Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 35
وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَقُلْنَا
: اور ہم نے کہا
يَا آدَمُ
: اے آدم
اسْكُنْ
: تم رہو
اَنْتَ
: تم
وَزَوْجُکَ
: اور تمہاری بیوی
الْجَنَّةَ
: جنت
وَكُلَا
: اور تم دونوں کھاؤ
مِنْهَا
: اس میں سے
رَغَدًا
: اطمینان سے
حَيْثُ
: جہاں
شِئْتُمَا
: تم چاہو
وَلَا تَقْرَبَا
: اور نہ قریب جانا
هٰذِهِ
: اس
الشَّجَرَةَ
: درخت
فَتَكُوْنَا
: پھر تم ہوجاؤگے
مِنَ الظَّالِمِیْنَ
: ظالموں سے
اور ہم نے کہا اے آدم رہا کر تو اور تیری عورت جنت میں اور کھاؤ اس میں جو چاہو جہاں کہیں سے چاہو اور پاس مت جانا اس درخت کے پھر تم ہوجاؤ گے ظالم
خلاصہ تفسیر
اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم رہا کرو تم اور تمہاری بی بی (جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے آدم ؑ کی پسلی سے کوئی مادہ لے کر بنادیا تھا) بہشت میں پھر کھاؤ دونوں اس میں سے بافراغت جس جگہ سے چاہو اور نزدیک نہ جائیو اس درخت کے ورنہ تم بھی انہی میں شمار ہوجاؤ گے جو اپنا نقصان کر بیٹھے ہیں (خدا جانے وہ کیا درخت تھا مگر اس کے کھانے سے منع فرما دیا اور پھر آقا کو اختیار ہے کہ اپنے گھر کی چیزوں سے غلام کو جس چیز کے برتنے کی چاہے اجازت دیدے اور جس چیز کو چاہے منع کردے) پس لغزش دے دیآدم وحوا کو شیطان نے اس درخت کی وجہ سے سو برطرف کرکے رہا ان کو اس عیش سے جس میں وہ تھے اور ہم نے کہا کہ نیچے اترو تم میں سے بعضے بعضوں کے دشمن رہیں گے اور تم کو زمین پر کچھ عرصہ ٹھہرنا ہے اور کام چلانا ایک میعاد معین تک (یعنی وہاں جاکر بھی دوام نہ ملے گا کچھ عرصہ کے بعد وہ گھر بھی چھوڑنا پڑے گا)
معارف و مسائل
یہ آدم ؑ کے قصہ کا تکملہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جس آدم ؑ کی فضیلت اور خلافت ارضی کیلئے صلاحیت فرشتوں پر واضح کردی گئی انہوں نے تسلیم کرلیا اور ابلیس اپنے تکبر اور معارضہ کی وجہ سے کافر ہو کر نکال دیا گیا تو آدم ؑ اور ان کی زوجہ حوّا کو یہ حکم ملا کہ تم دونوں جنت میں رہو اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ مگر ایک معین درخت کے لئے یہ ہدایت کی کہ اس کے پاس نہ جانا یعنی اس کے کھانے سے مکمل پرہیز کرنا شیطان جو آدم ؑ کی وجہ سے مردود ہوا وہ خار کھائے ہوئے تھا اس نے کسی طرح موقع پاکر اور مصلحتیں بتلا کر ان دونوں کو اس درخت کے کھانے پر آمادہ کردیا ان کی لغزش کی وجہ سے ان کو بھی یہ حکم ملا کہ اب تم زمین پر جاکر رہو اور یہ بھی بتلا دیا کہ زمین کی رہائش جنت کی طرح بےغل وغش نہ ہوگی بلکہ آپس میں اختلافات اور دشمنیاں بھی ہوں گی جس سے زندگی کا لطف پورا نہ رہے گا،
وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ اور ہم نے کہا کہ اے آدم ! ٹھرو تم اور تمہاری زوجہ جنت میں یہ واقعہ حضرت آدم ؑ کی تخلیق اور ملائکہ کے سجدہ کے بعد کا ہے بعض حضرات نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ تخلیق اور سجدہ کا واقعہ جنت سے باہر کہیں ہوا ہے اس کے بعد جنت میں داخل کیا گیا لیکن ان الفاظ میں یہ مفہوم یقینی نہیں بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تخلیق بھی جنت میں ہوئی اور سجدے کا واقعہ بھی جنت میں پیش آیا مگر اس وقت تک ان کو کوئی فیصلہ اس کے متعلق نہیں سنایا گیا تھا کہ آپ کا مسکن ومستقر کہاں ہوگا اس واقعہ کے بعد یہ فیصلہ سنایا گیا،
وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا۔ رَغَدًا کے معنی عربی لغت میں اس نعمت ورزق کے ہیں جس کے حاصل کرنے میں کوئی محنت ومشقت بھی نہ ہو اور وہ اتنی کثیر اور وسیع ہو کہ اس کے کم یا ختم ہوجانے کا خطرہ نہ ہو معنی یہ ہوئے کہ آدم وحوّا (علیہما السلام) کو فرمایا کہ جنت کے پھل با فراغت استعمال کرتے رہو نہ ان کے حاصل کرنے میں تمہیں کسی محنت کی ضرورت ہوگی اور نہ یہ فکر کہ یہ غذا ختم یا کم ہوجائے گی، وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَة کسی خاص درخت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا گیا کہ اس کے قریب نہ جاؤ اصل مقصد تو یہ تھا کہ اس کا پھل نہ کھاؤ مگر تاکید کے طور پر عنوان یہ اختیار کیا گیا کہ اس کے پاس بھی نہ جاؤ اور مراد یہی ہے کہ کھانے کے لئے اس کے پاس نہ جاؤ یہ درخت کونسا تھا قرآن کریم نے متعین نہیں کیا اور کسی مستند حدیث میں بھی اس کی تعین مذکور نہیں ائمہ تفسیر میں سے کسی نے گندم کا درخت قرار دیا کسی نے انگور کا کسی نے انجیر کا مگر جس کو قرآن و حدیث نے مبہم چھوڑا ہے اس کو متعین کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے (قرطبی)
فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِينَ یعنی اگر آپ نے اس شجر ممنوعہ کو کھایا تو آپ ظالموں میں داخل ہوجائیں گے،
آیات مذکورہ سے متعلقہ مسائل و احکام شرعیہ
اُسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ میں حضرت آدم وحوا (علیہما السلام) دونوں کے لئے جنت کو مسکن بنانے کا ارشاد ہے جس کو مختصر لفظوں میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے اسکنا الجنۃ یعنی آپ دونوں جنت میں رہیں جیسا کہ اس کے بعد کلا اور لاتقربا میں دونوں کو ایک ہی صیغہ میں جمع کیا گیا ہے مگر یہاں اس کے خلاف اَنْتَ وَزَوْجُكَ کے الفاظ کو اختیار کرنے میں مخاطب صرف حضرت آدم ؑ کو قرار دیا اور انہی سے فرمایا کہ آپ کی زوجہ بھی جنت میں رہے اس میں دو مسئلوں کی طرف اشارہ ہے،
مسئلہاول یہ کہ بیوی کے لئے رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ ہے دوسرے یہ کہ سکونت میں بیوی شوہر کے تابع ہے جس میں شوہر رہے اس میں اس کو رہنا چاہئے،
مسئلہلفظ اُسْكُنْ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اس وقت ان دونوں حضرات کے لئے جنت کا قیام محض عارضی تھا دائمی قیام جو شان ملکیت کی ہوتی ہے وہ نہ تھی کیونکہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ آئندہ ایسے حالات پیش آئیں گے کہ آدم وحوا (علیہما السلام) کو جنت کا مکان چھوڑنا پڑے گا نیز جنت کا استحقاق ملکیت ایمان اور عمل صالح کرکے معاوضہ میں حاصل ہوتا ہے جو قیامت کے بعد ہوگا اسی سے حضرات فقہاء نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو کہے کہ میرے گھر میں رہا کرو یا یہ کہ میرا گھر تمہارا مسکن ہے اس سے مکان کی ملکیت اور دائمی استحقاق اس شخص کو حاصل نہیں ہوتا (قرطبی)
غذا و خوراک میں بیوی شوہر کے تابع نہیں
وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا یعنی کھاؤ تم دونوں جنت سے بافراغت اس میں بطرز مذکور سابق خطاب صرف حضرت آدم ؑ کو نہیں کیا گیا بلکہ دونوں کو ایک ہی لفظ میں شریک کرکے وَكُلَا مِنْهَا فرمایا اس میں اشارہ اس کی طرف ہوسکتا ہے کہ غذاء اور خوراک میں بیوی شوہر کے تابع نہیں وہ اپنی ضرورت و خواہش کے وقت اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے اور یہ اپنی خواہش کے مطابق۔
ہر جگہ چلنے پھرنے کی آزادی انسان کا فطری حق ہے
رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا لفظ رَغَدًا ماکولات میں وسعت و کثرت کی طرف اشارہ ہے کہ جو چیز جتنی چاہیں کھا سکتی ہیں بجز ایک درخت کے اور کسی چیز میں رکاوٹ اور ممانعت نہیں اور لفظ شئتما میں مقامات کی وسعت کا بیان ہے کہ پوری جنت میں جہاں چاہیں جس طرح چاہیں کھائیں کوئی خطہ ممنوع نہیں اس میں اشارہ ہے کہ چلنے پھرنے اور مختلف مقامات سے اپنی ضروریات حاصل کرنے کی آزادی انسان کا فطری حق ہے ایک محدود ومعین مقام یا مکان میں اگرچہ ضرورت و خواہش کی ساری چیزیں مہیا کردی جائیں مگر وہاں سے باہر جانا ممنوع ہو تو یہ بھی ایک قسم کی قید ہے اس لئے حضرت آدم ؑ کو کھانے پینے کی تمام چیزیں بکثرت و فراغت عطا کردینے پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ حَيْثُ شِـئْتُمَـا فرما کر ان کو چلنے پھرنے اور ہر جگہ جانے کی آزادی بھی دی گئی۔
سید ذرائع کا مسئلہ
وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ یعنی اس درخت کے قریب بھی نہ جاؤ ظاہر ہے کہ اصل مقصد تو یہ تھا کہ اس درخت یا اس کے پھل کو نہ کھاؤ، مگر احتیاطی حکم یہ دیا گیا کہ اس کے قریب بھی نہ جاؤ اس سے اصول فقہ کا مسئلہ سدّ ذرائع ثابت ہوا یعنی بعض چیزیں اپنی ذات میں ناجائز یا ممنوع نہیں ہوتیں لیکن جب یہ خطرہ ہو کہ ان چیزوں کے اختیار کرنے سے کسی حرام ناجائز کام میں مبتلا ہوجائے گا تو اس جائز چیز کو بھی روک دیا جاتا ہے جیسے درخت کے قریب جانا ذریعہ بن سکتا تھا اس کے پھل پھول کھانے کا اس ذریعہ کو بھی منع فرما دیا گیا اسی کا نام اصول فقہ کی اصطلاح میں سدذرائع ہے،
مسئلہ عصمت انبیاء (علیہم السلام)
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم ؑ کو کسی خاص درخت کے کھانے سے منع فرمایا گیا تھا اور اس پر بھی متنبہ کردیا گیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گناہ میں مبتلا کردے اس کے باوجود حضرت آدم ؑ نے اس درخت سے کھالیا جو بظاہر گناہ ہے حالانکہ انبیاء (علیہم السلام) گناہ سے معصوم ہوتے ہیں تحقیق یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت تمام گناہوں سے عقلا اور نقلا ثابت ہے ائمہ اربعہ اور جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں اور بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ صغیرہ گناہ ان سے بھی سرزد ہوسکتے ہیں جمہور امت کے نزدیک صحیح نہیں (قرطبی)
وجہ یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو لوگوں کا مقتدا بنا کر بھیجا جاتا ہے اگر ان میں سے بھی کوئی کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف خواہ گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ صادر ہوسکے تو انبیاء کے اقول و افعال سے امن اٹھ جائے گا اور وہ قابل اعتماد نہیں رہیں گے جب انبیاء (علیہم السلام) ہی پر اعتماد و اطمینان نہ رہے تو دین کا کہاں ٹھکانہ ہے،
البتہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں متعدد انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق ایسے واقعات مذکور ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے گناہ سرزد ہوا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عتاب بھی ہوا حضرت آدم ؑ کا یہ قصہ بھی اسی میں داخل ہے،
ایسے واقعات کا حاصل باتفاق امت یہ ہے کہ کسی غلط فہمی یا خطاء ونسیان کی وجہ سے ان کا صدور ہوجاتا کوئی پیغمبر جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے خلاف عمل نہیں کرتا غلطی اجتہادی ہوتی ہے یا خطاء ونسیان کے سبب قابل معافی ہوتی ہے جس کو اصطلاح شرع میں گناہ نہیں کہا جاسکتا اور یہ سہو ونسیان کی غلطی ان سے ایسے کاموں میں نہیں ہوسکتی جن کا تعلق تبلیغ وتعلیم اور تشریع سے ہوا بلکہ ان سے ذاتی افعال اور اعمال میں ایسا سہو ونسیان ہوسکتا ہے (تفسیر بحرا لمحیط)
مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انبیاء (علیہم السلام) کا مقام نہایت بلند ہے اور بڑوں سے چھوٹی سی غلطی بھی ہوجائے تو بہت بڑی غلطی سجھی جاتی ہے اس لئے قرآن حکیم میں ایسے واقعات کو معصیت اور گناہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس پر عتاب بھی کیا گیا ہے اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے وہ گناہ ہی نہیں۔
حضرت آدم ؑ کے اس واقعہ کے متعلق علماء تفسیر نے بہت سے توجیہات لکھی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں
اول یہ کہ جس وقت حضرت آدم ؑ کو منع کیا گیا تھا تو ایک خاص درخت کی طرف اشارہ کرکے منع کیا گیا کہ اس کے قریب نہ جاؤ اور مرادخاص یہی درخت نہیں تھا بلکہ اس کی جنس کے سارے درخت مراد تھے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ ریشمی کپڑا اور ایک ٹکڑا سونے کا ہاتھ میں لے کر ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں ظاہر ہے کہ حرمت صرف اس کپڑے اور سونے کے ساتھ مخصوص نہیں تھی جو آنحضرت ﷺ کے دست مبارک میں تھے بلکہ تمام ریشمی کپڑے اور سونے کا یہی حکم ہے لیکن یہاں کسی کو یہ وہم بھی ہوسکتا ہے کہ ممانعت صرف اس کپڑے اور سونے کے ساتھ وابستہ ہے جو اس وقت آپ کے دست مبارک میں تھے اسی طرح حضرت آدم ؑ کو یہ خیال ہوگیا کہ جس درخت کی طرف اشارہ کرکے منع کیا گیا تھا ممانعت اسی کے ساتھ خاص ہے شیطان نے یہی وسوسہ ان کے دل میں مزین اور مستحکم کردیا اور قسمیں کھا کر یہ باور کرایا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں تمہیں کسی ایسے کام کا مشورہ نہیں دے رہا جو تمہارے لئے ممنوع یا مضر ہو جس درخت کی ممانعت کی گئی ہے دوسرا ہے اس درخت کی ممانعت نہیں ہے،
اور یہ بھی ممکن ہے کہ شیطان نے یہ وسوسہ دل میں ڈالا ہو کہ اس درخت کی ممانعت صرف آپ کی ابتداء پیدائش کے وقت کے ساتھ مخصوص تھی جیسے چھوٹے بچوں کو اول عمر میں قوی غذا سے روکا جاتا ہے ہلکی غذاء دی جاتی ہے اور قوت پیدا ہوجانے کے بعد ہر غذاء کی اجازت ہوجاتی ہے تو اب آپ قوی ہوچکے ہیں اس لئے ممانعت باقی نہیں رہی۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت آدم ؑ کو جس شیطان نے اس درخت کے کھانے کے منافع بتلائے کہ اس کے کھانے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت کی نعمتوں میں رہنے کا اطمینان ہوجائے گا اس وقت ان کو وہ ممانعت یاد نہ رہی ہو ابتداء آفرینش کے وقت اس درخت کے متعلق کی گئی تھی قرآن مجید کی آیت فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (115: 20) یعنی حضرت آدم ؑ بھول گئے اور ہم نے ان میں پختگی نہ پائی یہ اسی احتمال کی تائید کرتی ہے،
بہرحال اس طرح کے متعدد احتمالات ہوسکتے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جان بوجھ کر نافرمانی کا صدور حضرت آدم ؑ سے نہیں ہوا بھول ہوگئی یا اجتہادی لغزش جو درحقیقت گناہ نہیں مگر حضرت آدم ؑ کی شان نبوت میں اور قرب خداوندی کے مقام عالی کے اعتبار سے یہ لغزش بھی بڑی سمجھی گئی اور قرآن میں اس کو معصیت کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا اور حضرت آدم ؑ کی توبہ و استغفار کے بعد معاف کرنے کا ذکر فرمایا گیا۔
اور یہ بحث فضول ہے کہ جب شیطان کو جنت سے مردود کرکے نکال دیا گیا تھا تو پھر وہ آدم ؑ کو بہکانے کے لئے وہاں کس طرح پہنچا ؟ کیونکہ شیطان کے بہکانے اور وسوسہ ڈالنے کے لئے ضروری نہیں کہ جنت میں داخل ہو کر ہی وسوسہ ڈالے جنات و شیاطین کو حق تعالیٰ نے قدرت دی ہے کہ وہ دوسرے بھی دل میں وسوسہ ڈال سکتے ہیں اور اگر داخل ہو کر بالمشافہ گفتگو ہی کو تسلیم کیا جائے تو اس کے بھی مختلف احتمالات ہوسکتے ہیں جس کی تحقیق میں پڑنا بےفائدہ اور لایعنی بحث ہے،
اسی طرح یہ سوال کہ حضرت آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ متنبہ کردیا تھا، اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ شیطان تمہارا دشمن ہے ایسا نہ کہ یہ کوئی ایسا کام کرادے جس کی وجہ سے تمہیں جنت سے نکلنا پڑے پھر آدم ؑ اس کے دھوکے میں کس طرح آگئے اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات و شیاطین کو مختلف شکلوں میں ظاہر ہونے کی قدرت عطا فرمائی ہے ممکن ہے کہ وہ کسی ایسی صورت میں سامنے آیا ہو جس کی وجہ سے حضرت آدم ؑ یہ نہ پہنچان سکے کہ یہ شیطان ہے،
Top