزیں ہیں جن میں انسان ، جانور ، درخت ، پہاڑ وغیرہ ہیں ، یہ سب اپنے پروردگار کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں (آیت) ” طوعا وکرھا “۔ خوشی سے یا ناخوشی سے ، خوشی سے مراد یہ ہے کہ اپنے اختیار اور ارادے سے سجدہ کرتے ہیں جو ایماندار ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچان کر بخوشی اسکے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور جو نافرمان مشرک اور کافر ہیں وہ اپنی خوشی سے نہ تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچانتے ہیں اور نہ اسکے سامنے سجدہ کرتے ہیں ایسے لوگ خدا تعالیٰ کے تکوینی اصول کے مطابق سجدہ کرنے پر مجبور ہیں ، اگر وہ خود نہیں جھکتے تو ان کا سایہ تو بہرحال صبح وشام اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے ، یہ ناخوشی کا سجدہ ہے ، اسی طرح انسان موت کے قانون میں بھی جکڑا ہوا ہے ، اگرچہ وہ اس پر ناخوش ہے ، مگر موت ہر صورت میں آکر رہے گی ، تو فرمایا اللہ کے لیے ہر چیز سجدہ ریز ہوتی ہے خوشی سے یا مجبور سے ۔ سجدہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور نیاز مندی کا نام ہے اور یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس وقت ابن آدم کو سجدے کا حکم ہوا تو اس نے سجدہ کیا (آیت) ” فلہ جنۃ “ پس اس کے بدلے میں اسے جنت ملے گی ، مگر افسوس ہے میری حالت پر کہ مجھے سجدے کا حکم دیا گیا ، تو میں نے سجدہ نہ کیا ” فلی نار “ پس میرے لیے دوزخ ہے ، محدثین فرماتے ہیں کہ شیطان کا واویلا کرنا بربنائے حسد ہے ، وگرنہ وہ اس طرح نادم نہیں ہوتا جس طرح کوئی شخص اپنی غلطی کا اعتراف کرکے تائب ہوجاتا ہے ۔ بہرحال انسان کے لیے وہی سجدہ کارگر ہوگا ، جو اس نے اپنے ارادے اور اختیار سے کیا ہوگا ۔ اور جو کوئی مجبورا سجدہ ریز ہوگا ۔ جیسے سایہ کا سجدہ ، یا اللہ کے تکوینی اصولوں کے مطابق غیرارادی سجدہ ہرگز مفید نہیں ہوگا ۔ فرمایا (آیت) ” وظللھم بالغدو والاصال “۔ اور ان کے سائے بھی سجدہ ریز ہوتے ہیں صبح بھی اور پچھلے پہر کو بھی ، جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے اگر انسان اللہ کو سجدہ نہ بھی کرے اور اکٹر جائے تو اس کا سایہ تو بہرحال زمین پر ہی سجدہ ریز ہوتا ہے ، اس مضمون کو سورة نحل میں بھی بیان کیا گیا ہے ۔ (آیت) ” اولم یروا الی ما خلق اللہ من شیء یتفیؤ ظللہ عن الیمین والشمآئل سجدا للہ وھم دخرون “۔ کیا ان لوگوں نے مخلوق خدا میں ایسی چیزیں نہیں دیکھیں ، جن کے سائے دائیں اور بائیں سے لوٹتے رہتے ہیں اور خدا کے آگے عاجز ہو کر سجدے میں پڑے رہتے ہیں ، اگلی آیت میں یہ بھی فرمایا کہ تمام جاندار جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ، سب خدا کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور فرشے بھی ، اور وہ ذرا غرور نہیں کرتے ۔ یہاں پر صبح کے وقت کو مفرد استعمال کیا گیا ہے اور پچھلے پہر کو جمع اگلی آیت میں بھی نور کو واحد اور ظلمت کو جمع کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے گویا صبح کو روشنی سے اور پچھلے پہر کو اندھیرے سے تعبیر کیا گیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ روشنی ایک ہی ہے اور اندھیرے بہت سے ہیں ، نور ایمان ایک روشنی ہے جب کہ اندھیرے مختلف ہیں جیسے روحانی اندھیرے اور مادی اندھیرے ، اندھیرا کفر کا بھی ہوتا ہے ، اور شرک کا بھی ، نفاق کا اندھیرا بھی ہے اور ریاکاری کا بھی ، اندھیرا قبر کا بھی ہوگا اور پل صراط کا بھی اور پھر انسان کے دل و دماغ میں بھی اندھیرے ہوتے ہیں ۔ حدیث شریف میں 1 (بخاری ص 331 ج 1) ” الظلم ظلمت یوم القیمۃ “ قیامت والے دن اندھیرا کئی قسم کی شکلوں میں نظر آئے گا ۔ (سجدہ تلاوت) قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ ان مقامات میں سے ہے جن کو پڑھنے سے سجدہ لازم آتا ہے ، اسے سجدہ تلاوت کہتے ہیں اور یہ قرآن کریم کے چودہ مقامات پر آتا ہے ، امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک یہ سجدہ واجب ہے جب کہ امام مالک (رح) کے نزدیک گیارہ سجدے واجب ہیں جب کہ باقی تین غیر مؤکدہ ہیں ، البتہ باقی ائمہ اور محدثین سجدہ تلاوت کو سنت کا درجہ دیتے ہیں ، واجب نہیں سمجھتے ، آیت سجدہ کو پڑھنے اور سننے والے سب پر سجدہ واجب ہوجاتا ہے ، ان آیات میں یا تو سجدہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے یا سجدے کا حکم دیا گیا ہے اور یا سجدہ نہ کرنے والوں کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے ، لہذا امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک زیادہ قومی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سجدہ واجب ہے ۔ جس وقت آیت سجدہ تلاوت کی جائے تو وہ پڑھنے والا ہے یا سننے والا اگر سجدہ کی شرائط پوری کرتا ہے تو فورا سجدہ کرلے اور اگر اس کے لیے تیار نہیں تو بعد میں جب بھی موقع ملے ، سجدہ کرے ، حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے ایک مجلس میں سورة نجم کی آخری آیت تلاوت فرمائی اور اسی مجلس میں سجدہ کیا ، آپ کے ساتھ تمام مسلمانوں نے بھی سجدہ ادا کیا ، اس کے علاوہ کچھ کافر اور مشرک بھی مجلس میں موجود تھے وہ بھی سجدہ کرنے پر مجبور ہوگئے ، صرف ایک بوڑھا کافر ایسا تھا جس نے سجدہ تو نہ کیا ، البتہ تھوڑی سی مٹی لے کر اپنی پیشانی پر لگالی یہ شخص ابی ابن خلف ابن خلف تھا ، حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اس شخص کو بدر کی جنگ میں بحالت کفر مرتے ہوئے دیکھا ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے یہ نکتہ اٹھایا ہے ۔ 2 (حجۃ اللہ البالغہ ص 14 ج 2) کہ حضور ﷺ نے تو حکم الہی کے مطابق سجدہ کیا اور مسلمانوں نے آپ کے اتباع میں ایسا کیا ، مگر مشرکوں نے کیسے سجدہ کردیا ؟ اس کے جواب میں شاہ صاحب ؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضور ﷺ تلاوت فرما رہے تھے اس وقت خدا تعالیٰ کی قہری تجلی نازل ہو رہی تھی جس کی وجہ سے کافر اور مشرک بھی سجدہ کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ (مسائل سجدہ تلاوت) سجدہ تلاوت کے لیے بھی وہی شرائط ہیں جو نماز کے سجدہ کے لیے ہیں یعنی انسان باطہارت ہو ، اس کے کپڑے اور جسم پاک ہو اور وہ قبلہ روہ ہو کر سجدہ کرے ، اس سجدہ کی دو تکبیریں ہوتی ہیں ، اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں جائے ، تسبیح پڑھے اور پھر اکبر کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہو ، اس میں رفع یدین کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کوئی آدمی کسی ایک مجلس میں متعدد بار بھی آیت سجدہ پڑے گا ، یا سنے گا تو سجدہ ایک ہی واجب ہوگا ، البتہ اگر مقام تبدیل ہوجائے تو ہر مقام پر پڑھنے یا سننے پر ایک سجدہ لازم آئے گا ، جیسا کہ پہلے عرض کیا نماز کی طرح سجدہ تلاوت کے لیے بھی باوضو ہونا ضروری ہے مگر مولانا مودودی کا یہ نظریہ درست نہیں ہے کہ سجدہ تلاوت بغیر وضوء کے بھی ہوسکتا ہے۔ ایک ضروری مسئلہ یہ بھی ہے کہ سجدہ تلاوت صرف اس وقت لازم آئے گا ، جب قرآن پاک کے اصل الفاظ پڑھے یا سنے گا ، اگر کوئی شخص آیت سجدہ کا محض ترجمہ پڑھے یا سنے گا تو اس پر سجدہ واجب نہیں ہوگا سورة مزمل میں (آیت) ” فاقرء وا ماتیسر من القران “ سے یہی واضح ہوتا ہے کہ قرآن کو اس کے الفاظ میں پڑھنا ضروری ہے اسی لیے نماز میں بھی اصل قرآن پڑھنا ضروری ہے کی دوسری زبان میں محض ترجمہ پڑھنے سے نماز ادا نہیں ہوگی ۔ البتہ بعض مفتیان کرام فرماتے ہیں کہ سجدہ تلاوت کے لیے مجلس میں موجود آدمی کا آیت سجدہ پڑھنا ضروری ہے ، اگر کسی نے گرامو فون ، ٹیپ ریکارڈر ، ریڈیو یا ٹیلیوثرن پر سجدہ کی آیت سنی ہے تو اس پر سجدہ نہیں آئے گا ، مگر صحیح بات یہی ہے کہ اگر الفاظ قرآن کسی انسان نے پڑھے ہیں اور وہی سننے میں بھی آئے تو ذریعہ سماعت کوئی بھی ہو ، اس پر سجدہ کرلینا ہی بہتر ہے ۔ (آسمان و زمین کا رب) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” قل من رب السموت والارض “۔ اے پیغمبر ﷺ ! آپ کہہ دیجئے کہ کون ہے رب آسمان کا اور زمین کا ، رب کا معنی پرورش کرنے والا ہے ، عربی میں اس کو کہتے ہیں تربیۃ الشیء حالا فحالا “ یعنی کسی چیز کو بتدریج حدکمال تک پہنچایا ، انسان حیوان یا پودا کوئی بھی ہو اسے حد کمال تک پہنچنے کے لیے ایک زمانہ صرف ہوتا ہے ، اور یہ کام آہستہ آہستہ کون کرتا ہے ۔ فرمایا (آیت) ” قل اللہ “ اے پیغمبر ! آپ اس کا جواب یہ دیں کہ وہ اللہ ہی ہے جو ہر چیز کی تربیت کرکے اسے حد کمال تک پہنچاتا ہے ، اور اگر حقیقت یہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں تو (آیت) ” قل افاتخذتم من دونہ اولیاء “۔ آپ کہہ دیجئے ، کیا تم نے اس کے سوا دوسروں کو کار ساز بنا لیا ہے ؟ مطلب یہ ہے کہ جب پرورش کرنے والا اور حد کمال تک پہنچانے والا فقط اللہ ہے تو تم مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لیے دوسروں کے آگے دست سوال کیوں دراز کرتے ہو ؟ آگے خلق کی دلیل بھی آرہی ہے کہ اللہ کے سوا خالق بھی کوئی نہیں اور کار ساز بھی کوئی نہیں تو پھر اس کے سوا معبود بھی کوئی نہیں ، مافوق الاسباب اسی کو پکارو اور اسی سے حاجت روائی کے لیے درخواست کرو ، یہ شرک کی تردید ہو رہی ہے فرمایا اگر تم اللہ کے سوا دوسروں کو پکارو گے ، انکی حد درجہ تعظیم کرو گے ، ان کے نام کی نذر ونیاز دو گے تو یاد رکھو کہ وہ تمہاری حاجت براری کیا کریں گے (آیت) ” لایملکون لانفسھم نفعا ولا ضرا “۔ وہ تو اپنی جان کے نفع ونقصان کے مالک بھی نہیں ہیں ۔ یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے (آیت) ” قل انی لا املک لکم ضرا ولا رشدا “۔ (الجن) آپ کہہ دیں کہ میں تمہارے کسی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں ، اللہ تعالیٰ نے سورة یونس میں اپنے نبی (علیہ السلام) سے یہ بھی فرمایا ہے (آیت) ” قل لا املک لنفسی ضرا ولا نفعا الا ما شآء اللہ “۔ آپ کہہ دیں کہ میں تو اپنی جان کے لیے بھی کسی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر جو اللہ چاہے النافع اور الضار اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور وہی اس کا مالک ہے اس کے سوا کسی کے نفع نقصان پر کوئی قادر نہیں ۔ (مشرک اور موحد کا تقابل) ارشاد ہوتا ہے ” قل ھل یستوی الاعمی والبصیر “۔ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کیا برابر ہے اندھا اور دیکھنے والا ؟ (آیت) ” ام ھل تستوی الظلمت والنور “۔ یا کیا برابر ہیں اندھیرے اور روشنی ، کوئی عقلمند آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ بینا اور نابینا برابر ہیں یا روشنی اور اندھیرا برابر ہیں ، یہ دراصل مشرک اور موحد کی مثال ہے مشرک دل کا اندھا ہے جسے توحید کی روشنی نظر نہیں آتی اور وہ شرک کی نجاست میں ہی پڑا ہوا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” انما المشرکون نجس “۔ (التوبہ) بیشک مشرک ناپاک ہیں ، سورة حج میں ہے (آیت) ” فاجتنبوالرجس من الاوثان “۔ بت پرستی کی گندگی اور نجاست سے بچو ، قلبی طہارت تو نور ایمان سے حاصل ہوتی ہے اور دین کی سمجھ آتی ہے اور مستقبل کے بارے میں بھی عقیدہ پاک ہوجاتا ہے تو فرمایا نہ تو اندھا اور بینا برابر ہیں اور نہ ہی اندھیرے اور روشنی ، لہذا مشرک اور مؤحد بھی برابر نہیں ہو سکتے ، مشرک کی بخشش کا کوئی جانس نہیں جبکہ موحد اللہ کی ابدی رحمت میں ہوگا ۔ (شرک کی تردید) آگے اللہ نے شرک کی تردید ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے ۔ (آیت) ” ام جعلوا للہ شرکاء “ کیا انہوں نے اللہ کے لیے شریک ٹھہرا لیے (آیت) ” خلقوا کخلقہ “۔ اور ان شرکاء نے بھی اسی طرح مخلوق پیدا کی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے (آیت) ” فتشابہ الخلق علیھم “ اور اس پیدائش کا ان پر شبہ پڑگیا ، یعنی پتہ ہی نہیں چلتا کہ خدا کی مخلوق کون سی ہے اور شرکاء کی کون سی ہے ، فرمایا ایسی کوئی بات نہیں ہے ، ان شرکاء نے کسی مخلوق کو پیدا نہیں کیا ، بلکہ (آیت) ” قل اللہ خالق کل شیء “۔ آپ کہہ دیں کہ ہر چیز کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہے اور باقی سب مخلوق ہے مخلوق میں نہ تو ربوبیت کا کرشمہ مانا جاتا ہے اور نہ وہ کارساز بن سکتی ہے ، مشرکین کا دوسروں کو کارساز بنانا تو خلاف واقعہ اور صریح شرک ہے قرآن کریم میں دوسری جگہ موجود ہے (آیت) ” ارونی ماذا خلقوا من الارض “ (فاطر) مجھے دکھاؤ تو سہی تمہارے شرکاء نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے ، کوئی انسان ، جانور ، پہاڑ ‘ درخت ، اناج کیڑے مکوڑے حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کا پیدا کردہ ہے اور ان میں کسی شریک کیا کوئی حصہ نہیں ۔ بعض مشرکین ایک کے بجائے کئی کئی خدا تسلیم کرتے ہیں ، مثلا ہندوؤں کے نزدیک پیدا کرنے برہما جی مہاراج ہے ، جب کہ قائم کرنیوالا وشنو جی مہاراج اور فنا کرنے والا شیوجی مہاراج ہے ۔ ادھر عیسائیوں نے بھی باپ بیٹا اور روح القدس میں تین خدا تسلیم کرلیے ہیں ، مجوسیوں نے اہرمن اور یزدان دو خداؤں کو مانا مگر اللہ نے فرمایا کہ خدا نہ دو ہیں نہ تین اور نہ زیادہ بلکہ (آیت) ” وھو الواحدالقھار “۔ وہ اکیلا اور ہر چیز کو دبا کر رکھنے والا ہے ، (آیت) ” الحی القیوم “ یعنی زندہ اور تھامنے والا بھی وہی ہے (آیت) ” یحی ویمیت “۔ یعنی زندہ کرنے والا اور مارنے والا بھی وہی ہے (آیت) ” الا لہ الخلق والامر “۔ تمام پیدائش بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے اور جو خالق ہے الہ بھی وہی ہے وہ قادر مطلق اور علیم کل ہے ، وہ ہمہ بین ، ہمہ دان اور ہمہ تو ان ہے ، حاجت روا اور مشکل کشا ہے ، جو کوئی یہ صفات غیر اللہ میں مانے گا وہ مشرک ٹھہرے گا ، غرضیکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی جڑ کاٹ دی ہے ۔ فرمایا وہ اکیلا بھی ہے اور قہار بھی ہے ، اس کی یگانگت میں اس کا کوئی شریک نہیں ، اس کا وجود ذاتی ہے اور کسی کا عطا کردہ نہیں جب باقی تمام اشیاء اس کی عطاکردہ ہیں ، جب ہر چیز اسی کی عطاکردہ ہے تو ہر چیز پر کنٹرول بھی اسی کا ہے (آیت) ” ھو القاھر فوق عبادہ “ (الانعام) قہر کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کو دبا کر رکھنا اس کے دباؤ سے کوئی چیز باہر نہیں ، وہم مہلت بھی دیتا ہے مگر جب چاہتا ہے رسی کھینچ لیتا ہے ، اس کے تسلط سے کوئی چیز باہر نہیں ، لہذا انسانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اختیار اور ارادے سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کریں اور اسی کے سامنے سجدہ ریز ہوں ، اسی کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھیں اور اپنی حاجات میں اسی کے سامنے درست سوال دراز کریں ۔
Top